ایک چھوٹا سا مارشل لاء

ہماری کالم آرائی کے آغاز میں ایسے لوگ بہت کم تھے بلکہ مفقود تھے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ایک کالم نویس کی حیثیت سے میں ان دنوں بہت خوش ہوں۔ کسی مفید عام اور جاندار کالم کے لیے جس خاص مواد کی ضرورت ہوتی ہے اب میں وہ مواد آسانی کے ساتھ جمع نہیں کر سکتا، خاصی محنت کرنی پڑتی ہے اور تحقیق کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن میری یہ ضرورت ہر روز میرے قلم کے آغوش میں خود بخود ہی سمٹ آتی ہے۔ ہماری کالم آرائی کے آغاز میں ایسے لوگ بہت کم تھے بلکہ مفقود تھے۔

ایک کالم نویس ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا، وہی ضرورت کا مواد جمع کرتا، اس کی صداقت کی تسلی کرتا اور بعض ضروری معاملات کی احتیاط بھی کر لیتا اور پھر وہ کالم لکھنے کی مشقت کرتا۔ میں نے کبھی یہ کہا نہیں لیکن اب یہ بتانے کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ میں سیاسی کالم نگاری کا بانی ہوں۔ اس سے قبل ہمارے نامور بزرگ اپنے نام سے یا نام کے بغیر ہی اخبارات کے ادارتی صفحے کے لیے علمی اور فکاہیہ قسم کا ایک کالم لکھا کرتے تھے جس میں وہ اپنے قلم اور علم کی جولانیاں دکھایا کرتے تھے اور صحافت میں زیادہ تر غیر سیاسی ایک نئے انداز کو متعارف کراتے تھے۔

اس میں ان کی آپس کی چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی تھی اور ایسے نادر نکات بھی قارئین کے سامنے آتے کہ وہ یہ سب پڑھ کر حیران اور دم بخود رہ جاتے تھے۔ ہمارے جیسے نئے لکھنے والوں نے ان ہی کالموں سے بہت کچھ سیکھا۔ یہ علم صحافت کے دریا تھے جس کے کناروں کی قربت بھی ایک نعمت ہوتی تھی اور میں وہ خوش نصیب ہوں کہ ان بزرگوں نے کبھی موڈ میں آ کر کوئی نصیحت بھی کر دی کوئی راستہ بھی دکھا دیا۔ جناب چراغ حسن حسرت نے ایک دن پنجاب لائبریری کے برآمدے میں مجھے روکا اور میں سچ مچ گھبرا گیا۔ انھوں نے کہا کہ دیکھو نثر میں بھی شاعری کی طرح وزن ہوتا ہے اور روانی بھی۔ تحریر پڑھتے وقت قاری کو ٹھوکر نہیں لگنی چاہیے۔

ایک دن سالک صاحب نے فرمایا کہ اردو میں لکھتے ہو تو اردو کی کلاسیکی تحریریں پڑھا کرو۔ اب نہ وہ لوگ ہیں اور نہ ہم اس قابل کہ ان کا نام بھی لے سکیں۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ میرے معاصر اور نوجوان کالم نگار میری مشکلات حل کرتے رہتے ہیں اور میں ان کی تحریریں پڑھ کر بہت خوش ہوتا ہوں۔ عارف نظامی کالم نگاری اور اپنے ورثے کا حق ادا کر رہا ہے۔

وہ میری بڑی ضرورت پوری کر دیتا ہے اور اس کا کالم مجھے تازہ دم کر دیتا ہے۔ پھر آپ جدید دور کے کالم نویسوں میں رؤف کلاسرا نکتہ آفریں کالم نویس ہیں جو مجھے کبھی کبھی تو مجبور کر دیتے ہیں کہ میں اب یہ کام چھوڑ ہی دوں کیونکہ وہ مجھ سے بہتر کام کر رہے ہیں۔ ان کے ایک تازہ کالم کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ ملک کو کھانے میں مصروف یہ ٹھگ لوگ کون ہیں جو حیران کن گھپلے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں۔ ان ٹھگوں کے ناموں کا کسی کو پتہ نہیں۔ جنھوں نے سب کو چونا لگایا اور چلتے بنے۔ کیا آپ سب کو یہ جان کر حیرانی نہیں ہوتی کہ یہ کون لوگ ہیں، کس سیارے سے آئے ہیں، کیا چاہتے ہیں اور ملک کیسے چلا رہے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ اپنا کاروبار ایسے کیوں نہیں چلاتے جیسے یہ ملک چلا رہے ہیں۔


اگرچہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش اور ضرورت باقی نہیں رہ جاتی لیکن اپنا غصہ نکالنے کے لیے جب میں ملک کے ساتھ ہونے والی دھاندلیوں کی دہشت گردی دیکھتا ہوں تو ایک ہوک سی دل سے اٹھتی ہے کہ کاش کوئی ایسا ہو جو پاکستان کے شہروں کے چوراہوں پر سولیاں گاڑ دے اور ان کو خالی نہ ہونے دے۔ قوم اپنے لٹیروں اور دشمنوں کو ان سولیوں پر لٹکتا دیکھتی رہے۔ کوئی عبرت حاصل کرے اور کوئی تو بہ تائب ہو جائے مگر توبہ تائب نہیں کہ ایسے لوگوں کے اندر سے توبہ کا تصور ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

وہ ممالک اور قومیں جو ہمارے ایسے حالات سے گزر چکی ہیں اور جنھوں نے طویل جدوجہد کے بعد اپنی اصلاح کر لی ہے معاشرے کو دیانت کے راستے پر ڈال لیا ہے اور جن کے ہاں برائی ایک عیب اور قابل نفرت عمل بن چکی ہے۔ وہ تو ہم سے اگر مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم سزائے موت ختم کر دیں تو وہ اپنے خیال میں شاید درست ہوں لیکن ہمارے ہاں ایسے جرائم کی کمی نہیں اور ایسے جرائم دن رات ہو رہے ہیں جن کی سزا سوائے موت کے اور کوئی نہیں۔ اس آخری سزا کا خوف ہی ان لوگوں کو کسی حد تک انسانیت کے اندر رکھ سکتا ہے ورنہ جس ملک میں بڑے لوگ کتے پالتے ہوں کہ غریبوں کے بچوں کا شکار کر سکیں ان لوگوں کی سزا موت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے بلکہ یہ سزا بھی کم ہی ہے۔ کیا ان کے بچوں پر کتے نہیں چھوڑے جا سکتے۔

مصر کے فاتح اور گورنر حضرت عاصؓ کے بیٹے نے کسی غریب مصری جو قبطی تھا یعنی مسلمان بھی نہیں تھا اسے گورنر کے بیٹے نے مارا پیٹا۔ قبطی نے سوچا یہاں میری کون سنے گا اور گورنر کے صاحبزادے کو سزا کون دے گا، وہ حج کا انتظار کرنے لگا۔ جب خلیفہ ہر شخص کے سامنے اور اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی۔

انھوں نے تفتیش کے بعد گورنر کے بیٹے کو اپنی عدالت میں بلایا اور مدعی مصری سے کہا کہ اس بڑے باپ کے بیٹے کو سزا دو اور اپنا حق حاصل کرو۔ جب مدعی نے حوصلہ پا کر اپنا بدلہ لینا شروع کیا اور صاحبزادے کی چیخیں نکلنی شروع ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اور مارو اس بڑے باپ کے بیٹے کو جو عام انسانوں کو انسان نہیں سمجھتا۔ بہرکیف سزا ختم ہوئی اور حج جیسے عالمی اسلامی تہوار پر اس واقعے کی روداد پورے عالم اسلام میں پھیل گئی اور دنیا نے جان لیا کہ ان کا حاکم ایک انصاف کرنے والا حاکم ہے۔

اس حاکم کے انصاف اور قبولیت عام کی گواہی تو ان کے برابر کے ایک شخص نے دے دی تھی۔ طویل واقعہ ہے بہرکیف جب ناراض خالد بن ولیدؓ سے ایک سپاہی نے کہا کہ آپ کی باتوں سے بغاوت کی بو آتی ہے تو اللہ کی اس تلوار نے سر اٹھا کر کہا کہ جب تک عمر ہے بغاوت نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ حضرت عمرؓ کا انصاف اور سخت گیری تھی جو ہر غلط آدمی کو پکڑ لیتی تھی۔

ہمارے پاکستان میں بھی دیانت و امانت کے لیے ہمیں کسی ایسے ہی سخت گیر نظام کی ضرورت ہے اور کوئی مجھ سے پوچھے تو میں ایک محدود مدت کے مارشل لاء کے حق میں ہوں جس کے بااختیار لوگ گنہگاروں کو گردنوں سے پکڑ کر سولیوں پر لٹکا دیں۔ ہماری قوم ایسی ہی کسی سخت تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے۔ خدا کرے اس سے پہلے ہی برے لوگوں کو ہوش آ جائے اور پاکستان کے چوراہوں میں گڑی سولیاں منہ دیکھتی رہ جائیں۔
Load Next Story