چند گورنروں کا انداز گورنری

کوئی افواہ بےبنیاد نہیں ہواکرتی اس کےاندرکچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہےجسے ہم محض افواہ سمجھ لیتےہیں اورمارکھاجاتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

صحافت میں رپورٹنگ کا شعبہ ایک سراسر اور مسلسل ایڈونچر کا طلب گار شعبہ ہے۔ آپ نے غیب کی دنیا سے کچھ ڈھونڈ کر نکالنا ہے اس کے لیے صحافتی کشف درکار ہے ایک ایسا کشف جو اوراد و وظائف سے نہیں حالات کے گہرے اور مسلسل جائزے اور تجربے سے حاصل ہوتا ہے یہ بات مجھے گورنر پنجاب کی تقریر سے یاد آئی ہے۔

رجوانہ صاحب کا نام بہت سوں کے لیے غیر متوقع تھا مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ان کا نام رپورٹروں سے بچا رہا۔ ایک خبر جو کافی عرصہ سے میدان میں تھی میرے ساتھی رپورٹروں کے ہتھے کیوں نہیں چڑھی اور کیسے ان سے چُھپ کر یہ دن گزارتی رہی میرے لیے یہ ایک افسوس اور پیشہ ورانہ ناکامی کا واقعہ ہے۔ میرے زمانے میں چار پانچ رپورٹر ہوا کرتے تھے کرائم رپورٹر' کورٹ رپورٹر سیاسی رپورٹر اور ایک جنرل رپورٹر جو اپنی ٹیم کا چیف رپورٹر بھی ہوتا تھا۔ آج ایک اخبار میں پندرہ بیس رپورٹر ہوتے ہیں مگر گورنر جیسی خبر ان سب سے چھپی رہتی ہے۔

ہمارے ایک استاد رپورٹر تھے میاں محمد شفیع (میم شین) کبھی موڈ میں آ کر وہ کوئی صحافتی نکتہ بتا دیتے تھے۔ مجھے کل کی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے سیڑھیوں میں مجھے مل گئے میں احتراماً ایک طرف ہو گیا انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے ذرا سا جھنجھوڑا اور حسب عادت تیز تیز لہجے میں کہا کہ خبر رپورٹر کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے لیکن میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ اس کا مطلب کیا ہے ان کی کوئی بات خصوصاً خاص طور پر کہی گئی کوئی بات بے کار نہیں ہوتی تھی۔

میں ایسی کیفیت میں نیوز روم میں چلا گیا اور سب کے استاد مرحوم ظہور عالم شہید سے میاں صاحب کی اس بات کا ذکر کیا اور اس کا مطلب پوچھا۔ شہید صاحب کو کچھ فرصت تھی انھوں نے کہا کہ خبر حالات پیدا کرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی خبر حالات کی گردش میں گھوم رہی ہوتی ہے بس اسی خبر کو حالات کی گردش سے جھاڑ پونچھ کر باہر نکالنا ہوتا ہے۔ حالات کا تجزیہ کر کے خبر کو اس میں جگہ دینی ہوتی ہے اور پھر اسے افشاء کر دینا ہوتا ہے یوں وہ خبر بن جاتی ہے رپورٹر کا اعزاز۔

میں نے دونوں استادوں کی بات بڑے غور سے سن لی اور پھر عملی دنیا میں اسے بصد مشکل آزمانا شروع کر دیا اور اسے درست پایا۔ آج بھی حالات یہی ہیں اور خبر انھی حالات سے برآمد ہوتی ہے۔ ایک دن میں نے ایک خبر پر توجہ نہ دی جو مِس ہو گئی اس پر ایڈیٹر نے بلا لیا اور پوچھا کہ یہ خبر کیسے مِس ہو گئی۔ میں نے کہا کہ جناب میں اسے ایک افواہ سمجھا تھا۔ ایڈیٹر تھے مرحوم مجید نظامی۔ انھوں نے کہا کہ چلیے ایک خبر تو ہمارے قابو نہ آ سکی اور پھسل گئی لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ کوئی افواہ بے بنیاد نہیں ہوا کرتی اس کے اندر کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے جسے ہم محض افواہ سمجھ لیتے ہیں اور مار کھا جاتے ہیں۔


میں اس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں جب کوئی خبر سربستہ راز ہوتی تھی تو رپورٹر دیوانہ وار اس راز کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ اب اسی گورنر والی خبر کو دیکھئے نہ جانے کتنے عرصہ سے یہ گردش میں تھی کتنے ہی نامور اصحاب اس منصب کو قابو کرنے کی فکر میں رہے اور بعض تو اس کی دُم تک بھی پہنچ گئے لیکن یہ ایک اہم منصب تھا اور اس منصب کے ذمے دار اصحاب اس بارے میں بہت سنجیدہ تھے۔ وہ اسے بے فائدہ نہیں جانے دیتے تھے آئین میں گورنر کے اختیارات کیا ہیں لیکن جو گورنر ہے وہ اختیارات اِدھر اُدھر سے کھینچ کھانچ کر اپنے گرد جمع کر لیتا ہے۔

میں ایک جاندار گورنر کے بہت قریب تھا یہ تھے مرحوم برادرم چوہدری الطاف حسین۔ ان کے اختیارات بھی اتنے ہی تھے جو کسی بھی گورنر کے ہوتے ہیں لیکن یہ سب گورنری اپنی مرضی سے چلاتے تھے۔ ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا کہ آئی جی صاحب تشریف لے آئے۔ انھوں نے اس پولیس افسر کے ساتھ بڑی بے دلی سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کسی مسئلے پر پولیس چوہدری ظہور الٰہی کے گھر پر چھاپہ مار رہی ہے کیا یہ گھر کسی مولو مصلی کا ہے اب آپ جائیے۔

ایک دن میں ملنے گیا تو ایک صحافی ان سے مل کر جا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ موصوف کے دونوں بیٹے بدعنوانی کے شکنجے میں ہیں میں نے انھیں چُھڑا لیا ہے کہ بڑوں کو پکڑیں۔ مطلب یہ ہے کہ چوہدری صاحب ایک ہمہ مقتدر گورنر تھے اور چونکہ دیہات کے ماحول سے تعلق رکھتے تھے اس لیے حالات پر گہری نظر رکھتے تھے اور اپنی گورنری کو اپنی پوری عملداری میں زندہ رکھتے تھے۔

ان سے قبل نواب آف کالا باغ تھے ان کا تو ذکر ہی کیا کرنا۔ کئی باتیں تو لطیفہ لگتی ہیں۔ ان کا ایک دوست ملنے آیا اور شکوہ کیا کہ اس کا اثر و رسوخ کم پڑ گیا ہے۔ نواب صاحب نے کہا کل آنا ذرا میرے ساتھ پنڈی تک چلیں۔ نواب صاحب کے راستے پر ہر بڑا افسر حاضر تھا۔ نواب صاحب رک کر خیر و عافیت پوچھتے اور آگے چل پڑتے۔ راولپنڈی تک کی افسر شاہی نے اس آدمی کو نواب صاحب کے ہمراہ ایک ہی گاڑی میں سفر کرتے دیکھ لیا بس اتنا ہی کافی تھا۔ ایسی ہی ایک شکایت ملتان کے ایک مخدوم نے کی۔

نواب صاحب ملتان گئے تو مخدوم صاحب کو بلا لیا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا پھر وہ سرکاری کام میں مصروف ہو گئے اور افسر آتے جاتے رہے۔ مخدوم صاحب کی شکایت بھی دور ہو گئی لاہور کے میاں اظہر صاحب بھی گورنر بن گئے تھے انھوں نے لاہور شہر کو تجاوزات سے پاک کرا دیا۔ بازار سڑکیں صاف اور کھلی ہو گئیں۔ وجہ یہ کہ نہ خود کچھ لیتے تھے نہ لینے دیتے تھے۔ لاہور شہر سے باہر بھی انھوں نے یہ نیکی کا کام شروع کر دیا تھا اور کہا کرتے کہ اب تو سب صاف ہو گیا ہے لیکن میرے جاتے ہی پھر سے پرانا لاہور لوٹ آئے گا اور یہی ہوا بھی۔
Load Next Story