پاکستان میں آزادیٔ صحافت کی سب سے بڑی جنگ

موت سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جنھیں اپنا تاریخی فرض یاد رہے

zahedahina@gmail.com

احفاظ الرحمن نے کمال کیا ہے کہ پاکستان میں آزادیٔ صحافت کی سب سے بڑی جنگ کا احاطہ کرتے ہوئے اس کتاب میں پاکستانی صحافیوں کی مزاحمت کے جواہر ریزے اکٹھا کردیے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ موت سے لڑائی لڑتے رہے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے 1977ء اور 1978ء کے درمیان ضیا شاہی سے لڑی جانے والی سب سے بڑی جنگ کی وقایع نگاری بھی شان سے کی ہے۔

موت سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جنھیں اپنا تاریخی فرض یاد رہے۔ احفاظ جانتے تھے کہ وہ اور ان کے ساتھی پاکستان کے کوچہ و بازار میں آزادیٔ صحافت کی جس جنگ میں مصروف تھے، اگر اس کے ہر مورچے پر لڑی جانے والی لڑائی ضبط تحریر میں نہ آئی تو آنے والی نسلیں یہ بھلا دیں گی کہ شعلہ بیاں اور سرشور نہتوں نے اپنے قلم سے اس وقت کے یزید سے ایک ایسی جنگ لڑی تھی جسے دنیا کے صحافیوں کی انجمنوں نے خراج تحسین ادا کیا تھا، جس کے لیے ہندوستان کے معتبر اور موقر اخبار ٹائمز آف انڈیا نے لکھا تھا کہ ''اگرہندوستان میں بھی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جیسی کوئی تنظیم ہوتی تو مسز اندرا گاندھی کو یہاں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔''

''آزادیٔ صحافت: سب سے بڑی جنگ'' کی تقریب پزیرائی میں احفاظ کے بزرگ، دوست اور ساتھی سب ہی شریک ہوئے اور اسے خراج تحسین ادا کیا جو عمر بھر تند اور تیکھے لہجے میں لکھتا رہا۔ سرفگندگی جس کی شریعت میں جرم تھی اور جس نے اپنے رفیقوں کا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑا، جب ضیا شاہی دور میں اس کے 4 ساتھیوں کو ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے گئے تو وہ اپنی بے بسی پر چھپ کر رویا اور آنسو خشک کرکے نئے سرے سے آزادیٔ صحافت کی جنگ میں شریک ہوگیا۔ کبھی ''زیرِ زمین'' رہا اور کبھی زیرِآسمان نعرے لگاتا رہا، آنکھوں کا تیل سچی تحریروں کو لکھنے میں جلاتا رہا جن سے زور آوروںکو خوف آتا تھا۔

یوں تو پاکستان کی بدبختی کا آغاز 1958ء کے مارشل لا سے ہوگیا تھا لیکن جنرل ضیا الحق نے آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کے لیے صحافیوں پر جو ستم توڑے، اسے احفاظ نے اگر مرتب نہ کیا ہوتا تو یہ ایک جرم ہوتا اور احفاظ سے کسی جرم کے ارتکاب کے بارے میں ان کے دشمن بھی سوچ نہیں سکتے۔ اس کتاب کی ترتیب میں یوں تو اقبال خورشید اوران کے کئی دوستوں کی محبت اور محنت شامل ہے۔

لیکن سب سے زیادہ داد مہ ناز کو ملنی چاہیے جس کی زندگی میں پہلے دن سے احفاظ کی قربت اور محبت کے بجائے محرومیوں اور تنگ دستی کے سائے آئے اور اب جب کہ زندگی ان لوگوں پر کچھ مہربان ہوئی تھی، وقت نے اس خاندان پر شب خون مارا۔وہ شخص جو شعلہ فشاںتقریریں کرنے میں طاق تھا، تیکھے جملے بولتا تھا اورصاحبانِ دستارکو دعوت ِمبازرت دیتا تھا، اس کے لب کسی بادشاہ کے حکم سے نہیں، وقت کے ظلم سے سل گئے۔

لیکن اس کے قلم پرسان اسی طرح رکھی ہے۔ اس کے لفظوں کی شان اسی طرح قائم ہے جس کی گواہی یہ کتاب ہے۔یہ کتاب پاکستانی صحافت کے ان دنوں کی داستان ہے جب ضیا شاہی کا بول بالا تھا، بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوتا تھا، بس چند سرپھرے تھے جو اس عزم سے نکلے تھے کہ وہ سچ کا پرچم سربلند رکھیں گے۔ اس سفر میں کچھ رزقِ خاک ہوئے ،کچھ نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں،کچھ کے گھروں میں فاقے ہوئے اور کچھ اپنے قریبی لوگوں کی نگاہوں میں معتوب ٹھہرے۔

فرنگی راج کے ہندوستان میں ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، ظفر علی خان اور ان گنت لوگوں نے صحافت کو اختیار کیا تو ان کی نزدیک یہ تجارت نہیں عبادت تھی۔ وہ لوگ ''گر توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو'' ، کا نعرہ لگاتے ہوئے فرنگی کی جیل کاٹتے تھے، جرمانے ادا کرتے اور اخبار کی اشاعت کو آزادی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ تقسیم کے بعد ہمارے یہاں روش بدلی اور وہ لوگ سامنے آنے لگے جنہوںنے صحافت کو دولت اور شہرت کمانے کا ذریعہ سمجھا ۔ سچ پوچھیے تواحفاظ کی کتاب ان لوگوں کی آخری صفوں کا قصہ سناتی ہے جن کے نزدیک آزادی تحریروتقریر کے لیے جیل کاٹنا اور جان دے دینا روزمرہ کی بات تھی۔


اس کتاب کے صفحوں پرکیسے کیسے نام نظر آتے ہیں۔ نثارعثمانی، منہاج برنا، حسین نقی، ابراہیم جلیس، جوہر میر، فرہاد زیدی، شوکت صدیقی، طاہر نجمی ،عبدالحمید چھاپرا، ارشاد راؤ، وہاب صدیقی، فرخندہ بخاری،لالہ رخ، حمیدہ گھانگھرو۔ سچ تو یہ ہے کہ سیکڑوں نام ہیں جنہوں نے آزادیٔ صحافت کی خاطر اپنی جوانیاں خاک میں ملادیں۔ افسوس ہے تو اس کا کہ آج کی چوہا دوڑ میں کوئی ان کا نام بھی نہیں لیتا۔ احفاظ نے ہم سب پر احسان کیا کہ اس دورِابتلا کو قلم بند کردیا، دوسروں کے نوشتے اپنی اس کتاب میں شامل کرکے اسے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت دی اور اس کی توقیر بڑھادی۔

احفاظ نے نثار عثمانی، منہاج برنا، حسین نقی اور شوکت صدیقی کے زیر سایہ صحافت کی۔ نچلے متوسط طبقے سے اٹھے، ضیا کے زمانے میں ان کے دائیں بائیں امکانات کی گنگا بہہ رہی تھی لیکن انھوں نے اس گنگا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور دریائے خوں میں تیرتے چلے گئے۔اس کتاب میں انھوں نے نہایت محبت سے اپنے ایک ایک تحریکی ساتھی کو یادکیا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی دوستی پر نازکیا جائے۔ میں بھی اُن سے دوستی پر نازکرتی ہوں جو اب لگ بھگ چالیس برس پر پھیل گئی ہے۔ ہم مفلسی کے دنوں کے دوست ہیں۔

دفتر کی ردی بیچ کر پانچ سات روپے میں دوپہر کا کھانا پکاتے اور پھر اسے چٹخارے لے کر کھاتے کیونکہ اس میں ہری مرچیں جی بھر کر ڈالی جاتیں۔ کہانیوں اور ناولوں پر بحثیں۔ احفاظ کا قبلہ بیجنگ کی طرف راست تھا اور میں سوویت یونین کی خوبیوں کے ساتھ اس کی خرابیوں کا بھی اعتراف کرتی تھی۔اسی زمانے میں مہ ناز سے میری ملاقات ہوئی اور پھر یہ ملاقات گہری رفاقت میں بدل گئی۔

یہ دونوں چین میں آٹھ برس گزار کر واپس آئے اور عرصۂ دراز کے بعد ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وقت نے احفاظ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان کی نازک مزاجی اور اپنے ایمان پر یقینِ کامل آج بھی ان کے وجود کا بنیادی جزو ہیں۔ ان کی نازک مزاجی کو ان کی نصف بہتر مہ ناز نے بڑے حوصلے سے جھیلا اور آج تک اس امتحان میں پوری اتری ہیں۔ جہاں تک ان کے ایمان کا معاملہ ہے تو اس کی گواہ ان کی تحریریں' ان کی صحافتی جدوجہد اور کراچی پریس کلب کے در ودیوار ہیں۔انھوں نے کتنی ہی جیلیں کاٹیں' کتنی ہی لاٹھیاں کھائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کتنی ہی تحریصات اور ترغیبات کے دام سے بچ کر نکلے اس کا حساب ان کے قریب ترین لوگ خوب جانتے ہیں۔

زیادہ پرانی نہیں 2007ء کے نومبرکی بات ہے جب میں نے پریس کلب کے سامنے انھیں پولیس والوں کی لاٹھیاں کھا کر سڑک پر گرتے اور گرفتاری دیتے دیکھا۔ جی خوش ہوا کہ ماہ وسال کی گردشوںنے احفاظ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان کی رگوں میں لہریں لیتا ہوا لہو اتنا ہی سرشور اور اتنا ہی انقلابی ہے جتنا ان کی جوانی کے دنوں میں تھا۔ غاصبوں کے خلاف ان کا غصہ ذرا بھی کم نہیں ہوا۔ جنرل ایوب' جنرل ضیاء ' جنرل پرویز مشرف کسی کا بھی دور ہو' ان کی روح پر ہر دور کے تازیانوں کے نشان ہیں۔

احفاظ ایسے لوگ کسی بھی سماج کا سرمایہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں سچے اور کھرے لوگوں کے سچ سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے اسی لیے انھیں سماج کے حاشیوں پر دھکیلے جانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ احفاظ خوش نصیب ہیں کہ برنا صاحب ایسے لوگوں سے انھوں نے سچ لکھنے اور بولنے کا سبق لیا۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں برادران یوسف کے بجائے ایسے دوست اور بھائی ملے جنھیں جنرل ضیا الحق کے احکام پر کوڑے مارے گئے اور ان تازیانوں کی اذیت احفاظ کے ذہن میں آج بھی زندہ ہے۔

انھیں مہ ناز ایسی شریک حیات ملی جس نے زندگی کی کڑی دھوپ میں کبھی ان سے شکایت نہیں کی، روٹھ کر میکے نہیں گئی اور فے فے اور رمیز جیسے پیارے بچوں کو جی جان سے پروان چڑھایا اور سب سے آخر میں جی چاہتا ہے کہ ان کی خوش دامن کو بھی یاد کروں جو اب ہم میں موجود نہیں، لیکن جنہوں نے اتنے نکیلے، نخریلے داماد سے بیٹوں کی طرح محبت کی۔

اس کتاب میں ہمیں بہت سے نوشتے ، خط اور یادداشتیں ملتی ہیں جن سے کیسے کیسے جی دار لوگ یاد آجاتے ہیں۔اس میں جیل بیتیاں اور تشدد کی کہانیاں ہیں، صبح پرستوں کے خطوط ہیں۔ جوہر میر، محمود شام اور احفاظ الرحمن کی نظمیں ہیں، تصویریں ہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔ احفاظ نے شاندار کام کیا کہ حقائق کا ایک خزانہ آنے والی نسلوں کے سپرد کردیا ہے۔ کیا بات ہے احفاظ تمہاری۔
Load Next Story