بھارت کے تابڑ توڑ حملے
بھارت نے دہشت گردی کی صورت میں ہم پر بہت بڑا حملہ کیا مگر بھارت کو منہ کی کھانی پڑگئی۔
Abdulqhasan@hotmail.com
KARACHI:
پاکستان پر بھارت کے حملے جاری ہیں جنھیں تابڑ توڑ حملے کہا جانا چاہیے اور بھارتی حملے اس قدر بے باک ہو چکے ہیں کہ بھارت کے نئے وزیراعظم نریندرمودی ان حملوں کی تفصیل ایک اخباری رپورٹر کی طرح خود بتاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے اسے برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا انتقام کہا تھا ظاہر ہے کہ محکوم مسلمان نہیں ہندو تھے۔
اور یہ انتقام ہندوئوں کی تاریخ میں پہلی آزاد حکومت کا تھا۔ ہندوستان میں آباد ہندو اپنی پوری تاریخ میں متحد نہیں ہوئے۔ وہ راجواڑوں میں بٹے ہوئے رہے۔ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے پہلی بار انھیں متحد کیا اور اپنی عملداری میں لے لیا۔ اندرا نے جن ہزار برسوں کی غلامی کا ذکر کیا ہے یہ برس ہندوستان کی ہندو آبادی کی خوشحالی اور امن کے سال تھے۔ مسلمان بادشاہوں نے تو شادیاں بھی ہندو راجواڑوں میں کیں اور مسلمانوں کے کئی حکمران اور شاہزادے ہندو راجائوں کی خواتین کی اولاد تھے۔
مسلمان حکمرانوں کے خاندانوں پر ہندو رانیوں کی ثقافت چھائی رہی اور ہندوئوں کے اکبر اعظم تو ماتھے پر تلک لگا کر چڑھتے سورج کے سامنے ماتھا بھی ٹیکتے تھے۔ اندرا جسے غلامی کہتی ہیں وہ ایسی غلامی نہیں تھی جو برطانوی راج میں تھی اور مسلمانوں کے دور حکومت کے ختم ہونے کے بعد ہندو پانی اور مسلم پانی کی تفریق خود ہندوئوں کی پیداوار تھی اور کسی مسلمان کے جسم کو چھو لینا ہندو مت میں ایک گناہ تھا جس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ آج ہمارے ہندو پڑوسی پاکستان سے جس نفرت کا اظہار کرتے ہیں یہ ہندوئوں تک محدود ہے ورنہ ہمارے کامیاب فلمی اداکار تو نام تک ہندوانہ رکھ لیتے ہیں۔ مثلاً یوسف خان دلیپ کمار بن جاتا ہے۔
ہندو بجا طور پر پاکستان کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں کیونکہ یہ ملک مبینہ طور پر ہندوئوں کی ملکیت زمین پر زبردستی بنایا گیا ہے۔ یہ سرزمین صرف ہندوئوں کی ہے اور اب آزادی کے 66 برسوں کے بعد ہندو اس پوزیشن میں آئے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش کر سکیں۔ چنانچہ ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھارت کی مالا جپ رہے ہیں۔
ہمارے شاعروں اور دانشوروں کی ایک معقول تعداد ہندو کو پسند کرنے لگ گئی ہے اور غضب خدا کا کہ ہمارے حکمران تک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قوم نے انھیں بھارت کے ساتھ دوستی اور کاروبار کے لیے ووٹ دیے ہیں اور اتنے زیادہ کہ خود پاکستانی سیاستدان بھی ووٹوں کی اس کثرت کو دیکھ کر پریشان ہو گئے ہیں اور اسی پریشانی اور خوشی کے عالم میں ان کی زبان سے وہ کچھ نکل گیا ہے جسے وہ خود بھی اب نامناسب سمجھتے ہوں گے۔ اگر نہیں سمجھتے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔
بھارت کے لوگ اور ان کے سیاستدان ہماری طرح جذباتی اور جلد باز نہیں ہیں۔ وہ صبر اور تحمل کے ساتھ اپنی پالیسیاں بناتے ہیں اور ان کو کامیاب بنانے کے لیے ایک طویل منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش بنانے میں جس کا بھارتی کریڈٹ لیتے ہیں بھارت نے طویل مدت تک محنت کی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں میں اپنے حامی پیدا کیے ہیں اور ان کی دامے درمے مدد کی ہے جیسے وہ اب ایک اور سیاسی گروہ کی کر رہے ہیں۔
اگر مال پانی دے کر کسی جنگ کے بغیر کوئی ملک ٹوٹ سکے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے اور اب تو بھارت کی ایک مجبوری بھی ہے کہ پاکستان کے پاس بھارت سے بہتر ایٹم بم موجود ہے جس نے جنگ کے امکانات کو بہت کمزور کر دیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ ختم کر دیا ہے کیونکہ پاکستان کے مسلمان اب دوسرا بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے۔ پاکستان کے ماہرین اب یہ بات کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ہم بھارت کو برباد کر دیں گے چنانچہ بھارت کے ہوشمند لیڈران نے اب دہشت گردی اور تخریب کاری کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی لوگوں میں اپنی لابی قائم کرنی شروع کر دی ہے۔
خود ہمارے اخبار ہمیں ہر روز اس بھارتی ریشہ دوانی کی خبر دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ برسر عمل تھے جو بھارت کو اس کی اوقات کے اندر رکھتے تھے اور انھوں نے بھی بھارت سے بڑھ کر بھارت کی تباہی کا بندوبست کر رکھا تھا اور بھارت اس سے باخبر تھا۔ بھارت کی پاکستان کے بارے میں کامیابیاں پاکستان کی کمزوری کے بعد کی ہیں۔
بہر حال بھارت نے اب پاکستان کے مختلف شعبوں میں مداخلت شروع کر رکھی ہے اور خصوصاً سیاسی شعبے میں بھارت پوری کوشش کر رہا ہے۔ ایک تو اس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے پاکستان میں ایک دشمن حکومت نہیں ملی اور حکومت بھی ایسی جو اس سے دوستی کا دم بھرتی ہے اور بے تاب رہتی ہے۔ ہم پاکستانی جب اپنے اخبارات کی خبریں ہی ذرا غور سے پڑھیں تو سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔
پاکستان کے پاس فی الوقت اطمینان کا ایک پہلو ایسا ہے کہ پاکستانی اپنے آپ کو زندہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہے پاکستان کی فوج جس نے اس ملک کی سلامتی کی قسم اٹھائی ہوئی ہے اور جو ہر وقت جان لڑانے پر آمادہ ہے۔
بھارت نے دہشت گردی کی صورت میں ہم پر بہت بڑا حملہ کیا ہے لیکن ہماری فوج نے اس کے جواب میں ایک جنگ اور جہاد شروع کر دیا ہے جو کامیاب رہا ہے اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑ گئی ہے اگر بھارت نے کوئی اور جسارت کی تو اسے اندازہ ہے کہ پاکستان اس کا کیا جواب دے گا اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
یہ طے ہے کہ بھارت کا سپاہی اور پاکستان کے مجاہد کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے اور کسی بھی مڈھ بھیڑ میں فتح پاکستان کی ہو گی لیکن لازم ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ہاں ایک انسانی اور معقول حکومت قائم کر لیں۔ اس وقت کرپشن کا جو حال ہے اگر یہ یونہی چلتا رہتا ہے تو پھر بھارت کو زیادہ زحمت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کرپشن اور بدعنوانی کے اس عفریت کے بارے میں جلدی عرض کروں گا فی الحال بھارت کو بتا دینا ہے کہ وہ حوصلہ کرے اور مزید کوئی حماقت نہ کرے۔ ابھی ہمیں بنگلہ دیش کا انتقام لینا ہے۔
پاکستان پر بھارت کے حملے جاری ہیں جنھیں تابڑ توڑ حملے کہا جانا چاہیے اور بھارتی حملے اس قدر بے باک ہو چکے ہیں کہ بھارت کے نئے وزیراعظم نریندرمودی ان حملوں کی تفصیل ایک اخباری رپورٹر کی طرح خود بتاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے اسے برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا انتقام کہا تھا ظاہر ہے کہ محکوم مسلمان نہیں ہندو تھے۔
اور یہ انتقام ہندوئوں کی تاریخ میں پہلی آزاد حکومت کا تھا۔ ہندوستان میں آباد ہندو اپنی پوری تاریخ میں متحد نہیں ہوئے۔ وہ راجواڑوں میں بٹے ہوئے رہے۔ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے پہلی بار انھیں متحد کیا اور اپنی عملداری میں لے لیا۔ اندرا نے جن ہزار برسوں کی غلامی کا ذکر کیا ہے یہ برس ہندوستان کی ہندو آبادی کی خوشحالی اور امن کے سال تھے۔ مسلمان بادشاہوں نے تو شادیاں بھی ہندو راجواڑوں میں کیں اور مسلمانوں کے کئی حکمران اور شاہزادے ہندو راجائوں کی خواتین کی اولاد تھے۔
مسلمان حکمرانوں کے خاندانوں پر ہندو رانیوں کی ثقافت چھائی رہی اور ہندوئوں کے اکبر اعظم تو ماتھے پر تلک لگا کر چڑھتے سورج کے سامنے ماتھا بھی ٹیکتے تھے۔ اندرا جسے غلامی کہتی ہیں وہ ایسی غلامی نہیں تھی جو برطانوی راج میں تھی اور مسلمانوں کے دور حکومت کے ختم ہونے کے بعد ہندو پانی اور مسلم پانی کی تفریق خود ہندوئوں کی پیداوار تھی اور کسی مسلمان کے جسم کو چھو لینا ہندو مت میں ایک گناہ تھا جس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ آج ہمارے ہندو پڑوسی پاکستان سے جس نفرت کا اظہار کرتے ہیں یہ ہندوئوں تک محدود ہے ورنہ ہمارے کامیاب فلمی اداکار تو نام تک ہندوانہ رکھ لیتے ہیں۔ مثلاً یوسف خان دلیپ کمار بن جاتا ہے۔
ہندو بجا طور پر پاکستان کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں کیونکہ یہ ملک مبینہ طور پر ہندوئوں کی ملکیت زمین پر زبردستی بنایا گیا ہے۔ یہ سرزمین صرف ہندوئوں کی ہے اور اب آزادی کے 66 برسوں کے بعد ہندو اس پوزیشن میں آئے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش کر سکیں۔ چنانچہ ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھارت کی مالا جپ رہے ہیں۔
ہمارے شاعروں اور دانشوروں کی ایک معقول تعداد ہندو کو پسند کرنے لگ گئی ہے اور غضب خدا کا کہ ہمارے حکمران تک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قوم نے انھیں بھارت کے ساتھ دوستی اور کاروبار کے لیے ووٹ دیے ہیں اور اتنے زیادہ کہ خود پاکستانی سیاستدان بھی ووٹوں کی اس کثرت کو دیکھ کر پریشان ہو گئے ہیں اور اسی پریشانی اور خوشی کے عالم میں ان کی زبان سے وہ کچھ نکل گیا ہے جسے وہ خود بھی اب نامناسب سمجھتے ہوں گے۔ اگر نہیں سمجھتے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔
بھارت کے لوگ اور ان کے سیاستدان ہماری طرح جذباتی اور جلد باز نہیں ہیں۔ وہ صبر اور تحمل کے ساتھ اپنی پالیسیاں بناتے ہیں اور ان کو کامیاب بنانے کے لیے ایک طویل منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش بنانے میں جس کا بھارتی کریڈٹ لیتے ہیں بھارت نے طویل مدت تک محنت کی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں میں اپنے حامی پیدا کیے ہیں اور ان کی دامے درمے مدد کی ہے جیسے وہ اب ایک اور سیاسی گروہ کی کر رہے ہیں۔
اگر مال پانی دے کر کسی جنگ کے بغیر کوئی ملک ٹوٹ سکے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے اور اب تو بھارت کی ایک مجبوری بھی ہے کہ پاکستان کے پاس بھارت سے بہتر ایٹم بم موجود ہے جس نے جنگ کے امکانات کو بہت کمزور کر دیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ ختم کر دیا ہے کیونکہ پاکستان کے مسلمان اب دوسرا بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے۔ پاکستان کے ماہرین اب یہ بات کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ہم بھارت کو برباد کر دیں گے چنانچہ بھارت کے ہوشمند لیڈران نے اب دہشت گردی اور تخریب کاری کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی لوگوں میں اپنی لابی قائم کرنی شروع کر دی ہے۔
خود ہمارے اخبار ہمیں ہر روز اس بھارتی ریشہ دوانی کی خبر دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ برسر عمل تھے جو بھارت کو اس کی اوقات کے اندر رکھتے تھے اور انھوں نے بھی بھارت سے بڑھ کر بھارت کی تباہی کا بندوبست کر رکھا تھا اور بھارت اس سے باخبر تھا۔ بھارت کی پاکستان کے بارے میں کامیابیاں پاکستان کی کمزوری کے بعد کی ہیں۔
بہر حال بھارت نے اب پاکستان کے مختلف شعبوں میں مداخلت شروع کر رکھی ہے اور خصوصاً سیاسی شعبے میں بھارت پوری کوشش کر رہا ہے۔ ایک تو اس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے پاکستان میں ایک دشمن حکومت نہیں ملی اور حکومت بھی ایسی جو اس سے دوستی کا دم بھرتی ہے اور بے تاب رہتی ہے۔ ہم پاکستانی جب اپنے اخبارات کی خبریں ہی ذرا غور سے پڑھیں تو سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔
پاکستان کے پاس فی الوقت اطمینان کا ایک پہلو ایسا ہے کہ پاکستانی اپنے آپ کو زندہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہے پاکستان کی فوج جس نے اس ملک کی سلامتی کی قسم اٹھائی ہوئی ہے اور جو ہر وقت جان لڑانے پر آمادہ ہے۔
بھارت نے دہشت گردی کی صورت میں ہم پر بہت بڑا حملہ کیا ہے لیکن ہماری فوج نے اس کے جواب میں ایک جنگ اور جہاد شروع کر دیا ہے جو کامیاب رہا ہے اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑ گئی ہے اگر بھارت نے کوئی اور جسارت کی تو اسے اندازہ ہے کہ پاکستان اس کا کیا جواب دے گا اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
یہ طے ہے کہ بھارت کا سپاہی اور پاکستان کے مجاہد کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے اور کسی بھی مڈھ بھیڑ میں فتح پاکستان کی ہو گی لیکن لازم ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ہاں ایک انسانی اور معقول حکومت قائم کر لیں۔ اس وقت کرپشن کا جو حال ہے اگر یہ یونہی چلتا رہتا ہے تو پھر بھارت کو زیادہ زحمت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کرپشن اور بدعنوانی کے اس عفریت کے بارے میں جلدی عرض کروں گا فی الحال بھارت کو بتا دینا ہے کہ وہ حوصلہ کرے اور مزید کوئی حماقت نہ کرے۔ ابھی ہمیں بنگلہ دیش کا انتقام لینا ہے۔