یہ حادثے اور سانحے
ہمارے ہاں ریل کا کوئی حادثہ تو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو مدتوں اپنی یاد دلاتا رہتا ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
یوں لگتا ہے جیسے ہمارے بزرگوں نے پاکستان حادثات کے لیے بنایا تھا کیونکہ کوئی دن نہیں جاتا کہ کسی حادثے میں چند پاکستانی مرحوم نہ ہو جاتے ہوں یا ان کی لاشوں کی تلاش کی خبریں نہ آتی ہوں۔ ان حادثات میں سڑک کے حادثے سب سے آگے ہیں۔
اندازہ ہے کہ ہر سال پانچ چھ ہزار افراد ان حادثوں میں جاں بحق ہو جاتے ہیں اور دوسرے ایسے حادثات ہیں جس پر تعجب ہوتا ہے کہ انھیں تو نہیں ہونا چاہیے تھا مثلاً ریلوے کے حادثات۔ ریلوے ایک پورا الگ محکمہ ہے جس کی وزارت بھی الگ ہوتی ہے اور جس کے وزیر صاحب ریلوے کا معائنہ کرنے کے لیے ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ اور کسی اسٹیشن پر اتر کر وہاں سے کاروں کے ایک جلوس میں متاثرہ جگہ کا معائنہ کرتے ہیں۔
کل جو حادثہ وزیر آباد کے قریب ہوا اور جس میں فوج کے اٹھارہ سے زائد افسر اور دوسرے وفات پا گئے فوری طور پر یہ حادثہ ہمارے وزیر کی زیارت سے محروم رہا۔ یہ فوج کا حادثہ تھا اور جو ٹرین پانی میں گر گئی وہ فوجی سامان اور افسروں سے لدی ہوئی تھی۔ فوری طور پر معلوم یہ ہوا کہ ریلوے کے محکمے نے ایک مدت سے پلوں کا معائنہ نہیں کیا اور یہ پل جس کے ٹوٹنے سے حادثہ ہوا ریلوے کے افسروں کی توجہ سے محروم تھا اور اللہ کے آسرے پر اپنی مدت پوری کرتا رہا اور یہ مدت اب ایک حادثے کی صورت میں پوری ہوئی اور قوم کا بڑا نقصان کر گئی۔
سامان تو خریدا بھی جا سکتا ہے لیکن تربیت یافتہ افسر کہاں سے لائیں۔ ایسے حادثوں کے موقع پر میں نے متعلقہ افسروں سے جو بھی سنا وہ یہی تھا کہ فلاں فلاں افسر ہمیں چھوڑ گیا۔ کبھی کسی نے ریل جہاز یا کسی دوسری سواری کا ذکر نہیں کیا۔ قیمت سامان کی نہیں انسان کی ہوتی ہے اور انسان دوبارہ نہیں ملتا جو آیا وہ اپنا کام اور فرض پورا کر کے چلا گیا۔
ہمارے ہاں کوئی سوا سو ریل گاڑیاں چلتی ہیں اور ایک بڑا محکمہ ان گاڑیوں کو سلامتی کے ساتھ چلانے کا ذمے دارہے اور یہ محکمہ جن افسروں کی نگرانی میں چلتا ہے آپ ان کی مراعات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ لاہور میں ایک الگ کالونی میں رہتے ہیں۔ ایک بڑے باغ میں گھری ہوئی یہ کالونی چند افسروں کی رہائش اور تفریح کے لیے بنائی گئی ہے اور اس قدر عیاشانہ ہے کہ ہمارے ایک دوست جو ریلوے کے تعلقات عامہ کے سربراہ تھے یحییٰ صاحب محترمہ مہناز رفیع کے شوہر تھے انھوں نے اس کالونی میں یہ کہہ کر رہنے سے انکار کر دیا کہ یہ انسانی تعلقات اور شائستگی کے خلاف ہے اور اس سے انسانی تعلقات میں تفریق کی بو آتی ہے۔
اس کالونی کے چھوٹے چھوٹے محلات میں مقیم افسروں کو ایسے حادثوں کا براہ راست ذمے دارقرار دینا چاہیے کیونکہ ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا سوائے ریلوے کے معاملات کو درست رکھنے کے۔ ریل کی پٹری ہو یا کوئی پل وغیرہ سب کی سلامتی اور دیکھ بھال کے یہی لوگ ذمے دارہوتے ہیں اور اب اطلاعات یہ ملی ہیں کہ ایک مدت سے کسی نے ریل کی پٹری اور پل کا معائنہ ہی نہیں کیا۔
ہمارے ہاں ریل کا کوئی حادثہ تو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو مدتوں اپنی یاد دلاتا رہتا ہے لیکن عام سڑکوں پر ہر روز ہی حادثے ہو رہے ہیں۔ ان کی وجہ ایک تو سڑکوں کی بدحالی ہے دوسرے ڈرائیوروں کی تیز رفتاری۔ سڑکوں کی بدحالی کسی بڑے شہر سے باہر نکل کر دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو سڑکوں اور نئی نئی سڑکوں کا بہت شوق ہے لیکن اربوں روپوں کے ان شوقیہ منصوبوں کا تعلق زمین سے اوپر یعنی ہواؤں سے ہوتا ہے۔
جب کوئی نئی ٹرانسپورٹ چلتی ہے تو اس کے لیے پل تعمیر کیے جاتے ہیں اور ان پلوں کے اوپر سے سڑک گزرتی ہے لیکن جو سڑکیں زمین پر بنائی گئی ہیں ان پر توجہ بہت کم دی جاتی ہے جب کہ حادثات ان ھی زمینی سڑکوں پر ہوتے ہیں ہوائی سڑکوں پر خدا کرے نہ ہوں ورنہ مکمل تباہی ہو گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے زمین پر برسوں سے موجود سڑکوں کو بحال کیا اور رکھا جائے کیونکہ ٹریفک زیادہ تر ان ھی سڑکوں پر چلتی ہے۔ ان کی دیکھ بھال پر خرچ بھی کم آتا ہے۔ اسلام آباد میں نئی ایئر پورٹ تک ایک سڑک پر فی کلو میٹر کوئی ایک ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے ان ایک ارب روپوں سے تو کسی ضلع کی تمام سڑکوں کی مرمت ہو سکتی ہیں۔
ہر صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک محکمہ موجود ہے جس کا کام ٹرانسپورٹ اور ٹرانسپورٹروں کو کنٹرول کرنا ہے اور انھیں قانون قاعدے کے تحت چلانا ہے لیکن پرانی گاڑیاں بھی چل ہی ہیں اور نیند کے مارے ہوئے ڈرائیور بھی کام کر رہے ہیں اور انھیں چلا رہے ہیں یہ سب خرابیاں مل کر حادثوں کا سبب بن جاتی ہیں اور ہر روز ہی کئی جانیں چلی جاتی ہیں۔ ایسے کئی اسباب ہیں جس کی وجہ سے حادثے ایک معمول بن گئے ہیں اور ہر حادثہ ایک بڑا سانحہ بن جاتا ہے۔ حکومت اگر ٹرانسپورٹ پر توجہ دے تو ممکن ہے کہ حادثات کم ہو جائیں اور کوئی ریلوے کی کئی بوگیاں پانی میں نہ گریں۔
اور بے شمار خطوط مل رہے ہیں ان علاقوں سے جہاں سڑکین بن رہی ہیں اور کاشتکاروں کی زمین جا رہی ہے وہ سب فریادی ہیں کہ ان کی زمینوں اور روٹی روزی کو بچایا جائے۔
اندازہ ہے کہ ہر سال پانچ چھ ہزار افراد ان حادثوں میں جاں بحق ہو جاتے ہیں اور دوسرے ایسے حادثات ہیں جس پر تعجب ہوتا ہے کہ انھیں تو نہیں ہونا چاہیے تھا مثلاً ریلوے کے حادثات۔ ریلوے ایک پورا الگ محکمہ ہے جس کی وزارت بھی الگ ہوتی ہے اور جس کے وزیر صاحب ریلوے کا معائنہ کرنے کے لیے ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ اور کسی اسٹیشن پر اتر کر وہاں سے کاروں کے ایک جلوس میں متاثرہ جگہ کا معائنہ کرتے ہیں۔
کل جو حادثہ وزیر آباد کے قریب ہوا اور جس میں فوج کے اٹھارہ سے زائد افسر اور دوسرے وفات پا گئے فوری طور پر یہ حادثہ ہمارے وزیر کی زیارت سے محروم رہا۔ یہ فوج کا حادثہ تھا اور جو ٹرین پانی میں گر گئی وہ فوجی سامان اور افسروں سے لدی ہوئی تھی۔ فوری طور پر معلوم یہ ہوا کہ ریلوے کے محکمے نے ایک مدت سے پلوں کا معائنہ نہیں کیا اور یہ پل جس کے ٹوٹنے سے حادثہ ہوا ریلوے کے افسروں کی توجہ سے محروم تھا اور اللہ کے آسرے پر اپنی مدت پوری کرتا رہا اور یہ مدت اب ایک حادثے کی صورت میں پوری ہوئی اور قوم کا بڑا نقصان کر گئی۔
سامان تو خریدا بھی جا سکتا ہے لیکن تربیت یافتہ افسر کہاں سے لائیں۔ ایسے حادثوں کے موقع پر میں نے متعلقہ افسروں سے جو بھی سنا وہ یہی تھا کہ فلاں فلاں افسر ہمیں چھوڑ گیا۔ کبھی کسی نے ریل جہاز یا کسی دوسری سواری کا ذکر نہیں کیا۔ قیمت سامان کی نہیں انسان کی ہوتی ہے اور انسان دوبارہ نہیں ملتا جو آیا وہ اپنا کام اور فرض پورا کر کے چلا گیا۔
ہمارے ہاں کوئی سوا سو ریل گاڑیاں چلتی ہیں اور ایک بڑا محکمہ ان گاڑیوں کو سلامتی کے ساتھ چلانے کا ذمے دارہے اور یہ محکمہ جن افسروں کی نگرانی میں چلتا ہے آپ ان کی مراعات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ لاہور میں ایک الگ کالونی میں رہتے ہیں۔ ایک بڑے باغ میں گھری ہوئی یہ کالونی چند افسروں کی رہائش اور تفریح کے لیے بنائی گئی ہے اور اس قدر عیاشانہ ہے کہ ہمارے ایک دوست جو ریلوے کے تعلقات عامہ کے سربراہ تھے یحییٰ صاحب محترمہ مہناز رفیع کے شوہر تھے انھوں نے اس کالونی میں یہ کہہ کر رہنے سے انکار کر دیا کہ یہ انسانی تعلقات اور شائستگی کے خلاف ہے اور اس سے انسانی تعلقات میں تفریق کی بو آتی ہے۔
اس کالونی کے چھوٹے چھوٹے محلات میں مقیم افسروں کو ایسے حادثوں کا براہ راست ذمے دارقرار دینا چاہیے کیونکہ ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا سوائے ریلوے کے معاملات کو درست رکھنے کے۔ ریل کی پٹری ہو یا کوئی پل وغیرہ سب کی سلامتی اور دیکھ بھال کے یہی لوگ ذمے دارہوتے ہیں اور اب اطلاعات یہ ملی ہیں کہ ایک مدت سے کسی نے ریل کی پٹری اور پل کا معائنہ ہی نہیں کیا۔
ہمارے ہاں ریل کا کوئی حادثہ تو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو مدتوں اپنی یاد دلاتا رہتا ہے لیکن عام سڑکوں پر ہر روز ہی حادثے ہو رہے ہیں۔ ان کی وجہ ایک تو سڑکوں کی بدحالی ہے دوسرے ڈرائیوروں کی تیز رفتاری۔ سڑکوں کی بدحالی کسی بڑے شہر سے باہر نکل کر دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو سڑکوں اور نئی نئی سڑکوں کا بہت شوق ہے لیکن اربوں روپوں کے ان شوقیہ منصوبوں کا تعلق زمین سے اوپر یعنی ہواؤں سے ہوتا ہے۔
جب کوئی نئی ٹرانسپورٹ چلتی ہے تو اس کے لیے پل تعمیر کیے جاتے ہیں اور ان پلوں کے اوپر سے سڑک گزرتی ہے لیکن جو سڑکیں زمین پر بنائی گئی ہیں ان پر توجہ بہت کم دی جاتی ہے جب کہ حادثات ان ھی زمینی سڑکوں پر ہوتے ہیں ہوائی سڑکوں پر خدا کرے نہ ہوں ورنہ مکمل تباہی ہو گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے زمین پر برسوں سے موجود سڑکوں کو بحال کیا اور رکھا جائے کیونکہ ٹریفک زیادہ تر ان ھی سڑکوں پر چلتی ہے۔ ان کی دیکھ بھال پر خرچ بھی کم آتا ہے۔ اسلام آباد میں نئی ایئر پورٹ تک ایک سڑک پر فی کلو میٹر کوئی ایک ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے ان ایک ارب روپوں سے تو کسی ضلع کی تمام سڑکوں کی مرمت ہو سکتی ہیں۔
ہر صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک محکمہ موجود ہے جس کا کام ٹرانسپورٹ اور ٹرانسپورٹروں کو کنٹرول کرنا ہے اور انھیں قانون قاعدے کے تحت چلانا ہے لیکن پرانی گاڑیاں بھی چل ہی ہیں اور نیند کے مارے ہوئے ڈرائیور بھی کام کر رہے ہیں اور انھیں چلا رہے ہیں یہ سب خرابیاں مل کر حادثوں کا سبب بن جاتی ہیں اور ہر روز ہی کئی جانیں چلی جاتی ہیں۔ ایسے کئی اسباب ہیں جس کی وجہ سے حادثے ایک معمول بن گئے ہیں اور ہر حادثہ ایک بڑا سانحہ بن جاتا ہے۔ حکومت اگر ٹرانسپورٹ پر توجہ دے تو ممکن ہے کہ حادثات کم ہو جائیں اور کوئی ریلوے کی کئی بوگیاں پانی میں نہ گریں۔
اور بے شمار خطوط مل رہے ہیں ان علاقوں سے جہاں سڑکین بن رہی ہیں اور کاشتکاروں کی زمین جا رہی ہے وہ سب فریادی ہیں کہ ان کی زمینوں اور روٹی روزی کو بچایا جائے۔