سیاست کی وفات اور پاکستان کا قومی شرعی کورٹ
آج میں ایک استاد محترم کے انتقال پر دکھی ہوں۔ یہ تھے مرحوم و مغفور جناب سردار عبدالقیوم خان۔
Abdulqhasan@hotmail.com
آج میں ایک استاد محترم کے انتقال پر دکھی ہوں۔ یہ تھے مرحوم و مغفور جناب سردار عبدالقیوم خان۔ کشمیریوں کے لیڈر لیکن پورے پاکستان میں ایک پسندیدہ اور مقبول سیاسی رہنما۔ انھوں نے کشمیر سمیت قومی سیاست میں ساری زندگی حصہ لیا اور کوئی مجھ سے پوچھے تو سیاست کے اسرار و رموز اور سیاسی حکمت عملی ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
میں لاہور میں صحافت کا کارکن تھا سردار صاحب کبھی کبھار لاہور تشریف لاتے ان کی آمد کی اطلاع پا کر میں ان سے ملاقات طے کر لیتا اور وہ تمام سیاسی سوالات جو میرے ذہن میں ہوتے اور جن کا حل میرے پاس نہیں ہوتا تھا میں ان کی خدمت میں پیش کر دیتا اعتماد اور بھروسے کا ایک مضبوط رشتہ تھا چنانچہ سردار صاحب بے تکلف ہو کر کسی رکھ رکھاؤ کے بغیر ایک ایک سیاسی الجھن کا حل پیش کر دیتے اور کسی لیڈر کو معاف نہ کرتے اب یہ میری نیاز مندی تھی کہ میں ان کے خیالات سے تو بوقت ضرورت قارئین کو تو آگاہ کر دیتا مگر کسی لیڈر کا نام لیے بغیر۔ میری غرض یہ تھی کہ سردار صاحب اپنی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ کا جو خزانہ رکھتے تھے وہ لٹا دیتے اور میں ایک کنجوس خزانچی کی طرح کچھ سنبھال کر رکھ دیتا۔ کون لیڈر تھا جس سے میری نیاز مندی نہیں تھی۔
چھوٹے بڑے سب میرے مہربان تھے اور بعض اوقات مجھ پر اتنا زیادہ اعتماد کر لیا جاتا جو ایک اخباری رپورٹر پر نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن یہ سیاسی گفتگو کبھی اخبار میں شایع نہ ہوتی اور لیڈر ایک رپورٹر سے محفوظ رہتا۔ کچھ ایسا ہی رشتہ تھا کہ جب میاں ممتاز دولتانہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے تو انھوں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ دو میں ایک صحافی بھی میرے ساتھ لندن بھجوا دیں م ش یا عبدالقادر حسن۔ مرحوم سردار صاحب بھی جب سیاسی حالات اور لیڈروں کے بارے میں گفتگو کرتے تو بے تکلف ہو جاتے اور مجھے معلوم ہوتا کہ اس بڑے لیڈر کا مجھ پر اعتماد ہے جس کا احترام میرا فرض ہے۔
سردار صاحب میں جو سیاسی بصیرت تھی وہ میں نے شاید ہی کسی دوسرے لیڈر میں دیکھی ہو لیکن وہ کشمیر کی سیاست میں مصروف رہے ورنہ وہ پورے پاکستان کے ایک بڑے لیڈر ہوتے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی سیاسی سوال پیدا ہو کسی سیاسی مسئلے پر کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس اجاڑ سیاسی دنیا میں کوئی رہنما نہیں ملتا جو ملتے ہیں وہ تو اپنے سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کی حکومت پر غیر سیاسی لوگ قابض رہتے ہیں جنھیں اپنے گھر سے باہر کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور دشمنوں کے ہاتھوں میں بھی کھیلتے رہتے ہیں۔
میں بات تو بھارت کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا لیکن سردار صاحب کی وفات نے اس بڑی سیاسی شخصیت کی یاد دلا دی۔ ہم نے عالمی سطح پر بھارت کے وزیر اعظم سے ایک اور ملاقات کی ہے جو غالباً تیسری ملاقات تھی اور یہ ملاقات بھی ہماری سبکی بلکہ بے عزتی پر ختم ہوئی کہ بھارتی وزیر اعظم نے ہمارے وزیر اعظم کو بلانے کے باوجود اپنے 'تخت' پر بیٹھے بیٹھے ملاقات کی اور دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کے کپڑوں کی تعریف کی اور گفتگو میں پانچ نکات کی بات ہوئی اور ماہی گیروں کی رہائی کی۔ میرے جیسے متعصب اور دیوانگی کی حد تک پاکستانی کے خیال میں یہ ملاقات ناجائز تھی اور وجہ میں بتاتا ہوں۔
اسی بھارتی وزیر اعظم نے لہک لہک کر چند دن ہوئے کہ بنگلہ دیش کے دورے میں پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں بھارت کے کردار کا تفصیل سے ذکر کیا اور بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ بھارت نے پاکستان کے اتحاد کو ختم کر دیا اور اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ بنگلہ دیش اسی ٹوٹے ہوئے پاکستان کی نشانی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پیشرو آنجہانی اندرا گاندھی کے اس اعلان کو بڑھاتے ہوئے کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے بہت کچھ کہا جو غیرت مند پاکستانیوں کے دلوں پر نقش ہے سوائے حکمرانوں کے۔
محب وطن اور پاکستان کے عاشق پاکستانیوں کی ایک شریعت ہے اور یہ شریعت پاکستان کے معاملات پر نافذ ہوتی ہے۔ اس شریعت کے کئی نکات ہیں اور پہلا نکتہ اس کی عزت اور وقار کی حفاظت ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام پاکستان کی توہین کی ہے اور پاکستان دشمنی میں بھارتی کردار کی اور اپنے ذاتی کردار کی گواہی دی ہے اس طرح وہ پاکستانی شریعت کے مطابق پاکستان کا نمبر ایک دشمن ہے ایسے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنے کا مطلب پاکستان دشمنی ہے یا پھر یقینی منافقت ہے دونوں صورتوں میں ایسا پاکستانی جو دشمن کے ساتھ دوستی کا نام لے بلکہ اس کی دوستی کا دم بھرے پاکستان شریعت میں وہ غیر پاکستانی ہے اور اس کی پاکستانی شہریت پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
بھارت کا موجودہ وزیر اعظم پاک و ہند تاریخ میں سب سے بڑا پاکستان دشمن اور مخالف ہے۔ پاکستان کے شرعی کورٹ کے کوئی بھی مفتی اور جج ایسے شخص کو مسترد کرتا ہے اور اس کے ساتھ دوستی تو کجا ہاتھ ملانے کو بھی ناجائز سمجھتا ہے۔
دوستی اور دشمنی کے کسی بھی معیار کو سامنے رکھیں پاکستانی شرعی کورٹ کا یہ فیصلہ خالص پاکستانی فیصلہ ہے بلکہ ایک قانون ہے جس پر عمل کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس کے تاریخی دشمن نے تکلفات اور عالمی رکھ رکھاؤ ترک کر کے ایک برملا عمل کیا ہے جس پر اس نے فخر کیا ہے ایسے شخص کے خلاف پاکستان کی عدالت کا فیصلہ خاموش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی حکم امتناہی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاکستان کے محب وطن شہریوں کا فیصلہ ہے اور ایک حتمی فیصلہ۔ تفصیلات بعد میں۔
میں لاہور میں صحافت کا کارکن تھا سردار صاحب کبھی کبھار لاہور تشریف لاتے ان کی آمد کی اطلاع پا کر میں ان سے ملاقات طے کر لیتا اور وہ تمام سیاسی سوالات جو میرے ذہن میں ہوتے اور جن کا حل میرے پاس نہیں ہوتا تھا میں ان کی خدمت میں پیش کر دیتا اعتماد اور بھروسے کا ایک مضبوط رشتہ تھا چنانچہ سردار صاحب بے تکلف ہو کر کسی رکھ رکھاؤ کے بغیر ایک ایک سیاسی الجھن کا حل پیش کر دیتے اور کسی لیڈر کو معاف نہ کرتے اب یہ میری نیاز مندی تھی کہ میں ان کے خیالات سے تو بوقت ضرورت قارئین کو تو آگاہ کر دیتا مگر کسی لیڈر کا نام لیے بغیر۔ میری غرض یہ تھی کہ سردار صاحب اپنی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ کا جو خزانہ رکھتے تھے وہ لٹا دیتے اور میں ایک کنجوس خزانچی کی طرح کچھ سنبھال کر رکھ دیتا۔ کون لیڈر تھا جس سے میری نیاز مندی نہیں تھی۔
چھوٹے بڑے سب میرے مہربان تھے اور بعض اوقات مجھ پر اتنا زیادہ اعتماد کر لیا جاتا جو ایک اخباری رپورٹر پر نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن یہ سیاسی گفتگو کبھی اخبار میں شایع نہ ہوتی اور لیڈر ایک رپورٹر سے محفوظ رہتا۔ کچھ ایسا ہی رشتہ تھا کہ جب میاں ممتاز دولتانہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے تو انھوں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ دو میں ایک صحافی بھی میرے ساتھ لندن بھجوا دیں م ش یا عبدالقادر حسن۔ مرحوم سردار صاحب بھی جب سیاسی حالات اور لیڈروں کے بارے میں گفتگو کرتے تو بے تکلف ہو جاتے اور مجھے معلوم ہوتا کہ اس بڑے لیڈر کا مجھ پر اعتماد ہے جس کا احترام میرا فرض ہے۔
سردار صاحب میں جو سیاسی بصیرت تھی وہ میں نے شاید ہی کسی دوسرے لیڈر میں دیکھی ہو لیکن وہ کشمیر کی سیاست میں مصروف رہے ورنہ وہ پورے پاکستان کے ایک بڑے لیڈر ہوتے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی سیاسی سوال پیدا ہو کسی سیاسی مسئلے پر کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس اجاڑ سیاسی دنیا میں کوئی رہنما نہیں ملتا جو ملتے ہیں وہ تو اپنے سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کی حکومت پر غیر سیاسی لوگ قابض رہتے ہیں جنھیں اپنے گھر سے باہر کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور دشمنوں کے ہاتھوں میں بھی کھیلتے رہتے ہیں۔
میں بات تو بھارت کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا لیکن سردار صاحب کی وفات نے اس بڑی سیاسی شخصیت کی یاد دلا دی۔ ہم نے عالمی سطح پر بھارت کے وزیر اعظم سے ایک اور ملاقات کی ہے جو غالباً تیسری ملاقات تھی اور یہ ملاقات بھی ہماری سبکی بلکہ بے عزتی پر ختم ہوئی کہ بھارتی وزیر اعظم نے ہمارے وزیر اعظم کو بلانے کے باوجود اپنے 'تخت' پر بیٹھے بیٹھے ملاقات کی اور دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کے کپڑوں کی تعریف کی اور گفتگو میں پانچ نکات کی بات ہوئی اور ماہی گیروں کی رہائی کی۔ میرے جیسے متعصب اور دیوانگی کی حد تک پاکستانی کے خیال میں یہ ملاقات ناجائز تھی اور وجہ میں بتاتا ہوں۔
اسی بھارتی وزیر اعظم نے لہک لہک کر چند دن ہوئے کہ بنگلہ دیش کے دورے میں پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں بھارت کے کردار کا تفصیل سے ذکر کیا اور بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ بھارت نے پاکستان کے اتحاد کو ختم کر دیا اور اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ بنگلہ دیش اسی ٹوٹے ہوئے پاکستان کی نشانی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پیشرو آنجہانی اندرا گاندھی کے اس اعلان کو بڑھاتے ہوئے کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے بہت کچھ کہا جو غیرت مند پاکستانیوں کے دلوں پر نقش ہے سوائے حکمرانوں کے۔
محب وطن اور پاکستان کے عاشق پاکستانیوں کی ایک شریعت ہے اور یہ شریعت پاکستان کے معاملات پر نافذ ہوتی ہے۔ اس شریعت کے کئی نکات ہیں اور پہلا نکتہ اس کی عزت اور وقار کی حفاظت ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام پاکستان کی توہین کی ہے اور پاکستان دشمنی میں بھارتی کردار کی اور اپنے ذاتی کردار کی گواہی دی ہے اس طرح وہ پاکستانی شریعت کے مطابق پاکستان کا نمبر ایک دشمن ہے ایسے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنے کا مطلب پاکستان دشمنی ہے یا پھر یقینی منافقت ہے دونوں صورتوں میں ایسا پاکستانی جو دشمن کے ساتھ دوستی کا نام لے بلکہ اس کی دوستی کا دم بھرے پاکستان شریعت میں وہ غیر پاکستانی ہے اور اس کی پاکستانی شہریت پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
بھارت کا موجودہ وزیر اعظم پاک و ہند تاریخ میں سب سے بڑا پاکستان دشمن اور مخالف ہے۔ پاکستان کے شرعی کورٹ کے کوئی بھی مفتی اور جج ایسے شخص کو مسترد کرتا ہے اور اس کے ساتھ دوستی تو کجا ہاتھ ملانے کو بھی ناجائز سمجھتا ہے۔
دوستی اور دشمنی کے کسی بھی معیار کو سامنے رکھیں پاکستانی شرعی کورٹ کا یہ فیصلہ خالص پاکستانی فیصلہ ہے بلکہ ایک قانون ہے جس پر عمل کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس کے تاریخی دشمن نے تکلفات اور عالمی رکھ رکھاؤ ترک کر کے ایک برملا عمل کیا ہے جس پر اس نے فخر کیا ہے ایسے شخص کے خلاف پاکستان کی عدالت کا فیصلہ خاموش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی حکم امتناہی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاکستان کے محب وطن شہریوں کا فیصلہ ہے اور ایک حتمی فیصلہ۔ تفصیلات بعد میں۔