بھارت اور بنگلہ دیش میں سرحدی معاہدے
وزیراعظم مودی نے باہمی تعلقات کی مضبوطی کی خاطر بنگلہ دیش کے لیے دو ارب امریکی ڈالر کے قرضے کا اعلان بھی کیا
اگر بھارتی پالیسی ساز حقیقی معنوں میں جنوبی ایشیا میں امن چاہتے ہیں تو انھیں پاکستان کے ساتھ بھی تنازعات کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ فوٹو : فائل
ISLAMABAD:
بھارت اور بنگلہ دیش نے گزشتہ روز اراضی کے تبادلے کے سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں ایسے لوگ جو دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں رہ رہے ہیں مگر وہ دونوں ملکوں کی شہریت سے محروم تھے اب انھیں دونوں ملکوں میں سے جس کی وہ چاہیں گے شہریت حاصل کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکریٹریوں نے پروٹوکول پر دستخط کیے ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بنگلہ دیش کے دورے پر ہیں' اس موقعہ پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم مودی اور حسینہ شیخ بھی موجود تھے۔ وزیراعظم مودی نے باہمی تعلقات کی مضبوطی کی خاطر بنگلہ دیش کے لیے دو ارب امریکی ڈالر کے قرضے کا اعلان بھی کیا۔
واضح رہے بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ سرحد کی طوالت چار ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش نے متنازعہ سرحدی انکلیوز کے بارے میں سمجھوتہ کرنے پر1974 ء میں آمادگی ظاہر کر دی تھی مگر بھارتی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری چالیس سال سے زیادہ عرصے کے بعد ابھی پچھلے مہینے ہی دی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران دونوں ملکوں میں وقفے وقفے سے سرحدی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں اور ایک دوسرے پر در اندازی کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں متنازعہ انکلیوز (یعنی خشکی میں گھرے ہوئے علاقوں) کی تعداد 162 ہے جن میں سے 111 بنگلہ دیش کو جب کہ 51 بھارت کو ملیں گے۔
اس علاقوں میں آباد لوگوں کی تعداد پچاس ہزار سے زاید ہے جن کو زندگی کی کوئی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں، نہ اسکول نہ اسپتال نہ مواصلات کا نظام۔ اب دونوں ممالک ان علاقوں کی ادلی بدلی کریں گے اور وہاں کے رہائشیوں کو انتخاب کا حق حاصل ہو گا کہ وہ کہاں رہیں' کس ملک کی شہریت اختیار کریں۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالحسن محمود علی نے بستیوں کی زمین کے تبادلے کے معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان ''تاریخی سنگ میل'' سے تعبیر کیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر یہ بستیاں برطانوی نو آبادیات کا ورثہ ہیں اور کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا باعث رہی ہیں۔ ان بستیوں میں آباد افراد کا حقیقی معنوں میں کوئی ملک نہیں ہے۔
شیخ حسینہ کے عالمی امور کے مشیر گوہر رضوی نے انٹرویو میں کہا دونوں ممالک نے تقریباً تمام باہمی مسائل کو حل کر لیا ہے اور اب حوصلہ مندانہ تعاون کے منصوبوں پر ان کی نظر ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ معاہدہ دیوار برلن گرانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سرحدیں اور لوگ مزید محفوظ ہو جائیں گے۔ حسینہ واجد نے نریندر مودی کے دورے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا اراضی کی تبادلے کے اس معاہدے پر ہم بہت خوش ہیں۔ 41 سالہ پرانے تنازعہ کا پرامن اختتام ہوا ہے۔ ڈھاکا سے 4 بھارتی شہروں تک بس سروس کا بھی افتتاح کیا گیا۔
ڈھاکا کو بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی اقتصادی زون قرار دیدیا۔ بجلی کے منصوبے کے معاہدے پر دونوں ممالک کی کمپنیوں کے نمایندوں نے دستخط کیے۔ 4600 میگاواٹ کا یہ پراجیکٹ بنگلہ دیش میں لگایا جائیگا۔ دونوں ممالک نے کل 22 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ دریں اثنا ڈھاکا میں بھارتی وزیراعظم کے خلاف پوسٹرز چسپاں کرنے پر 3 افراد پکڑے گئے۔ اگر چہ دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے وارے نیارے جانے کا اظہار کرتی ہیں مگر بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت بھارت کی معاندانہ روش سے متنفر ہے۔
اگر بھارت اور بنگلہ دیش اپنے تنازعات کو پرامن انداز سے حل کر رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن بھارتی قیادت کو یہی جذبہ پاکستان کے بارے میں بھی اختیار کرنا چاہیے، بھارتی پالیسی سازوں کی سخت گیر پالیسی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ طے نہیں ہو سکا حالانکہ سرکریک' سیاچن اور پانی کے معاملات ایسے ہیں کہ انھیں حل کیا جا سکتا ہے لیکن بھارت ان تنازعات پر بھی ہٹ دھرمی اختیار کیے ہوئے ہے، اگر بھارتی پالیسی ساز حقیقی معنوں میں جنوبی ایشیا میں امن چاہتے ہیں تو انھیں پاکستان کے ساتھ بھی تنازعات کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
بھارت اور بنگلہ دیش نے گزشتہ روز اراضی کے تبادلے کے سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں ایسے لوگ جو دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں رہ رہے ہیں مگر وہ دونوں ملکوں کی شہریت سے محروم تھے اب انھیں دونوں ملکوں میں سے جس کی وہ چاہیں گے شہریت حاصل کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکریٹریوں نے پروٹوکول پر دستخط کیے ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بنگلہ دیش کے دورے پر ہیں' اس موقعہ پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم مودی اور حسینہ شیخ بھی موجود تھے۔ وزیراعظم مودی نے باہمی تعلقات کی مضبوطی کی خاطر بنگلہ دیش کے لیے دو ارب امریکی ڈالر کے قرضے کا اعلان بھی کیا۔
واضح رہے بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ سرحد کی طوالت چار ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش نے متنازعہ سرحدی انکلیوز کے بارے میں سمجھوتہ کرنے پر1974 ء میں آمادگی ظاہر کر دی تھی مگر بھارتی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری چالیس سال سے زیادہ عرصے کے بعد ابھی پچھلے مہینے ہی دی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران دونوں ملکوں میں وقفے وقفے سے سرحدی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں اور ایک دوسرے پر در اندازی کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں متنازعہ انکلیوز (یعنی خشکی میں گھرے ہوئے علاقوں) کی تعداد 162 ہے جن میں سے 111 بنگلہ دیش کو جب کہ 51 بھارت کو ملیں گے۔
اس علاقوں میں آباد لوگوں کی تعداد پچاس ہزار سے زاید ہے جن کو زندگی کی کوئی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں، نہ اسکول نہ اسپتال نہ مواصلات کا نظام۔ اب دونوں ممالک ان علاقوں کی ادلی بدلی کریں گے اور وہاں کے رہائشیوں کو انتخاب کا حق حاصل ہو گا کہ وہ کہاں رہیں' کس ملک کی شہریت اختیار کریں۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالحسن محمود علی نے بستیوں کی زمین کے تبادلے کے معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان ''تاریخی سنگ میل'' سے تعبیر کیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر یہ بستیاں برطانوی نو آبادیات کا ورثہ ہیں اور کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا باعث رہی ہیں۔ ان بستیوں میں آباد افراد کا حقیقی معنوں میں کوئی ملک نہیں ہے۔
شیخ حسینہ کے عالمی امور کے مشیر گوہر رضوی نے انٹرویو میں کہا دونوں ممالک نے تقریباً تمام باہمی مسائل کو حل کر لیا ہے اور اب حوصلہ مندانہ تعاون کے منصوبوں پر ان کی نظر ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ معاہدہ دیوار برلن گرانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سرحدیں اور لوگ مزید محفوظ ہو جائیں گے۔ حسینہ واجد نے نریندر مودی کے دورے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا اراضی کی تبادلے کے اس معاہدے پر ہم بہت خوش ہیں۔ 41 سالہ پرانے تنازعہ کا پرامن اختتام ہوا ہے۔ ڈھاکا سے 4 بھارتی شہروں تک بس سروس کا بھی افتتاح کیا گیا۔
ڈھاکا کو بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی اقتصادی زون قرار دیدیا۔ بجلی کے منصوبے کے معاہدے پر دونوں ممالک کی کمپنیوں کے نمایندوں نے دستخط کیے۔ 4600 میگاواٹ کا یہ پراجیکٹ بنگلہ دیش میں لگایا جائیگا۔ دونوں ممالک نے کل 22 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ دریں اثنا ڈھاکا میں بھارتی وزیراعظم کے خلاف پوسٹرز چسپاں کرنے پر 3 افراد پکڑے گئے۔ اگر چہ دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے وارے نیارے جانے کا اظہار کرتی ہیں مگر بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت بھارت کی معاندانہ روش سے متنفر ہے۔
اگر بھارت اور بنگلہ دیش اپنے تنازعات کو پرامن انداز سے حل کر رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن بھارتی قیادت کو یہی جذبہ پاکستان کے بارے میں بھی اختیار کرنا چاہیے، بھارتی پالیسی سازوں کی سخت گیر پالیسی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ طے نہیں ہو سکا حالانکہ سرکریک' سیاچن اور پانی کے معاملات ایسے ہیں کہ انھیں حل کیا جا سکتا ہے لیکن بھارت ان تنازعات پر بھی ہٹ دھرمی اختیار کیے ہوئے ہے، اگر بھارتی پالیسی ساز حقیقی معنوں میں جنوبی ایشیا میں امن چاہتے ہیں تو انھیں پاکستان کے ساتھ بھی تنازعات کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔