اُلٹے بچوں کا واحد سہارا سیو دی چلڈرن
تشویش کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اپنے چوہدری نثار علی خان کچھ زیادہ ہی طیش میں آ گئے تھے
barq@email.com
KARACHI:
یوں کہیے کہ ہمارے ننھے سے دل پر سے تشویش کا وہ بھاری پتھر ہٹ گیا جو کچھ دنوں سے پڑا دل کے اندر کا سارا مال و متاع کچلے جا رہا تھا ''سیو دی چلڈرن'' کے خلاف اقدام موخر، ملتوی یا ایسا ہی کچھ کر دیا گیا، شکر اللہ کا
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت
تشویش کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اپنے چوہدری نثار علی خان کچھ زیادہ ہی طیش میں آ گئے تھے اور پاکستان کی عزت نفس یا غیرت قومی تک بات پہنچ گئی تھی کیوں کہ موصوف ہی کے ایک بیان میں ہم نے یہ بات پڑھی تھی کہ این جی او پاکستان کی عزت نفس ۔۔۔ یا اسے ہی کچھ خاص بارعب الفاظ تھے، تفصیلات کا کچھ علم نہیں کہ مذکورہ این جی او یا پاکستان کے تمام این جی اوز اینڈ کمپنیاں کیا کر رہی تھیں لیکن یقیناً کچھ ایسا کر رہی ہوں گی جو کسی نہ کسی اینگل سے ''پسندیدہ'' نہیں تھا، گزشتہ کچھ دنوں سے اس موضوع پر ہمارے چوہدری صاحب کے بیانات سے پتہ چل رہا تھا کہ اب ان این جی اوز کی داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔۔۔ اور ہمیں بار بار فلم گلال میں ریکھا بھردواج کا گانا یاد آ رہا تھا کہ
رانڑا جی غصے میں آئے
سو سو بل کھائے، گھبرائے مارو چین
ریکھا بھردواج کا مذکورہ گانا بظاہر ایک آئٹم سانگ ہے لیکن اس آئٹم سانگ میں جو ''آئٹم'' چھوڑے گئے ہیں وہ سننے اور غور کرنے لائق ہیں مثلاً رانڑا جی کے غصے کو تشبیات کے ذریعے واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
جیسے دور دیس کے ٹاور میں گھس جائے ایرو پلین
جیسے عراق میں جا کر جم گئے انکل سیم
جیسے بنا باد کے افغانستان کا بچ گیا بینڈ
رانا جی غصے میں آئے۔۔۔۔
لیکن اب جو خبر آ گئی ہے کہ سیو دی چلڈرن پر عائد پابندی ختم ۔۔۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث امریکی این جی او کے دفاتر سیل کرنے سے متعلق ''نوٹیفکیشن'' پر عمل درآمد روک دیا گیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اگلے حکم نامے تک امریکی این جی او پاکستان میں اپنے ''آپریشنز'' جاری رکھ سکتی ہے، ظاہر ہے کہ ہر بڑی خبر کے نیچے اور بھی بہت ساری چھوٹی چھوٹی نرسریاں اگ آتی ہیں چنانچہ ۔۔۔ وزارت داخلہ کا تنظیم کے دفاتر فوراً کھولنے کا حکم ۔۔۔ آیندہ 48 گھنٹوں میں اجلاس طلب ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور واچ لسٹ پر موجود 126 این جی اوز کے مستقبل کے بارے میں اہم ''فیصلے'' کیے جائیں گے۔
ان تمام بریکنگ نیوز کو پڑھنے کے بعد اپنے گاؤں کے دو کھسلے ہوئے گڈریوں کا جھگڑا یاد آیا دونوں اکٹھے اپنے اپنے ریوڑ چراتے تھے نہ جانے دونوں کا کسی بات پر جھگڑا ہو گیا پہلے انھوں نے بھیڑیں الگ الگ کیں اور پھر علاقہ تقسیم کیا جو یوں تھی کہ سڑک کے مشرقی علاقے میں ایک اپنی بھیڑیں چرائے گا اور دوسرے کا علاقہ سڑک کا مغربی حصہ ہو گا دونوں اپنے اپنے ریوڑ الگ کر کے اپنے اپنے علاقے کی طرف چل دیے، کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد اچانک ایک گڈریا پکارا ٹھہرو بات سنو ۔۔۔۔ دونوں پلٹ کر ایک دوسرے کے پاس گئے۔
پکارنے والا بولا میں تو بھول گیا تالاب تو تمہاری طرف رہ گیا ہے میں اپنے جانوروں کو پانی کہاں سے پلاؤں گا، دوسرے نے کہا نہیں اب تو بٹوارہ ہو چکا ہے دوسرے نے طیش میں آ کر کہا کم بخت تم انسان ہو یا جانور ۔۔۔ کیا ان معصوم بھیڑوں کو پیاسا مارو گے؟ دوسرا پسچ گیا چنانچہ باہمی افہام و تفہیم سے طے ہو گیا ہے کہ اگر وہ اپنا ریوڑ اس کے علاقے میں تالاب پر آئے گا تو دوسرا بھی کچھ کچھ اس کے علاقے میں بھیڑیں چرائے گا یوں دوسرے دن پھر دونوں نے ریوڑوں اور علاقوں کا انضمام ہو گیا غالباً امریکی این جی اوز کے معاملے میں کچھ ایسا ہی پھڈا پڑ گیا ہو گا ۔
اس لیے فی الحال سردست اگلے حکم نامے تک ۔۔۔۔ تم سے ملے ہم سجن ہم سے ملے تم ۔۔۔ مدھوبن میں جو کنیا کسی گوپی سے ملے ۔۔۔ رداھا پھر کیوں نے جلے ۔۔۔۔ ایک پشتو ٹپہ جس کے ساتھ ایک پورا منظر بھی آپ تصور میں لا سکتے ہیں کہ دو محبت کرنے والوں میں کچھ کہا سنی اور روٹھا روٹنی ہو گئی دونوں اس انتظار میں رہے کہ کوئی ان کو آپس میں ملا دے گا لیکن لوگوں کو کیا پڑی تھی آخر ایک ٹپہ بلند کیا
رازہ چہ خپلو کے پہ خلا شو
زما ستا سوک دی چہ بہ مونگ پہ خلاا کوینہ
یعنی آؤ ہم تم آپس میں خود ہی ''من'' جائیں ہمارا تمہارا کون ہے جو ہمیں منائے گا؟، اب یہ چلڈرن سیون یا سیو دی چلڈرن جو کچھ بھی ہے کا معاملہ لے لیجیے جب سے ہم نے اس کے بارے میں سنا تھا رگ رگ میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی دل پر یہ بڑا پتھر پڑ گیا وہ بھی کالا کہ خدا نہ کردہ خدا نہ کردہ اگر یہ معاملہ بڑھ گیا تو ہمارا اور جان جگر بلکہ جان جاناں بلکہ جان جہاں امریکا کے درمیان ''کٹی'' ہو جائے گی بلکہ وہ حالت ہو گئی جو بے چارے منیر نیازی کی ہو گئی تھی
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی سلگائے ہوئے رہنا
بلکہ ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں بات آخری اسٹیج پر نہ پہنچ جائے جہاں منیر نیازی کو مستقل اکتائے ہوئے رہنے کا شدید مرض لاحق ہو گیا، آپ سمجھ نہیں رہے ہیں معاملہ بڑا گھمبیر تھا کتنا زمانہ ہو گیا ہے کہ امریکا ہمارے ہاں کے چلڈرنز کو سیو کر رہا ہے ان بچوں کو نہیں جو بچے ہوتے ہیں اور من کے سچے ہوتے ہیں ان کے تو ماں باپ بھی ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی دن بڑے بھی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ باپ بھی کبھی بچے تھے بلکہ اصل مسئلہ ان بچوں کا تھا جو الٹی گنتی میں آتے ہیں یعنی بوڑھوں سے پھر ''بچے'' بن جاتے ہیں۔
جن سے ہمارے ہاں کا سارا ''سیاسی یتیم خانہ'' بھرا ہوا ہے اور اس یتیم خانے کی فنڈنگ صرف امریکا کرتا ہے ورنہ یہ بے چارے اب تک نہ جانے کہاں پہنچ چکے ہوتے، فرض کیجیے بلکہ خدانخواستہ اگر واقعی یہ ''سیو دی چلڈرن'' کا سلسلہ دراز ہو جاتا تو اتنے سارے بوڑھے ڈس ایبل اور یتیم و یسیر اور بے روزگار بچے بلکہ بغل بچے کہاں جاتے کون انھیں پالتا، یعنی کس کے گھر جاتا یہ ''سیلاب بلا'' امریکا کے بعد ۔۔۔ بہت سے لوگوں کو یہ پتہ نہیں صرف امریکا جانتا ہے کہ بچے صرف ایک قسم کے نہیں ہوتے وہ عام بچے تو سب کو معلوم ہیں جو ''بچے'' ہی پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک نہ ایک دن بڑے ہو ہی جاتے ہیں لیکن دوسری قسم کے بچے اس کے بالکل ہی الٹ ہوتے ہیں ان کی عمریں بڑھتی نہیں بلکہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں زیادہ تر یہ 35 تا 50 یا 60 سال کے ''پیدا'' ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ان کی عمریں گھٹتی چلی جاتی ہیں۔
60 سے پچاس تک، پچاس سے 40 تک اور 40 سے تیس کے ہوتے چلے جاتے ہیں اور جتنے جتنے بڑے یعنی چھوٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اتنے ہی ڈس ایبل ہوتے چلے جاتے ہیں اور چونکہ اکثر کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں اس لیے پورے ملک کا وہ حال کر دیتے ہیں جو کوئی شریر چوہا برتنوں کی دکان کا کر سکتا ہے
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پر تو خورشید عالمِ شبستان کا
اور ایسے تمام اُلٹے بچوں کا والی وارث صرف امریکا ہوتا ہے پوری دنیا میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال اس نے اپنے ذمے لے رکھی ہے اب اگر ہمارے ہاں سے اس کی سرپرستی کا سایہ اٹھ جاتا تو ۔۔۔۔۔ اچھا ہے کہ بات بن گئی۔
یوں کہیے کہ ہمارے ننھے سے دل پر سے تشویش کا وہ بھاری پتھر ہٹ گیا جو کچھ دنوں سے پڑا دل کے اندر کا سارا مال و متاع کچلے جا رہا تھا ''سیو دی چلڈرن'' کے خلاف اقدام موخر، ملتوی یا ایسا ہی کچھ کر دیا گیا، شکر اللہ کا
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت
تشویش کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اپنے چوہدری نثار علی خان کچھ زیادہ ہی طیش میں آ گئے تھے اور پاکستان کی عزت نفس یا غیرت قومی تک بات پہنچ گئی تھی کیوں کہ موصوف ہی کے ایک بیان میں ہم نے یہ بات پڑھی تھی کہ این جی او پاکستان کی عزت نفس ۔۔۔ یا اسے ہی کچھ خاص بارعب الفاظ تھے، تفصیلات کا کچھ علم نہیں کہ مذکورہ این جی او یا پاکستان کے تمام این جی اوز اینڈ کمپنیاں کیا کر رہی تھیں لیکن یقیناً کچھ ایسا کر رہی ہوں گی جو کسی نہ کسی اینگل سے ''پسندیدہ'' نہیں تھا، گزشتہ کچھ دنوں سے اس موضوع پر ہمارے چوہدری صاحب کے بیانات سے پتہ چل رہا تھا کہ اب ان این جی اوز کی داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔۔۔ اور ہمیں بار بار فلم گلال میں ریکھا بھردواج کا گانا یاد آ رہا تھا کہ
رانڑا جی غصے میں آئے
سو سو بل کھائے، گھبرائے مارو چین
ریکھا بھردواج کا مذکورہ گانا بظاہر ایک آئٹم سانگ ہے لیکن اس آئٹم سانگ میں جو ''آئٹم'' چھوڑے گئے ہیں وہ سننے اور غور کرنے لائق ہیں مثلاً رانڑا جی کے غصے کو تشبیات کے ذریعے واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
جیسے دور دیس کے ٹاور میں گھس جائے ایرو پلین
جیسے عراق میں جا کر جم گئے انکل سیم
جیسے بنا باد کے افغانستان کا بچ گیا بینڈ
رانا جی غصے میں آئے۔۔۔۔
لیکن اب جو خبر آ گئی ہے کہ سیو دی چلڈرن پر عائد پابندی ختم ۔۔۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث امریکی این جی او کے دفاتر سیل کرنے سے متعلق ''نوٹیفکیشن'' پر عمل درآمد روک دیا گیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اگلے حکم نامے تک امریکی این جی او پاکستان میں اپنے ''آپریشنز'' جاری رکھ سکتی ہے، ظاہر ہے کہ ہر بڑی خبر کے نیچے اور بھی بہت ساری چھوٹی چھوٹی نرسریاں اگ آتی ہیں چنانچہ ۔۔۔ وزارت داخلہ کا تنظیم کے دفاتر فوراً کھولنے کا حکم ۔۔۔ آیندہ 48 گھنٹوں میں اجلاس طلب ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور واچ لسٹ پر موجود 126 این جی اوز کے مستقبل کے بارے میں اہم ''فیصلے'' کیے جائیں گے۔
ان تمام بریکنگ نیوز کو پڑھنے کے بعد اپنے گاؤں کے دو کھسلے ہوئے گڈریوں کا جھگڑا یاد آیا دونوں اکٹھے اپنے اپنے ریوڑ چراتے تھے نہ جانے دونوں کا کسی بات پر جھگڑا ہو گیا پہلے انھوں نے بھیڑیں الگ الگ کیں اور پھر علاقہ تقسیم کیا جو یوں تھی کہ سڑک کے مشرقی علاقے میں ایک اپنی بھیڑیں چرائے گا اور دوسرے کا علاقہ سڑک کا مغربی حصہ ہو گا دونوں اپنے اپنے ریوڑ الگ کر کے اپنے اپنے علاقے کی طرف چل دیے، کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد اچانک ایک گڈریا پکارا ٹھہرو بات سنو ۔۔۔۔ دونوں پلٹ کر ایک دوسرے کے پاس گئے۔
پکارنے والا بولا میں تو بھول گیا تالاب تو تمہاری طرف رہ گیا ہے میں اپنے جانوروں کو پانی کہاں سے پلاؤں گا، دوسرے نے کہا نہیں اب تو بٹوارہ ہو چکا ہے دوسرے نے طیش میں آ کر کہا کم بخت تم انسان ہو یا جانور ۔۔۔ کیا ان معصوم بھیڑوں کو پیاسا مارو گے؟ دوسرا پسچ گیا چنانچہ باہمی افہام و تفہیم سے طے ہو گیا ہے کہ اگر وہ اپنا ریوڑ اس کے علاقے میں تالاب پر آئے گا تو دوسرا بھی کچھ کچھ اس کے علاقے میں بھیڑیں چرائے گا یوں دوسرے دن پھر دونوں نے ریوڑوں اور علاقوں کا انضمام ہو گیا غالباً امریکی این جی اوز کے معاملے میں کچھ ایسا ہی پھڈا پڑ گیا ہو گا ۔
اس لیے فی الحال سردست اگلے حکم نامے تک ۔۔۔۔ تم سے ملے ہم سجن ہم سے ملے تم ۔۔۔ مدھوبن میں جو کنیا کسی گوپی سے ملے ۔۔۔ رداھا پھر کیوں نے جلے ۔۔۔۔ ایک پشتو ٹپہ جس کے ساتھ ایک پورا منظر بھی آپ تصور میں لا سکتے ہیں کہ دو محبت کرنے والوں میں کچھ کہا سنی اور روٹھا روٹنی ہو گئی دونوں اس انتظار میں رہے کہ کوئی ان کو آپس میں ملا دے گا لیکن لوگوں کو کیا پڑی تھی آخر ایک ٹپہ بلند کیا
رازہ چہ خپلو کے پہ خلا شو
زما ستا سوک دی چہ بہ مونگ پہ خلاا کوینہ
یعنی آؤ ہم تم آپس میں خود ہی ''من'' جائیں ہمارا تمہارا کون ہے جو ہمیں منائے گا؟، اب یہ چلڈرن سیون یا سیو دی چلڈرن جو کچھ بھی ہے کا معاملہ لے لیجیے جب سے ہم نے اس کے بارے میں سنا تھا رگ رگ میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی دل پر یہ بڑا پتھر پڑ گیا وہ بھی کالا کہ خدا نہ کردہ خدا نہ کردہ اگر یہ معاملہ بڑھ گیا تو ہمارا اور جان جگر بلکہ جان جاناں بلکہ جان جہاں امریکا کے درمیان ''کٹی'' ہو جائے گی بلکہ وہ حالت ہو گئی جو بے چارے منیر نیازی کی ہو گئی تھی
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی سلگائے ہوئے رہنا
بلکہ ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں بات آخری اسٹیج پر نہ پہنچ جائے جہاں منیر نیازی کو مستقل اکتائے ہوئے رہنے کا شدید مرض لاحق ہو گیا، آپ سمجھ نہیں رہے ہیں معاملہ بڑا گھمبیر تھا کتنا زمانہ ہو گیا ہے کہ امریکا ہمارے ہاں کے چلڈرنز کو سیو کر رہا ہے ان بچوں کو نہیں جو بچے ہوتے ہیں اور من کے سچے ہوتے ہیں ان کے تو ماں باپ بھی ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی دن بڑے بھی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ باپ بھی کبھی بچے تھے بلکہ اصل مسئلہ ان بچوں کا تھا جو الٹی گنتی میں آتے ہیں یعنی بوڑھوں سے پھر ''بچے'' بن جاتے ہیں۔
جن سے ہمارے ہاں کا سارا ''سیاسی یتیم خانہ'' بھرا ہوا ہے اور اس یتیم خانے کی فنڈنگ صرف امریکا کرتا ہے ورنہ یہ بے چارے اب تک نہ جانے کہاں پہنچ چکے ہوتے، فرض کیجیے بلکہ خدانخواستہ اگر واقعی یہ ''سیو دی چلڈرن'' کا سلسلہ دراز ہو جاتا تو اتنے سارے بوڑھے ڈس ایبل اور یتیم و یسیر اور بے روزگار بچے بلکہ بغل بچے کہاں جاتے کون انھیں پالتا، یعنی کس کے گھر جاتا یہ ''سیلاب بلا'' امریکا کے بعد ۔۔۔ بہت سے لوگوں کو یہ پتہ نہیں صرف امریکا جانتا ہے کہ بچے صرف ایک قسم کے نہیں ہوتے وہ عام بچے تو سب کو معلوم ہیں جو ''بچے'' ہی پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک نہ ایک دن بڑے ہو ہی جاتے ہیں لیکن دوسری قسم کے بچے اس کے بالکل ہی الٹ ہوتے ہیں ان کی عمریں بڑھتی نہیں بلکہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں زیادہ تر یہ 35 تا 50 یا 60 سال کے ''پیدا'' ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ان کی عمریں گھٹتی چلی جاتی ہیں۔
60 سے پچاس تک، پچاس سے 40 تک اور 40 سے تیس کے ہوتے چلے جاتے ہیں اور جتنے جتنے بڑے یعنی چھوٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اتنے ہی ڈس ایبل ہوتے چلے جاتے ہیں اور چونکہ اکثر کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں اس لیے پورے ملک کا وہ حال کر دیتے ہیں جو کوئی شریر چوہا برتنوں کی دکان کا کر سکتا ہے
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پر تو خورشید عالمِ شبستان کا
اور ایسے تمام اُلٹے بچوں کا والی وارث صرف امریکا ہوتا ہے پوری دنیا میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال اس نے اپنے ذمے لے رکھی ہے اب اگر ہمارے ہاں سے اس کی سرپرستی کا سایہ اٹھ جاتا تو ۔۔۔۔۔ اچھا ہے کہ بات بن گئی۔