دشمن کی مہربانی

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہماری فوج کے سپہ سالار جرنیل راحیل شریف قدرت کا ایک محفوظ اور خاموش ہتھیار تھا

Abdulqhasan@hotmail.com

فارسی کا ایک مشہور شعر ہے اور محاورہ بھی کہ عدو شر برانگیزد کہ خیر مادراں باشد کہ میرا دشمن میرے لیے کوئی شرارت کرتا ہے لیکن میرے لیے اسی شرارت میں سے خیر کا پہلو بھی نکل آتا ہے۔ بھارت نے ہمارے لیے جو تازہ ترین برملا شرارت کی ہے قدرت نے اس سے بھی ہمارے لیے خیر کا ایک پہلو نکال لیا ہے اور ہماری غفلت اور مجرمانہ قومی بے حسی سے ہمیں خبردار کر کے ہمارے ارادے اور اعمال بدل دیے ہیں۔

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہماری فوج کے سپہ سالار جرنیل راحیل شریف قدرت کا ایک محفوظ اور خاموش ہتھیار تھا جو اس نے بروقت بے نقاب کر کے ہمیں حوصلے اور قومی جرأت کی ایک نئی زندگی دے دی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو ہم مسلمانوں کی اصل زندگی ہے۔ بزدلی اور کمزوری کا ہماری قومی زندگی میں کوئی دخل نہیں ہوا کرتا، ہم صرف سربلند ہو کر ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔

ہمیں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے بندے ہو تو پھر تم نہ کبھی خوف میں گھر سکتے ہو اور نہ تمہیں کمزوری کا کوئی غم لاحق ہو سکتا ہے۔ ہر مسلمان دوسری زندگی کا قائل ہے اور یہ دوسری زندگی جب کسی کو اللہ کی راہ میں شہادت کے بعد ملتی ہے تو پھر کلام مجید اس شہید کے لیے خوشخبریوں سے بھرا پڑا ہے بلکہ وہ اس دوسری زندگی کو بھی پہلی دنیاوی زندگی کی طرح کی ایک زندگی قرار دیتا ہے۔ شہید ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں مگر ہم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔

ہمارے دشمن نے ہمارے خلاف اپنی دانست میں تو ہمارے حوصلے پست کرنے اور ہمیں ذہنی طور پر مغلوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں ہماری شکست کا ایک عبرتناک دور یاد دلایا ہے اور اپنی سپاہ کی کامیابی کا گیت گایا ہے لیکن ہمارے پاس اپنی شکست کا کوئی عذر یا بہانہ نہیں ہے سوائے ہمارے اپنے ان لیڈروں اور حکمرانوں کے جو ہماری اس عبرت ناک شکست کا باعث بن گئے تھے اور جنہوں نے قوم پر ایک ایسا جادو کر دیا تھا کہ یہ قوم اپنے انھی غداروں کو پھر سے اپنا حکمران بنانے پر تیار ہو گئی۔

یہ الگ بات ہے کہ قدرت نے اس ملک خداداد کے ملکی اور غیرملکی غداروں کو ان کے عمل کی سخت سزا دے دی لیکن پاکستان کی بچی کھچی قوم اپنے زخموں پر مٹی ڈال کر پھر سے اپنے ان حکمرانوں کی خدمت پر تل گئی۔ یہ سب ایک تاریخی عبرت کی داستان ہے اور قدرت کو شاید ہمارے کسی مظلوم کی فریاد قبول ہو گئی کہ اس نے اس قوم کو زندہ کرنے کے لیے ایک مجاہد بھیج دیا جو ہمارے دشمنوں کو اپنی حد تک ان کی ہر دھمکی کا جواب دے رہا ہے اور قوم کو یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید کبھی کوئی ایسا وقت آ جائے کہ دشمن کی ہر بات اور حرکت کا جواب اس سیاسی کو نہیں فوجی کو دینا پڑ جائے جو درست طرزعمل نہیں ہوگا ایک مجبوری ہو گی۔


میں جب راحیل شریف کو یاد کرتا ہوں جس سے میرا تعارف ٹیلی ویژن کی تصویروں وغیرہ کے ذریعے ہی ہے تو اس سپہ سالار کے والد ماجد کو یاد کرتا ہوں جو ہمارے لاہور جم خانے کے سرگرم رکن تھے اور کارڈ روم ان کا مرکز تھا۔ ان سے اکثر وبیشتر ملاقات ہوتی تھی۔ ایک دن میں کارڈ روم میں چلا گیا تو یہاں کی فضا سنجیدہ اور کچھ زیادہ محتاط سی دکھائی دی۔

معلوم ہوا کہ میجر شریف صاحب کی موجودگی میں سقوط ڈھاکا والے جرنیل نیازی بھی آ گئے۔ بس اسے دیکھتے ہی اس ریٹائر فوجی کا دماغ گھوم گیا اور اس نے اونچی آواز میں کہا کہ ایک بے حد ناپسندیدہ شخص یہاں بیٹھا ہے اگر وہ یہاں سے چلا نہ گیا تو میں اسے گولی مار دوں گا۔ یہ ایک نشان حیدر بیٹے کا خوش نصیب باپ تھا۔ دوسرے متوقع سپہ سالار کا باپ تھا اور خود عمر فوج میں گزار دی تھی۔ اس کی یہ دھمکی سن کر جنرل نیازی چپکے سے باہر نکل گیا۔ پھر اسے کبھی کلب میں نہیں دیکھا گیا۔

یہ واقعہ مجھے اپنے سپہ سالار کے ذکر سے یاد آ گیا جو پاکستانی بھی اسے سنے گا خوش ہو گا۔ ہم پاکستانی ابھی زندہ ہیں اور بھارت جیسے گھٹیا دشمن کو تو ہم وہ مکھی بھی نہیں سمجھتے جس کے ذکر پر ہمارے بعض لیڈر ناراض ہو جاتے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم کی ہرزہ سرائی کے پس پردہ کئی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس کا ایک بڑا سبب وہ جعلی پاکستانی ہیں جن کی جیب میں پاکستانی شناختی کارڈ تو ہے مگر جن کے دلوں میں بھارت کا نقشہ کھدا ہوا ہے۔ وہ منافق پاکستانی ہیں اور محض چند پیسوں کی وجہ سے بھارت کا دم بھرتے ہیں۔ کہلاتے پاکستانی ہیں مگر کام بھارتی کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے ادھر کچھ عرصے سے اپنے اتنے ہمنوا پیدا کر لیے ہیں کہ اب وہ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی وہ محفوظ اور شاید قابل قبول ہیں۔

انھوں نے این جی او قسم کے بعض ادارے بنا رکھے ہیں اور بعض اوقات ان کی تقریبات میں کھل بھی جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نے بھارت پرستی کے تمغے بھی دلی جا کر حاصل کر لیے ہیں۔ ان کی بدقسمتی سے فوج نے اب ان کی فہرست تیار کرلی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انھیں ملک بدر کر دیں لیکن یہ کوئی سزا نہیں، وہ پہلے ہی ملک بدر ہیں اصل سزا یہ ہے کہ ان کی روزی روٹی اور سفید پوشی ان سے چھین لی جائے اور انھیں غداری کے جرم میں سزا دی جائے۔ کیا پاکستان کوئی اس قدر گیا گزرا ملک ہے کہ یہ نام نہاد دانشور اس ملک کا کھائیں بھی اور اس کا مذاق بھی اڑائیں۔

بھارتی وزیراعظم نے جو تلخ موضوع چھیڑ دیا ہے اس کا ذکر ختم بھی نہیں ہو گا۔ اس بھارتی شر کا ایک پہلو خیر کا بھی ہے جو پاکستانیوں کی بیداری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ بات جاری رہے گی۔
Load Next Story