کھڑک سنگھ
ایک بازاری سیاستدان کی یہ بات درست ہے کہ کئی لیڈر فوج کے گملوں کی پیداوار ہیں
Abdulqhasan@hotmail.com
KARACHI:
حکومت کے خلاف جب نو جماعتی تحریک چل رہی تھی تو ان دنوں پی این اے کی اس تحریک کے سیکریٹری جنرل ایک وکیل تھے جو بہت مشہور ہوئے اور اتنے کہ بہت ساری فیس لے کر اندر خانے حکومت کے وکیل بن گئے اور یہ راز افشا ہوا تو ان کی سیاسی چھٹی ہو گئی۔ وہ اپنی تقریروں میں دلچسپ فقرے استعمال کرتے تھے جن میں سے ایک پنجابی کا یہ شعر تھا کہ
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے
کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
اسے وہ نہایت توہین آمیز انداز میں استعمال کرتے تھے اور ہجوم بہت خوش ہوتا تھا۔ مجھے یہ بہت پرانی بات جناب آصف علی زرداری کی تازہ ترین تقریر سن کر یاد آئی ہے جس میں انھوں نے دھمکیاں دی ہیں کہ وہ اگر کھڑے ہو گئے تو پھر پورا ملک کھڑا ہو جائے گا اور جب تک وہ بیٹھیں گے نہیں پورا ملک طورخم سے کراچی تک کھڑا رہے گا یعنی کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے سب کچھ کھڑکنے لگ جائے گا۔
ان کی پرجوش بلکہ غضب ناک تقریر میں کئی دوسرے جملے بھی کھڑک سنگھ اسٹائل کے تھے۔ جب میں ٹی وی پر یہ تقریر سن رہا تھا اور حیرت سے منہ کھلا ہوا تھا تو سوچ رہا تھا کہ یہ کون ہے جو اس قدر غصہ میں آ کر ملک کے بڑے بڑوں کو سب کچھ سنا رہا ہے۔ شکل و صورت تو بارہا دیکھی بھالی ہے کئی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں اور ان ملاقاتوں میں ان کی بڑی سلجھی ہوئی گفتگو بھی سنی ہے کلام میں شائستگی اور آداب محفل کی زبردست پابندی۔ ہر صورت میں ایک مہذب شخص جسے جیل اور اقتدار کے ایوانوں کا خوب تجربہ ہے اور جس نے پوری سیاست کی ہے اور جس کی بیگم ان سے بھی بڑی سیاستدان تھیں ایک بامقصد سیاستدان جو اپنے اصولوں پر قربان ہو گئی۔
سیاست کے اتنے بھرپور تجربوں کے بعد بھی کیا یہ وہی آصف زرداری ہے جو اس وقت قوم کے سامنے ایسی گفتگو کر رہا ہے جس پر کسی سیاستدان کا نہیں کسی عام سے جھگڑالو کا گماں گزرتا ہے جو کسی گائوں کے میلے میں لڑائی ہو جانے پر اپنے جوہر دکھا رہا ہے۔ ان کی تقریر کی یہ شام پورے ملک کو حیرت میں ڈبو گئی اور بعض لوگوں کو اپنے سے شرم بھی آنے لگی کہ کیا یہ تھا آپ کا صدر محترم لیکن یہ سب کچھ ایک حقیقت اور زندہ واقعہ تھا۔ جیتا جاگتا ایک ٹی وی ڈرامہ ہی نہیں زندہ کرداروں کی ایک پیش کش۔
زرداری صاحب کی اپوزیشن چونکہ ان سے بھی گئی گزری ہے ورنہ وہ ان کے ان ارشادات کی جس قدر تشہیر ممکن تھی کر گزرتی کیونکہ کوئی بھی موقع ہو الیکشن ہو یا کوئی اور سیاسی مہم اس کے لیے جناب زرداری کے یہ ارشادات ہی بہت ہیں جن کے کھڑکنے سے ملک بھر کی کھڑکیاں کھڑک اٹھی ہیں اور اس کا اعلان خود انھوں نے کیا ہے کہ وہ کھڑے ہو گئے تو پورا ملک کھڑا ہو جائے گا۔ ہر کھڑکی کھڑکنے لگ جائے گی اور جب تک وہ بیٹھیں گے نہیں کھڑکتی رہے گی۔ میں نے زرداری صاحب اور ان کے ہمنوائوں کو بارہا سنا ہے لیکن انھوں نے ایک حد کے اندر رہنے کی کوشش کی ہے مگر ان کا لیڈر تو ہر حد پھلانگ گیا ہے۔
میاں نواز شریف جو کل تک ان کے حلیف تھے اب معلوم ہوا کہ ان کے حریف بن چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ افواج پاکستان نے کیا جرم کر دیا ہے کہ زرداری صاحب ان کو خطرناک انجام کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے اگر ان کا بس چلے تو وہ فوج کے خلاف ایک جنگ عضب شروع کر دیں۔ فوجی حیران ہوں گے کہ انھوں نے تو ان کے بزرگوں کو لیڈر بنایا ہے اور ان کی سرپرستی کی ہے ان کا قصور کیا ہے کہ اب ان پر زرداری صاحب کا غصہ نہیں اترتا۔ حالانکہ ماڈل ایان کی گرفتاری اور برائے نام قید میں فوج بے قصور ہے۔
اب اگر ان کی جماعت کے لیڈر اور کل کے وزیر اعظم گیلانی صاحب ہار چوری میں پکڑے جائیں تو یہ کیا فوج کا قصور ہو گا۔ کمال ہے گیلانی صاحب کا ایک دوست ملک کی خاتون اول نے مستحق اور ضرورت مند پاکستانیوں کے لیے گلے کا ہار اتار کر دے دیا کہ اسے بیچ کر بچیوں کی شادیاں کرا دیں اور شاہ صاحب نے یہ ہار اپنے گلے میں ڈال لیا ایسی حرکت نے پورے ملک اور قوم کو شرمندہ کر دیا ہے اور یہ سابق وزیر اعظم زرداری صاحب کے دائیں بائیں دکھائی دے رہے ہیں۔
بات یہ تھی کہ زرداری صاحب نے فوج کو کس جرم میں ڈانٹ ڈپٹ کر دی ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی زبان پر اگر فوج نے ان کے خلاف کارروائی کی تو قوم کو ان پر ترس آ جائے گا تو وہ یہ غلط فہمی دل سے نکال دیں آج کی فوج پاکستانیوں کے دلوں میں بستی ہے کسی کے گلے کا ہار نہیں ہے زرداری صاحب کی یہ سیاسی چال شاید ان کے حق میں نہیں جائے گی اور بات اگر بڑھا دیں تو 'ڈیڈی ایوب خان' تک چلی جائے گی۔ ایک بازاری سیاستدان کی یہ بات درست ہے کہ کئی لیڈر فوج کے گملوں کی پیداوار ہیں۔ تعجب ہے کہ زرداری صاحب جیسا بظاہر عقلمند سیاستدان ایسی باتیں بھی منہ سے نکال سکتا ہے۔ یہ موضوع ایسا سدا بہار ہے کہ رمضان المبارک میں بھی چلتا رہے گا۔
حکومت کے خلاف جب نو جماعتی تحریک چل رہی تھی تو ان دنوں پی این اے کی اس تحریک کے سیکریٹری جنرل ایک وکیل تھے جو بہت مشہور ہوئے اور اتنے کہ بہت ساری فیس لے کر اندر خانے حکومت کے وکیل بن گئے اور یہ راز افشا ہوا تو ان کی سیاسی چھٹی ہو گئی۔ وہ اپنی تقریروں میں دلچسپ فقرے استعمال کرتے تھے جن میں سے ایک پنجابی کا یہ شعر تھا کہ
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے
کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
اسے وہ نہایت توہین آمیز انداز میں استعمال کرتے تھے اور ہجوم بہت خوش ہوتا تھا۔ مجھے یہ بہت پرانی بات جناب آصف علی زرداری کی تازہ ترین تقریر سن کر یاد آئی ہے جس میں انھوں نے دھمکیاں دی ہیں کہ وہ اگر کھڑے ہو گئے تو پھر پورا ملک کھڑا ہو جائے گا اور جب تک وہ بیٹھیں گے نہیں پورا ملک طورخم سے کراچی تک کھڑا رہے گا یعنی کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے سب کچھ کھڑکنے لگ جائے گا۔
ان کی پرجوش بلکہ غضب ناک تقریر میں کئی دوسرے جملے بھی کھڑک سنگھ اسٹائل کے تھے۔ جب میں ٹی وی پر یہ تقریر سن رہا تھا اور حیرت سے منہ کھلا ہوا تھا تو سوچ رہا تھا کہ یہ کون ہے جو اس قدر غصہ میں آ کر ملک کے بڑے بڑوں کو سب کچھ سنا رہا ہے۔ شکل و صورت تو بارہا دیکھی بھالی ہے کئی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں اور ان ملاقاتوں میں ان کی بڑی سلجھی ہوئی گفتگو بھی سنی ہے کلام میں شائستگی اور آداب محفل کی زبردست پابندی۔ ہر صورت میں ایک مہذب شخص جسے جیل اور اقتدار کے ایوانوں کا خوب تجربہ ہے اور جس نے پوری سیاست کی ہے اور جس کی بیگم ان سے بھی بڑی سیاستدان تھیں ایک بامقصد سیاستدان جو اپنے اصولوں پر قربان ہو گئی۔
سیاست کے اتنے بھرپور تجربوں کے بعد بھی کیا یہ وہی آصف زرداری ہے جو اس وقت قوم کے سامنے ایسی گفتگو کر رہا ہے جس پر کسی سیاستدان کا نہیں کسی عام سے جھگڑالو کا گماں گزرتا ہے جو کسی گائوں کے میلے میں لڑائی ہو جانے پر اپنے جوہر دکھا رہا ہے۔ ان کی تقریر کی یہ شام پورے ملک کو حیرت میں ڈبو گئی اور بعض لوگوں کو اپنے سے شرم بھی آنے لگی کہ کیا یہ تھا آپ کا صدر محترم لیکن یہ سب کچھ ایک حقیقت اور زندہ واقعہ تھا۔ جیتا جاگتا ایک ٹی وی ڈرامہ ہی نہیں زندہ کرداروں کی ایک پیش کش۔
زرداری صاحب کی اپوزیشن چونکہ ان سے بھی گئی گزری ہے ورنہ وہ ان کے ان ارشادات کی جس قدر تشہیر ممکن تھی کر گزرتی کیونکہ کوئی بھی موقع ہو الیکشن ہو یا کوئی اور سیاسی مہم اس کے لیے جناب زرداری کے یہ ارشادات ہی بہت ہیں جن کے کھڑکنے سے ملک بھر کی کھڑکیاں کھڑک اٹھی ہیں اور اس کا اعلان خود انھوں نے کیا ہے کہ وہ کھڑے ہو گئے تو پورا ملک کھڑا ہو جائے گا۔ ہر کھڑکی کھڑکنے لگ جائے گی اور جب تک وہ بیٹھیں گے نہیں کھڑکتی رہے گی۔ میں نے زرداری صاحب اور ان کے ہمنوائوں کو بارہا سنا ہے لیکن انھوں نے ایک حد کے اندر رہنے کی کوشش کی ہے مگر ان کا لیڈر تو ہر حد پھلانگ گیا ہے۔
میاں نواز شریف جو کل تک ان کے حلیف تھے اب معلوم ہوا کہ ان کے حریف بن چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ افواج پاکستان نے کیا جرم کر دیا ہے کہ زرداری صاحب ان کو خطرناک انجام کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے اگر ان کا بس چلے تو وہ فوج کے خلاف ایک جنگ عضب شروع کر دیں۔ فوجی حیران ہوں گے کہ انھوں نے تو ان کے بزرگوں کو لیڈر بنایا ہے اور ان کی سرپرستی کی ہے ان کا قصور کیا ہے کہ اب ان پر زرداری صاحب کا غصہ نہیں اترتا۔ حالانکہ ماڈل ایان کی گرفتاری اور برائے نام قید میں فوج بے قصور ہے۔
اب اگر ان کی جماعت کے لیڈر اور کل کے وزیر اعظم گیلانی صاحب ہار چوری میں پکڑے جائیں تو یہ کیا فوج کا قصور ہو گا۔ کمال ہے گیلانی صاحب کا ایک دوست ملک کی خاتون اول نے مستحق اور ضرورت مند پاکستانیوں کے لیے گلے کا ہار اتار کر دے دیا کہ اسے بیچ کر بچیوں کی شادیاں کرا دیں اور شاہ صاحب نے یہ ہار اپنے گلے میں ڈال لیا ایسی حرکت نے پورے ملک اور قوم کو شرمندہ کر دیا ہے اور یہ سابق وزیر اعظم زرداری صاحب کے دائیں بائیں دکھائی دے رہے ہیں۔
بات یہ تھی کہ زرداری صاحب نے فوج کو کس جرم میں ڈانٹ ڈپٹ کر دی ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی زبان پر اگر فوج نے ان کے خلاف کارروائی کی تو قوم کو ان پر ترس آ جائے گا تو وہ یہ غلط فہمی دل سے نکال دیں آج کی فوج پاکستانیوں کے دلوں میں بستی ہے کسی کے گلے کا ہار نہیں ہے زرداری صاحب کی یہ سیاسی چال شاید ان کے حق میں نہیں جائے گی اور بات اگر بڑھا دیں تو 'ڈیڈی ایوب خان' تک چلی جائے گی۔ ایک بازاری سیاستدان کی یہ بات درست ہے کہ کئی لیڈر فوج کے گملوں کی پیداوار ہیں۔ تعجب ہے کہ زرداری صاحب جیسا بظاہر عقلمند سیاستدان ایسی باتیں بھی منہ سے نکال سکتا ہے۔ یہ موضوع ایسا سدا بہار ہے کہ رمضان المبارک میں بھی چلتا رہے گا۔