ماڈل ایان سے خواجہ شیراز تک

مسیحا وہ شخصیت جو زندگی دیا کرتی ہے اس کی بیاض سے جو نسخہ نقل ہو گا

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
ہمارے جرائم کی تفتیش کرنے والوں کو ان دنوں خدا نے دل بہلانے کا ایک شاندار موقع دیا ہوا ہے اور ایک یاد گار سامان بھی۔

وہ ایک خوبصورت ماڈل ایان علی کو دن رات دیکھ دیکھ کر دل بہلا رہے ہیں بے حد شوق کے عالم میں اسے عدالت میں پیشی کے لیے لے جاتے ہیں اور پھر اسی وارفتگی کے عالم میں واپس جیل میں لے آتے ہیں آپ کے خیال میں کیا وہ صرف اس ماڈل کو لانے لے جانے کا کام ہی کرتے ہیں، جی نہیں وہ اسے قدم قدم چلاتے ہیں خراماں خراماں۔ اسے سہارا دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس طرح ٹھہر ٹھہر کر اس حسینہ کو عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں اور نئی تاریخ لے کر اسے واپس جیل میں لے آتے ہیں۔

میں بھی آپ کی طرح ماڈل ایان کی خبریں نہایت ہی ذوق و شوق بلکہ جوش اور ولولے سے پڑھتا ہوں اور رشک کرتا ہوں ان سرکاری ملازمین پر جو اس خوبصورت نوجوان لڑکی کو سر آنکھوں پر بٹھاکر کسی عدالت تک لے جاتے ہیں۔ سنا یہ ہے کہ ایان کی ڈیوٹی پر نامزد ہونے کے لیے بہت سفارش چلتی ہے بلکہ اس جدوجہد میں اہلکاروں کے درمیان لڑائی کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ پہلے تو ماڈل ایان اپنے ان دیوانوں کو اپنے لیے لڑتا بھڑتا دیکھ کر خوش ہوتی ہے پھر ترس کھا کر مداخلت کرتی ہے اور اس کی مداخلت عموماً کامیاب رہتی ہے اور پرامن انداز میں اسے اس کی جیل میں بحفاظت بند کر دیا جاتا ہے۔

چشم تصور سے دیکھیں کہ ایان کی ڈیوٹی پر کچھ لوگ بڑی عمر کے بھی ہو سکتے ہیں، بڑی سے مراد یہ نہیں کہ بوڑھے لوگ بلکہ یہ ہے کہ سینئر لوگ بھی ہوں گے ریٹائرمنٹ کے قریب، ایسے سینئر لوگوں کے لیے ہمارے ایک نامور فارسی شاعر نے زندہ جاوید شعر کہہ رکھا ہے۔ خواجہ شیراز جناب حافظ شیرازی کہتے ہیںکہ

روئے نکو معالجۂ عمر کوتاہ است
این نسخہ از بیاض مسیحا نوشتہ ایم

یعنی خوبصورت چہرہ بڑھاپے کی بیماری کا شافی علاج ہے۔ میں نے یہ نسخہ حضرت مسیحا کی بیاض سے نقل کیا ہے۔ مسیحا وہ شخصیت جو زندگی دیا کرتی ہے اس کی بیاض سے جو نسخہ نقل ہو گا وہ اکسیر نہیں ہوگا تو کیا ہو گا۔ اگر حافظ شیراز کی بات مانیں تو اب تک ماڈل ایان کے روئے نکو کی زیارت نے نہ جانے کتنے سرکاری اہلکاروں کو جوان بنا دیا ہو گا، اگر وہ اس کی دید کے لیے آپس میں لڑتے ہیں تو قطعاً بے گناہ ہیں۔


یوں سمجھیں کہ کچھ مریض کسی معالج کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آپس میں تو تو میں میں ہو جاتے ہیں تو کون سی غلطی کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسی بیماری کی شفا تلاش کرتے ہیں جو صرف حافظ شیراز کے نسخے سے ہی مل سکتی ہے۔ یہ ایک جدی پشتی سینہ بہ سینہ چلے آنے والا خاندانی نسخہ ہے جو مفاد عامہ کے لیے پہلی بار افشا کیا گیا ہے اور ایک ایسے انداز میں کہ اسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ حضرت حافظ کا خود یہ شعر ہی ایک نسخہ شفا ہے۔

اب جب ذکر آیا ہے اپنے وقت کی ایک عظیم شاعر شخصیت کا تو ایک تاریخی واقعہ بھی سن لیجیے۔ حضرت خواجہ حافظ شاعر تھے اور اپنی شاعرانہ فیاضیوں کی وجہ سے بہت مشہور تھے لیکن اتنے بڑے اور دلکش شعر کہنے والے تھے کہ ان کے اشعار عوام سے لے کر شاہوں کے درباروں تک کی رونق تھے۔ ان کے بڑھاپے کے دور کے ایک سخت دل اور سفاک فاتح بادشاہ کو بھی ان کے کئی شعر یاد تھے۔

یہ بادشاہ تھا امیر تیمور وہ جب ایران فتح کرتا ہوا شیراز پہنچا تو اس نے خواجہ حافظ کا پتہ کیا، معلوم ہوا وہ اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں لیکن فاتح ان سے بہر حال ملنا چاہتا تھا۔ چنانچہ خواجہ کو اس ضعیف العمری میں کسی نہ کسی طرح پیش کیا گیا، بوڑھی پلکوں نے آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور زبان بھی لڑکھڑاتی تھی خواجہ لاٹھی کے سہارے بمشکل اس فاتح کے حضور میں کھڑے ہوئے۔ شاعروں فنکاروں اور اہل علم و ہنر کے عاشق اس فاتح نے خواجہ کا ایک شعر انھیں سنایا

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندووش بخشم سمرقند و بخارا را

کہ اگر وہ خوبصورت شیرازی تُرک لڑکا مجھ پر مہربان ہو جائے تو میں اس کے چہرے کے ایک تل کے عوض اسے سمرقند و بخارا بخش دوں۔ اس پر تیمور نے کہا کہ خواجہ میں نے دنیا جہاں کی نعمتیں اور عجائبات جمع کر کے سمرقند و بخارا کے شہروں کو سجایا اور آراستہ کیا ہے اور آپ انھیں ایک لونڈے کے تل کے عوض بخش دینے پر تیار ہیں۔ جواب میں اس بوڑھے شاعر نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا کہ میری انھی غلط بخشیوں اور سخاوتوں کی وجہ سے تو میں آج اس حال کو پہنچا ہوں۔ یہ سن کر تیمور بہت خوش اور مسحور ہوا اور شاعر کا دامن اعزاز و اکرام سے بھر دیا اور حکم دیا کہ زندگی بھر خواجہ کی خدمت کی جائے اور اس مقصد کے لیے بتاتے ہیں کہ اس نے کچھ جائیداد بھی عطا کر دی۔

تو یہ وہ خواجہ شیراز تھا جو فارسی شاعر کا امام سمجھا جاتا ہے اور ایک بات جو آج تک مشہور ہے اور زیر عمل بھی کہ خواجہ کے کلام سے فال نکالی جاتی ہے۔ جب بھی کسی کو کوئی الجھن درپیش ہوتی ہے تو خواجہ کے دیوان سے رجوع کیا جاتا ہے اب خواجہ حافظ کے کلام سے فال نکالنے کا ایک ہمارا سیاسی واقعہ بھی سن لیجیے۔ ایوب خان کے خلاف میاں ممتاز دولتانہ اور خان عبدالقیوم خان جلوس نکالنا چاہتے تھے۔

یہ دونوں لیڈر جہلم میں ہمارے دوست اور سابق گورنر چوہدری الطاف حسین کے گھر پر مقیم ہوئے لیکن دونوں کی نیت درست نہیں تھی اور جلوس سے کترا رہے تھے چنانچہ طے ہوا کہ اس سلسلے میں خواجہ حافظ کے کلام سے فال نکالتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے خواجہ کا دیوان پیش کر دیا اسے کھولا گیا اور جس شعر پر انگلی رکھی گئی اس کا مفہوم یہ تھا کہ شام پڑ گئی ہے اور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف مائل پرواز ہیں۔ یہ شعر کافی تھا رات جہلم میں بسر کر کے صبح ایک لیڈر پشاور چلا گیا دوسرا لاہور روانہ ہو گیا اور خواجہ شیراز نے دونوں کو اس آزمائش سے بچا لیا۔ اب تو فارسی بھی کوئی نہیں جانتا ورنہ خواجہ کے دیوان سے فال نکالنے کی روایت زندہ رہتی۔
Load Next Story