نیپال میں بے بی مسمی لاہور اور پاکستان
مالدیپ کے صدر دو روز کے مختصر دورے پر تشریف لائے اور ہمارے ساتھ دوستی کے پرانے رشتے تازہ کر گئے۔
Abdulqhasan@hotmail.com
ہمارا ایک پڑوسی دوست ہمارا مہمان ہے۔ مالدیپ کے صدر دو روز کے مختصر دورے پر تشریف لائے اور ہمارے ساتھ دوستی کے پرانے رشتے تازہ کر گئے۔ سو فی صد مسلمان آبادی والے اس بے حد خوبصورت ملک میں نہ جانے کتنے جزیرے ہیں اتنے کہ اس ملک کا نام ہی جزیروں پر رکھا گیا ہے۔
یہ چمکتے دمکتے جزیرے جو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ایک ہار اور مالا کی طرح ہیں یہ دیپ جزیرے ایک طویل مالا ہیں اور یہ سب مل کر مالدیپ کہلاتے ہیں۔ لاتعداد جزیروں میں بکھری ہوئی آبادی 'سارک' کا ایک غریب ملک ترتیب دیتی ہے لیکن اس کے جزیرے خوشحال ملکوں کے لیے بے حد پسندیدہ ہیں۔
ان جزیروں کے کناروں پر موٹے دانوں والی سفید ریت بکھری رہتی ہے جس سے سمندر کی نیلی موجیں دن رات کھیلتی رہتی ہیں اور ایک عجیب دلفریب منظر پیش کرتی ہیں۔ یورپ کے کئی ملکوں نے چند جزیرے لیز پر لے رکھے ہیں اور یہ انھی ملکوں کے نام سے پہچانے بھی جاتے ہیں۔
جرمن جزیرہ فرانسیسی جزیرہ وغیرہ وغیرہ۔ سرد علاقوں کے باشندے گرمیوں میں یہاں آ جاتے ہیں سرد ملکوں کے پرندوں کی طرح۔ رنگ رنگ کے پرندے اور سفید فام انسان مل جل کر یہاں پورا موسم گزار دیتے ہیں اور بڑی ہی ناقابل فراموش یادیں لے کر لوٹ جاتے ہیں۔ میں نے دو چار دن ان جزیروں کے قرب میں گزارے لیکن رات کو دارالحکومت کے ہوٹل میں واپس آ جاتے کہ ہمارا کوئی جزیرہ نہیں تھا اور نہ ہی شب بسری کا کوئی بندوبست۔
مالدیپ ایک کمزور سا ملک جو بھارت جیسے بے رحم ملک کا پڑوسی ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے پاکستان کی سمت دیکھتا ہے سارک کے دوسرے کئی ملکوں کی طرح ان سب کا محافظ پاکستان ہے خواہ ان میں نیپال جیسا ملک بھی کیوں نہ ہو جو دنیا کا واحد ہندو ملک ہے مگر وہ بھی بھارت سے تنگ ہے۔ اس کا باہر کا واحد راستہ بھارت سے ہو کر گزرتا ہے اور یہی راستہ نیپال کو تنگ کرتا رہتا ہے اور اسی راستے پر بھارتی سامراج بیٹھا ہوا ہے۔
نیپالی کہتے ہیں کہ جب بھارت نے بہت ہی تنگ کیا تو پاکستان ہمیں اس سے بچا لے گا اب انھیں کون بتائے کہ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو جو نیپال کو مایوس کریں گی۔ بہر حال چھوٹا سہی کمزور سہی نیپال ہمارا دوست ہے۔ ہمالہ کے سائے میں زندگی بسر کرنے والا یہ ملک اسی ہمالہ سے ہونے والی آمدنی پر جیتا ہے۔ ہمالہ کے سیاح اس کی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہیں۔
صدر ضیاء الحق نے جس طرح سری لنکا کو فوج بنا کر دی اور بدھ مت کے پیرو کاروں کو فوج پر قائل کیا اسی طرح انھوں نے نیپالیوں کو بھی حوصلہ دیا اور انھیں ان کی تنہائی کے خوف سے آزاد کیا۔ صدر ضیاء نے مالدیپ کی بھارت سے حفاظت کا وعدہ کیا اور اس سو فی صد مسلمان ملک کے تحفظ اور آزادی کی ذمے داری کو اپنا فرض تصور کیا۔
زلزلہ نے نیپال کو سب سے بڑی خبر بنا دیا ہے ایک چھوٹا سا ملک اپنے سے کہیں بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ اس مصیبت کے موقع پر پاکستان نے اپنے نیپالی دوستوں کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور ضرورت کا سامان مسلسل بھیجا جا رہا ہے۔ نیپالی اس پریشانی کے عالم میں اس دوستی اور خدمت کو محسوس کر رہے ہیں اور انھوں نے تو پاکستان کے امدادی کیمپوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے نام بھی پاکستان پر رکھنے شروع کر دیے ہیں۔ کوئی بچہ لاہور کے نام کا ہے تو کوئی پاکستان ہے۔ وہ جب بڑے ہوں گے تو پاکستان سے خاص تعلق کا ایک زندہ ثبوت ہوں گے۔
نیپال کی اس انتہائی مشکل میں اگر اس کا کوئی پڑوسی اس کی خدمت سے دور ہے تو وہ بھارت ہے اور نیپالی خود اس کا گلہ کر رہے ہیں۔ بہر کیف پاکستان اپنے اس پڑوسی کو مسلسل امدادی سامان بھجوا رہا ہے اور ڈاکٹر بھی زخمیوں کی خبر گیری کر رہے ہیں۔ نیپال اس تعلق اور برادرانہ جذبے کو یاد رکھے گا۔ اسے فراموش کرنا اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہو گا۔
اخباروں میں ایک دلچسپ خبر بھی چھپی ہے کہ برطانیہ کے شاہی خاندان میں ایک شہزادی کا اضافہ ہو گیا ہے اسے توپوں کی سلامی دی گئی ہے اس کا طویل شاہی نام رکھا گیا ہے اور برطانیہ والے اس کا جشن منا رہے ہیں۔ شہزادی کی تخت کی وراثت کا مسئلہ بھی فوراً ہی حل کر دیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ اس کی باری کب آئے گی اور اپنی اس باری پر وہ کب برطانیہ کی ملکہ بنے گی۔ صدیوں پرانی بادشاہتیں اب یورپ کے بعض ملکوں میں دکھائی دیتی ہیں اور کینیڈا جیسے ملک اگرچہ براہ راست بادشاہت نہیں رکھتے مگر وہ اپنے سابقہ شاہی خاندان کی وفاداری اور اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔
ہمارے ایک عالم اور لیڈر جو کینیڈا کے شہری ہیں بلکہ برطانیہ کے وفادار اور اطاعت گزار ہیں۔ بات اس زمانے میں بادشاہت کی ہو رہی تھی جس میں برطانیہ بہت نامور ہے اور اس کا شاہی خاندان مختلف محلات میں قیام پذیر ہے۔برطانیہ نے اپنی اس بادشاہت کو بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ کینیڈا' نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ اب تک اس کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔ برطانیہ کی بادشاہت کے بارے میں ایک تاریخی طنز مصر کے ایک عارضی بادشاہ نے کیا تھا۔
مصر کے شاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ باقی رہ جائیں گے چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔ شاہ فاروق کو کرنل نجیب اور ناصر کے انقلاب نے ملک بدر کر دیا تھا اور اسے اپنے ساتھ مال لے جانے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ بادشاہت کے بارے میں اس نے یہ فقرہ اپنی بادشاہت چھن جانے پر کیا تھا۔ وہ بعد میں اٹلی میں جا کر آباد ہو گیا۔
ہمارے عزیز ترین دوست ملک کا اردو نام چین ہے مگر ہم انگریزوں کی خوشامد میں اسے چائنا کہتے ہیں مگر چینیوں کو ہماری اس حرکت کا علم نہیں ہے اور وہ چینی ہی بولتے ہیں، جناب ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ میں کوئی گونگا ہوں کہ اپنی نہیں کوئی غیر ملکی زبان بولوں مگر ہم گونگے ہیں اور ان چینی دوستوں کے ساتھ بھی انگریزی بولتے ہیں اور جگ ہنسائی کرتے ہیں۔
یہ چمکتے دمکتے جزیرے جو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ایک ہار اور مالا کی طرح ہیں یہ دیپ جزیرے ایک طویل مالا ہیں اور یہ سب مل کر مالدیپ کہلاتے ہیں۔ لاتعداد جزیروں میں بکھری ہوئی آبادی 'سارک' کا ایک غریب ملک ترتیب دیتی ہے لیکن اس کے جزیرے خوشحال ملکوں کے لیے بے حد پسندیدہ ہیں۔
ان جزیروں کے کناروں پر موٹے دانوں والی سفید ریت بکھری رہتی ہے جس سے سمندر کی نیلی موجیں دن رات کھیلتی رہتی ہیں اور ایک عجیب دلفریب منظر پیش کرتی ہیں۔ یورپ کے کئی ملکوں نے چند جزیرے لیز پر لے رکھے ہیں اور یہ انھی ملکوں کے نام سے پہچانے بھی جاتے ہیں۔
جرمن جزیرہ فرانسیسی جزیرہ وغیرہ وغیرہ۔ سرد علاقوں کے باشندے گرمیوں میں یہاں آ جاتے ہیں سرد ملکوں کے پرندوں کی طرح۔ رنگ رنگ کے پرندے اور سفید فام انسان مل جل کر یہاں پورا موسم گزار دیتے ہیں اور بڑی ہی ناقابل فراموش یادیں لے کر لوٹ جاتے ہیں۔ میں نے دو چار دن ان جزیروں کے قرب میں گزارے لیکن رات کو دارالحکومت کے ہوٹل میں واپس آ جاتے کہ ہمارا کوئی جزیرہ نہیں تھا اور نہ ہی شب بسری کا کوئی بندوبست۔
مالدیپ ایک کمزور سا ملک جو بھارت جیسے بے رحم ملک کا پڑوسی ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے پاکستان کی سمت دیکھتا ہے سارک کے دوسرے کئی ملکوں کی طرح ان سب کا محافظ پاکستان ہے خواہ ان میں نیپال جیسا ملک بھی کیوں نہ ہو جو دنیا کا واحد ہندو ملک ہے مگر وہ بھی بھارت سے تنگ ہے۔ اس کا باہر کا واحد راستہ بھارت سے ہو کر گزرتا ہے اور یہی راستہ نیپال کو تنگ کرتا رہتا ہے اور اسی راستے پر بھارتی سامراج بیٹھا ہوا ہے۔
نیپالی کہتے ہیں کہ جب بھارت نے بہت ہی تنگ کیا تو پاکستان ہمیں اس سے بچا لے گا اب انھیں کون بتائے کہ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو جو نیپال کو مایوس کریں گی۔ بہر حال چھوٹا سہی کمزور سہی نیپال ہمارا دوست ہے۔ ہمالہ کے سائے میں زندگی بسر کرنے والا یہ ملک اسی ہمالہ سے ہونے والی آمدنی پر جیتا ہے۔ ہمالہ کے سیاح اس کی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہیں۔
صدر ضیاء الحق نے جس طرح سری لنکا کو فوج بنا کر دی اور بدھ مت کے پیرو کاروں کو فوج پر قائل کیا اسی طرح انھوں نے نیپالیوں کو بھی حوصلہ دیا اور انھیں ان کی تنہائی کے خوف سے آزاد کیا۔ صدر ضیاء نے مالدیپ کی بھارت سے حفاظت کا وعدہ کیا اور اس سو فی صد مسلمان ملک کے تحفظ اور آزادی کی ذمے داری کو اپنا فرض تصور کیا۔
زلزلہ نے نیپال کو سب سے بڑی خبر بنا دیا ہے ایک چھوٹا سا ملک اپنے سے کہیں بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ اس مصیبت کے موقع پر پاکستان نے اپنے نیپالی دوستوں کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور ضرورت کا سامان مسلسل بھیجا جا رہا ہے۔ نیپالی اس پریشانی کے عالم میں اس دوستی اور خدمت کو محسوس کر رہے ہیں اور انھوں نے تو پاکستان کے امدادی کیمپوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے نام بھی پاکستان پر رکھنے شروع کر دیے ہیں۔ کوئی بچہ لاہور کے نام کا ہے تو کوئی پاکستان ہے۔ وہ جب بڑے ہوں گے تو پاکستان سے خاص تعلق کا ایک زندہ ثبوت ہوں گے۔
نیپال کی اس انتہائی مشکل میں اگر اس کا کوئی پڑوسی اس کی خدمت سے دور ہے تو وہ بھارت ہے اور نیپالی خود اس کا گلہ کر رہے ہیں۔ بہر کیف پاکستان اپنے اس پڑوسی کو مسلسل امدادی سامان بھجوا رہا ہے اور ڈاکٹر بھی زخمیوں کی خبر گیری کر رہے ہیں۔ نیپال اس تعلق اور برادرانہ جذبے کو یاد رکھے گا۔ اسے فراموش کرنا اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہو گا۔
اخباروں میں ایک دلچسپ خبر بھی چھپی ہے کہ برطانیہ کے شاہی خاندان میں ایک شہزادی کا اضافہ ہو گیا ہے اسے توپوں کی سلامی دی گئی ہے اس کا طویل شاہی نام رکھا گیا ہے اور برطانیہ والے اس کا جشن منا رہے ہیں۔ شہزادی کی تخت کی وراثت کا مسئلہ بھی فوراً ہی حل کر دیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ اس کی باری کب آئے گی اور اپنی اس باری پر وہ کب برطانیہ کی ملکہ بنے گی۔ صدیوں پرانی بادشاہتیں اب یورپ کے بعض ملکوں میں دکھائی دیتی ہیں اور کینیڈا جیسے ملک اگرچہ براہ راست بادشاہت نہیں رکھتے مگر وہ اپنے سابقہ شاہی خاندان کی وفاداری اور اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔
ہمارے ایک عالم اور لیڈر جو کینیڈا کے شہری ہیں بلکہ برطانیہ کے وفادار اور اطاعت گزار ہیں۔ بات اس زمانے میں بادشاہت کی ہو رہی تھی جس میں برطانیہ بہت نامور ہے اور اس کا شاہی خاندان مختلف محلات میں قیام پذیر ہے۔برطانیہ نے اپنی اس بادشاہت کو بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ کینیڈا' نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ اب تک اس کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔ برطانیہ کی بادشاہت کے بارے میں ایک تاریخی طنز مصر کے ایک عارضی بادشاہ نے کیا تھا۔
مصر کے شاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ باقی رہ جائیں گے چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔ شاہ فاروق کو کرنل نجیب اور ناصر کے انقلاب نے ملک بدر کر دیا تھا اور اسے اپنے ساتھ مال لے جانے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ بادشاہت کے بارے میں اس نے یہ فقرہ اپنی بادشاہت چھن جانے پر کیا تھا۔ وہ بعد میں اٹلی میں جا کر آباد ہو گیا۔
ہمارے عزیز ترین دوست ملک کا اردو نام چین ہے مگر ہم انگریزوں کی خوشامد میں اسے چائنا کہتے ہیں مگر چینیوں کو ہماری اس حرکت کا علم نہیں ہے اور وہ چینی ہی بولتے ہیں، جناب ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ میں کوئی گونگا ہوں کہ اپنی نہیں کوئی غیر ملکی زبان بولوں مگر ہم گونگے ہیں اور ان چینی دوستوں کے ساتھ بھی انگریزی بولتے ہیں اور جگ ہنسائی کرتے ہیں۔