شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ
امریکی ڈرون حملوں میں جہاں شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی وہاں بے گناہ افراد بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں
پاکستان کو اس حوالے سے ایک بار پھر امریکا سے بات کرنی چاہیے تاکہ ڈرون حملوں کے بارے میں کوئی حتمی پالیسی مرتب کی جا سکے۔ فوٹو:فائل
شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال میں ہفتے کو ایک گھر پر امریکی ڈرون طیارے کے حملے میں 9 شدت پسند مارے گئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ مذکورہ گھر افغان طالبان کی ملکیت تھا اور مارے جانے والے افراد کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے۔ ایک مقامی انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت شدت پسندوں کا اہم اجلاس جاری تھا۔
رواں ماہ کا یہ دوسرا اور 2015ء کا 9واں امریکی ڈرون حملہ تھا، اس ماہ کے آغاز میں بھی امریکی ڈرون طیاروں نے شمالی وزیرستان کے پاک افغان سرحدی علاقے شوال میں ایک ڈبل کیبن گاڑی کو نشانہ بنایا تھا جس سے چار افراد مارے تھے۔ زیادہ تر ڈرون حملے شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں کیے گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2004ء سے امریکی ڈرون طیاروں کے حملے جاری ہیں جس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق اب تک چار سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان حملوں میں سیکڑوں ملکی اور غیرملکی شدت پسند مارے جا چکے ہیں جن میں القاعدہ اور طالبان کے بعض اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کا نوے فیصد علاقہ شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے تاہم دور افتادہ سرحدی علاقوں شوال اور دتہ خیل میں بدستور کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے اب شوال اور دتہ خیل کے علاقوں کو شدت پسندوں سے مکمل طور پر صاف کرنے کے لیے فیصلہ کن کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاک فوج نے 15 جون 2014ء کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا' ابتدائی حکمت عملی کے مطابق دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے اور ان علاقوں سے شہری آبادی کا انخلا ممکن بنانے کے بعد فورسز نے زمینی کارروائی کا آغاز کیا۔
دشوار گزار علاقہ ہونے کے باعث شمالی وزیرستان کا آپریشن کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس علاقے میں دہشت گردوں نے مضبوط مورچے اور پناہ گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں ان کی طاقت اور علاقے پر کنٹرول کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے وہاں بارودی سرنگیں بچھانے والی فیکٹریاں بھی تعمیر کر رکھی تھیں لہٰذا اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے پاک فوج کو سخت جدوجہد کرنا پڑی اور بڑی قربانیاں دینے کے بعد اس نے اب تک ایک بڑا علاقہ دہشت گردوں سے پاک کر لیا ہے۔ اسی طرح خیبرایجنسی میں آپریشن خیبر ٹو بھی بڑی کامیابی سے جاری ہے اور دہشت گردوں سے متعدد علاقے خالی کرا لیے گئے ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں میں جہاں شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی وہاں بے گناہ افراد بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ جس سے ان علاقوں میں جہاں امریکا کے خلاف نفرت بڑھی وہاں حکومت پاکستان پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا کہ وہ ان حملوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ لہٰذا پاکستانی حکومت نے ڈرون حملوں کو ملکی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکا سے متعدد بار سفارتی سطح پر احتجاج کیا اور ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔ مگر امریکا نے پاکستانی حکومت کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے موثر ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں پر سیاستدان اور تجزیہ نگار دو طبقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک طبقے نے ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شدت پسندوں کے خاتمے میں خاطر خواہ مدد ملے گی لہٰذا یہ سلسلہ دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہنا چاہیے جب کہ دوسرے طبقے نے اسے ملکی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔ جب حکومت پاکستان کے احتجاج کے باوجود امریکا نے ڈرون حملے نہ روکے تو بعض افراد نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اپریل 2015ء میں ڈرون حملے روکنے کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درخواست عدالتی دائرہ اختیار یعنی آئین کے آرٹیکل 184 کے زمرے میں نہیں آتی اور ایسے حالات میں کسی بھی طور پر ان حملوں کو روکنے کے لیے حکومت کو جنگ کرنے کے احکامات جاری نہیں کیے جا سکتے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آپریشن ضرب عضب سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اب شوال اور دتہ خیل کے دشوار گزار سرحدی علاقے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں' فوج ان علاقوں پر قابو پا لیتی ہے تو دہشت گردی کے واقعات میں مزید کمی آئے گی۔ جس کے نتیجے میں ڈرون حملے بھی رک جائیں گے۔ دہشت گردوں کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہے حکومت یہ واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھارتی ایجنسی را اور دیگر غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ سرحد پار سے ہونے والی مداخلت کو روکنے کے لیے حکومت کو سرحدی علاقوں میں نگرانی کا نظام موثر بنانا ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ ملنے والے دشوار گزار سرحدی علاقوں میں خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آ چکی ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے خاردار تاریں لگائی جائیں۔ داخلی محاذ پر دہشت گردی کا خاتمہ ایک مشکل امر زور ہے مگر ناممکن نہیں۔ حکومت کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ دہشت گرد انتہائی منظم اور تربیت یافتہ ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں لہٰذا اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو تمام سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان مربوط اور منظم حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کیونکہ دہشت گردی سے نمٹنا تنہا کسی سیکیورٹی ادارے یا ایجنسی کے بس کی بات نہیں اس کے لیے تمام اداروں کو مل کر کارروائی کرنا ہوگی۔
جہاں تک امریکی ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو امریکی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ امریکا کے حکام کو چاہیے اگر انھیں کہیں دہشت گردوں یا جنگجوؤں کے ٹھکانے کی اطلاع ملتی ہے تو وہ پاکستان کو مطلع کریں تاکہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے' پاکستان کو اس حوالے سے ایک بار پھر امریکا سے بات کرنی چاہیے تاکہ ڈرون حملوں کے بارے میں کوئی حتمی پالیسی مرتب کی جا سکے۔
رواں ماہ کا یہ دوسرا اور 2015ء کا 9واں امریکی ڈرون حملہ تھا، اس ماہ کے آغاز میں بھی امریکی ڈرون طیاروں نے شمالی وزیرستان کے پاک افغان سرحدی علاقے شوال میں ایک ڈبل کیبن گاڑی کو نشانہ بنایا تھا جس سے چار افراد مارے تھے۔ زیادہ تر ڈرون حملے شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں کیے گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2004ء سے امریکی ڈرون طیاروں کے حملے جاری ہیں جس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق اب تک چار سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان حملوں میں سیکڑوں ملکی اور غیرملکی شدت پسند مارے جا چکے ہیں جن میں القاعدہ اور طالبان کے بعض اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کا نوے فیصد علاقہ شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے تاہم دور افتادہ سرحدی علاقوں شوال اور دتہ خیل میں بدستور کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے اب شوال اور دتہ خیل کے علاقوں کو شدت پسندوں سے مکمل طور پر صاف کرنے کے لیے فیصلہ کن کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاک فوج نے 15 جون 2014ء کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا' ابتدائی حکمت عملی کے مطابق دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے اور ان علاقوں سے شہری آبادی کا انخلا ممکن بنانے کے بعد فورسز نے زمینی کارروائی کا آغاز کیا۔
دشوار گزار علاقہ ہونے کے باعث شمالی وزیرستان کا آپریشن کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس علاقے میں دہشت گردوں نے مضبوط مورچے اور پناہ گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں ان کی طاقت اور علاقے پر کنٹرول کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے وہاں بارودی سرنگیں بچھانے والی فیکٹریاں بھی تعمیر کر رکھی تھیں لہٰذا اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے پاک فوج کو سخت جدوجہد کرنا پڑی اور بڑی قربانیاں دینے کے بعد اس نے اب تک ایک بڑا علاقہ دہشت گردوں سے پاک کر لیا ہے۔ اسی طرح خیبرایجنسی میں آپریشن خیبر ٹو بھی بڑی کامیابی سے جاری ہے اور دہشت گردوں سے متعدد علاقے خالی کرا لیے گئے ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں میں جہاں شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی وہاں بے گناہ افراد بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ جس سے ان علاقوں میں جہاں امریکا کے خلاف نفرت بڑھی وہاں حکومت پاکستان پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا کہ وہ ان حملوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ لہٰذا پاکستانی حکومت نے ڈرون حملوں کو ملکی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکا سے متعدد بار سفارتی سطح پر احتجاج کیا اور ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔ مگر امریکا نے پاکستانی حکومت کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے موثر ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں پر سیاستدان اور تجزیہ نگار دو طبقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک طبقے نے ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شدت پسندوں کے خاتمے میں خاطر خواہ مدد ملے گی لہٰذا یہ سلسلہ دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہنا چاہیے جب کہ دوسرے طبقے نے اسے ملکی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔ جب حکومت پاکستان کے احتجاج کے باوجود امریکا نے ڈرون حملے نہ روکے تو بعض افراد نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اپریل 2015ء میں ڈرون حملے روکنے کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درخواست عدالتی دائرہ اختیار یعنی آئین کے آرٹیکل 184 کے زمرے میں نہیں آتی اور ایسے حالات میں کسی بھی طور پر ان حملوں کو روکنے کے لیے حکومت کو جنگ کرنے کے احکامات جاری نہیں کیے جا سکتے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آپریشن ضرب عضب سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اب شوال اور دتہ خیل کے دشوار گزار سرحدی علاقے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں' فوج ان علاقوں پر قابو پا لیتی ہے تو دہشت گردی کے واقعات میں مزید کمی آئے گی۔ جس کے نتیجے میں ڈرون حملے بھی رک جائیں گے۔ دہشت گردوں کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہے حکومت یہ واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھارتی ایجنسی را اور دیگر غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ سرحد پار سے ہونے والی مداخلت کو روکنے کے لیے حکومت کو سرحدی علاقوں میں نگرانی کا نظام موثر بنانا ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ ملنے والے دشوار گزار سرحدی علاقوں میں خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آ چکی ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے خاردار تاریں لگائی جائیں۔ داخلی محاذ پر دہشت گردی کا خاتمہ ایک مشکل امر زور ہے مگر ناممکن نہیں۔ حکومت کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ دہشت گرد انتہائی منظم اور تربیت یافتہ ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں لہٰذا اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو تمام سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان مربوط اور منظم حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کیونکہ دہشت گردی سے نمٹنا تنہا کسی سیکیورٹی ادارے یا ایجنسی کے بس کی بات نہیں اس کے لیے تمام اداروں کو مل کر کارروائی کرنا ہوگی۔
جہاں تک امریکی ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو امریکی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ امریکا کے حکام کو چاہیے اگر انھیں کہیں دہشت گردوں یا جنگجوؤں کے ٹھکانے کی اطلاع ملتی ہے تو وہ پاکستان کو مطلع کریں تاکہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے' پاکستان کو اس حوالے سے ایک بار پھر امریکا سے بات کرنی چاہیے تاکہ ڈرون حملوں کے بارے میں کوئی حتمی پالیسی مرتب کی جا سکے۔