خوفزدہ بھارت

بھارتیوں کے بدلے لینے کی بات درحقیقت ان کے خوف کی علامت ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

BRASILIA:
اگرچہ سیاستدانوں کی طرح محکمہ موسمیات والوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں لیکن ہمیں خوش کرنے کے لیے محکمہ موسمیات والوں نے رمضان المبارک کا مہینہ ایک خوشگوار اور ٹھنڈا مہینہ قرار دیا ہے۔ ان کے حساب کتاب کے مطابق مسلمان ایک اچھے موسم میں اپنا یہ سالانہ فرض ادا کریں گے جب کہ وفاق اور صوبوں کے بجٹ نازل ہو چکے ہیں اور اپنے مظالم کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔

کچھ تو بجٹ بنانے والوں نے پاکستانی زندگی کا کوئی شعبہ بلا ٹیکس جانے نہیں دیا اور کاروباری لوگوں کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ میں نے ایک گاڑی اپنے نام کرانی تھی معلوم ہوا کہ اس میں ٹیکس وغیرہ اتنے زیادہ ہیں کہ گاڑی کی ایک قیمت تو میں یعنی ایک گاہک ادا کرے گا دوسری قیمت اس کاروبار میں مصروف لوگ وصول کریں گے۔ میاں صاحب نے بجٹ کا ماہر ایک حسابی کتابی شخص کو تلاش کیا ہے یعنی ایک اکاؤنٹنٹ کو جو ان کے خاندان کا ایک فرد بھی ہے اور ان کے مالی امور کو درست بھی کیا کرتا تھا۔

ایک تو وزارت کا نشہ، دوسرا شاہی خاندان کا ایک اہم فرد ہونے کا نشہ اور تیسرے یہ اختیار کہ جو چاہے کرے کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا دے یعنی کسی کو رئیس تو کسی کو فقیر بنا دے اور جب اس مشغلے یعنی شغل میں کوئی اخبار والا بول پڑے تو اس کی جی بھر کر بے عزتی کر دے۔ بڑی ہی حقارت سے اس کمی کمین کو مجلس سے نکال دینے کا حکم دے اور جب کوئی صحافی کسی غلط فہمی میں چوں چرا کرنے کی کوشش کرے تو صاحب کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر چپ ہو جائے۔

مجھے وزیر خزانہ کی اس پریس کانفرنس دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ ایک تو میرے سامنے صحافت کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا کہ کسی نے بھری پری پریس کانفرنس میں کسی صحافی کو خوب ڈانٹا۔ سب کچھ کہا صرف یہ نہیں کہا کہ گدی سے اس کی زبان کھینچ لو حالانکہ میرے صحافی بھائیوں نے اس پریس کانفرنس میں جس عاجزی کا ثبوت دیا اسے دیکھ کر تعجب ہے کہ وزیر خزانہ نے الفاظ میں کنجوسی کی۔ میرے لیے خوشی کی یہ بات ہے کہ میں اب صحافت کے اس معروف اور بارعب دور سے گزر چکا ہوں جس میں عزت بھی چلی جاتی ہے یا جا سکتی ہے۔


اب میں یہاں اپنی رپورٹنگ کے زمانے کو یاد نہیں کروں گا جب صاحبان علم یعنی یونیورسٹی کی کسی تقریب میں بھٹو صاحب کسی صحافی پر اس کا نام لے کر ناراض ہوئے تھے کیونکہ وہ اکثر صحافیوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے لیکن مجلس ختم ہونے سے پہلے وہ اس صحافی حسین نقی سے معافی مانگ لیتے تھے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی یہ ایک عزت افزائی تھی اس میں قطعا کوئی سبکی نہیں تھی مگر یہ بڑے لوگ تھے۔ بھٹو صاحب کے ذکر سے یاد آیا کہ اقتدار کا حلف اٹھاتے ہی وہ آٹھ نو مسلمان ملکوں کے طوفانی دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ صحافیوں میں، میں اپنے اخبار کی نمایندگی کر رہا تھا، حالت یہ تھی کہ کسی ملک میں ناشتہ کسی میں دوپہر کا کھانا اور کہیں رات کا قیام، اس سفر میں کئی بار بھٹو صاحب سے آمنا سامنا ہو جاتا تھا اور وہ نہ صرف اس مصروفیت کا عذر پیش کرتے بلکہ تکلیف کی معذرت بھی کرتے۔

واپسی پر انھوں نے ملک غلام مصطفے کھر سے کہا کہ لڑکا تو اچھا ہے مگر غلط راستے پر ہے۔ کھر صاحب نے بروقت مشورہ دیا کہ سیدھے بھٹو کے راستے پر آ جاؤ اور عیش کرو ان کا یہ برادرانہ مشورہ تھا جو میں قبول نہ کر سکا اور غلط راستے پر ہی چلتا رہا اب تک اسی راستے پر یہ سفر جاری ہے لیکن بات ایک وزیر صاحب کی گفتگو کی ہو رہی تھی چلیے چھوڑئیے اس کو اور یہ دیکھئے کہ ملک کی جو معاشی درگت بنادی گئی ہے اس پر یہ ملک کتنے عرصے تک چل سکے گا اور کب خدانخواستہ منہ کے بل گر پڑے گا۔ میں نے تو گاؤں میں ایک کونا تلاش کر لیا ہے' کیا آپ نے بھی میری طرح کوئی کونا یا جدہ ڈھونڈ لیا ہے۔

یہ تو یونہی گپ شپ ہے اللہ رحم کرے گا اور ہمارا ملک بچ نکلے گا۔ بھارت ان دنوں حماقت کی انتہا پر ہے مگر افسوس کہ وہ ہمیں جانتا نہیں ہے۔ بھارت اپنی پوری تاریخ میں جو ہزاروں برس کی بھی ہو سکتی ہے پہلی بار آزاد ہوا ہے، راجواڑوں اور گروہوں میں تقسیم یہ ملک مسلمان حکمرانوں نے متحد کیا اور پھر اس پر حکومت کرتے رہے۔ ہمارے مشہور بادشاہ تو ہندو عورتوں کی اولاد تھے۔ یعنی مسلمان حکمرانوں نے ہندوؤں کو قریب تر کرنے کی کوشش بھی کی اور اس میں کامیاب رہے، اب جب وہ ایک سامراج کی غلامی سے آزاد ہو کر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے زندہ ہیں تو انھیں مسلمانوں کی غلامی بھی یاد آنے لگی ہے اور اب بدلے لے رہے ہیں کیونکہ برطانوی سامراج نے انھیں ایک ملک بنا دیا تھا۔

بھارتیوں کے بدلے لینے کی بات درحقیقت ان کے خوف کی علامت ہے۔ بھارت کے ایک مسلمان دانشور کہا کرتے ہیں کہ ہم اگر مسجد میں سفیدی بھی کرا دیں تو پڑوس کے ہندو گھبرا جاتے ہیں کہ یہ پھر سے پرانے مسلمان بننے والے ہیں۔ بھارت کی بڑائی اور پاکستان کی اس کے مقابلے میں کمی واضح ہے رقبے اور آبادی میں لیکن اس کے باوجود پاکستان سے ڈر خوف کس بات کا۔ بعض لوگوں کو ڈر ہے کہ بھارت اپنے اندرونی خوف کیوجہ سے کہیں جنگ نہ چھیڑ دے۔
Load Next Story