عید روزہ اور چاند

معلوم نہیں حکومت کو یہ کس نے بتا دیا ہے کہ اسلام میں نماز عید اور آغاز رمضان ایک ساتھ ہونے ضروری ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
عیدالفطر اور آغاز رمضان کا قصہ پاکستان کی حد تک بہت پرانا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کی یہ خواہش کیوں رہی ہے کہ عید اور رمضان المبارک ایک ہی دن ہوں اور پورے پاکستان میں کوئی مقررہ دن عید کا ہو یا آغاز رمضان کا معلوم نہیں ہمارے حکمران اس اتحاد سے کیا چاہتے ہیں کیونکہ عید اور رمضان المبارک کے دینی اور سیاسی تقاضوں سے وہ کوئی تعلق ظاہر نہیں کرتے اور ان موقعوں پر ان کی حکمرانی میں کوئی بہتری بھی نہیں دیکھی جاتی۔

یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی نمائشی اتحاد کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق ہو اور ان کے لیے ملک میں مقبولیت کی نشانی بن جائے جب کہ اسلام میں عید اور رمضان کا آغاز چاند کی تاریخوں سے ہوتا ہے اور چاند کی رفتار کسی حکمران کی خواہش کی پابند نہیں ہے یہ قدرت کا ایک نظام ہے۔ عید اور روزے کے لیے ایک دن کی زبردست خواہش ایوب خان کے دور میں پہلی بار پیدا ہوئی تھی لیکن ملک بھر کے علما نے جس دن عید کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ دن حکمران کے پسندیدہ دن سے مختلف تھا۔

مشکل یہ پیدا ہو گئی کہ عید کی نماز پڑھانے کے لیے کوئی امام آمادہ نہیں تھا۔ اس زمانے میں کراچی دارالحکومت تھا مقامی انتظامیہ جیل کے امام مسجد کو پکڑ لائی جس نے عید کی امامت کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی چنانچہ نماز عید شروع ہوئی لیکن پہلا سجدہ جب زیادہ طویل ہو گیا تو کراچی کے ڈی سی ایس کے محمود صاحب نے ذرا سا سر اٹھا کر دیکھا تو مولوی صاحب غائب تھے یوں معلوم ہوا کہ سرکاری امام مسجد بھاگ گیا ہے۔ یہ اس قسم کا پہلا موقعہ تھا جب حکومت کی خواہش اور علمائے کرام کے عمل میں کھلا اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔

اس کے بعد اب تک یہ تنازعہ جاری ہے اور ان دنوں ہمارے وزیر مذہبی امور علما میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ان کی کامیابی اور ناکامی دونوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس اتحاد میں ایک عالم دین ہمیشہ مشکل پیدا کرتے ہیں وہ پشاور کی قاسم مسجد کے مفتی صاحب ہیں خبر میں بتایا گیا کہ وزیر صاحب نے ان کو پیغام بھجوایا ہے کہ اس بار وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنائیں ایک خبر یہ بھی ہے کہ انھیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا رکن بنا لیا گیا ہے اور وہ راضی ہو گئے ہیں۔ بہر کیف پتہ تو عید کے موقعے پر یا آغاز رمضان پر ہی چلے گا۔


معلوم نہیں حکومت کو یہ کس نے بتا دیا ہے کہ اسلام میں نماز عید اور آغاز رمضان ایک ساتھ ہونے ضروری ہیں۔ عید ہو تو پورے ملک میں ایک ہی دن ہو اور پہلا روزہ بھی پورے ملک میں ایک دن رکھا جائے جب کہ دنوں کے اختلاف سے عید اور روزے کے ثواب اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑتا سوائے حج بیت اللہ کے اور کسی عبادت کا دن اور وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاند دکھائی دے تو روزے کی نیت کر لیں اور جب چاند دکھائی دے تو روزہ کھول کر عید کی تیاری کر لیں۔ حکمرانوں کی یہ خواہش پتہ نہیں کہاں سے آ گئی ہے۔

اس مسئلے میں اگر کسی کو کوئی حق حاصل ہے تو وہ صرف علما ہیں جو پورے سال نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور حیرت انگیز حد تک پانچ وقت اس فرض کی ادائیگی کی پابندی کرتے ہیں گرمی ہو سردی بارش ہو یا مطلع صاف ہو مسجد سے اذان کی آواز ہر وقت گونجتی ہے۔ مسجد کا مؤذن نہایت ہی معمولی مشاہرے پر تمام دنیا کا یہ کام وقت مقررہ پر کرتا ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ کام محض کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

بہر حال وقت کی پابندی کی یہ مثال دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے کام میں ملتی ہو۔ حکمران اگر عید اور رمضان میں دن کی پابندی کا خیال رکھتے ہیں تو وہ کاروبار حکومت میں بھی اس کی پابندی کریں جو ان کے آداب حکمرانی کا حصہ ہے اور ان کے زیر حکومت خلق خدا اس کا مطالبہ کرتی ہے لیکن کاروبار مملکت میں یہ پابندی مشکل ہے اور حکمرانوں کے آرام اور دوسری آسائشوں مخل ہوتی ہے اس لیے وہ ایسے مسئلے پیدا کرتے ہیں جو فروعی کہلاتے ہیں اور ان کی ذات پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

آغاز رمضان المبارک اور عیدالفطر کا دن اگر ایک جیسے یعنی پہلے سے طے شدہ ہوں تو قوم کو مبارک لیکن چاند کی رفتار کا جائزہ لے لیں کہ چاند نہ نکلے تو نہ روزہ رکھا جا سکتا ہے نہ عید کی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ حکمران کہہ رہے ہیں کہ جب چاند دیکھ کر تاریخ طے ہو تو پھر ملک بھر میں یہی تاریخ ہو روزے اور عید کی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکمرانوں کو رمضان اور عید کی فکر کب سے لاحق ہو گئی ہے فی الحال وہ اگر بذات خود ان فرائض کی پابندی کریں تو قوم ان کے نیک عمل کی اجتماعی برکت سے مستفید ہو گی۔ لیکن اپنے اقتدار کو ایسے سہارے نہ دیں جو ان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ حکمران اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور عامۃالمسلمین کو ان مسئلوں میں نہ الجھائیں۔ میرا ایک نواسہ کل ہی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ بابا مجھ پر روزے کب فرض ہوں گے۔ ایک بڑی ہی مشکل اور صبر آزما عبادت کا یہ شوق نوجوانوں میں باقی رہنے دیں۔
Load Next Story