عید سے پہلے

عیدالفطر میں اب صرف چند دن باقی ہیں مگر ہمارے رپورٹر حضرات خبروں سے بھرے ہوئے بوکھلائے پھرتے ہیں،

Abdulqhasan@hotmail.com

عیدالفطر میں اب صرف چند دن باقی ہیں مگر ہمارے رپورٹر حضرات خبروں سے بھرے ہوئے بوکھلائے پھرتے ہیں، کسی خبر کی ایک ہلکی سی جھلک دکھاتے ہیں تو باقی آیندہ عید کے بعد کا اعلان کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مثلاً ان دنوں خبروں میں ایک ریٹائرڈ سپہ سالار جنرل پرویز مشرف کا ذکر آ رہا ہے کہ وہ سیاست میں عملاً داخل ہونا چاہتے ہیں اور ادھر ادھر رابطے کر رہے ہیں۔ اگر جرنیلوں کے بے شمار پروردہ سیاست میں سرگرم ہیں تو خود جرنیلوں نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ سیاست سکھانے کے بعد خود سیاست کیوں نہ کریں چنانچہ جنرل پرویز مشرف بھی عنقریب کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر نمودار ہوں گے اور ہم اخبار والے ان کی مذمت یا مدح میں مصروف ہو جائیں گے۔

خبروں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جنرل صاحب کے پاس دولت کے انبار یا ڈھیر لگے ہوئے ہیں اگر یہ خبر درست ہے تو پھر ان کی سیاسی کامیابی یقینی ہے مگر اس میں ایک خرابی ہے کہ فوجی بہت کنجوس ہوا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ چونکہ زندگی کے عوض تنخواہ پاتے ہیں اس لیے بہت محتاط رہتے ہیں لیکن جب ہاتھ پڑ جاتا ہے تو پھر ہر کسر نکال لیتے ہیں۔ سنا ہے جنرل مشرف نے بھی زندگی کی ہر حسرت اور ہر کسر پوری کر لی ہے ویسے عام زندگی میں وہ صاحب ذوق رہے ہیں۔

اگر کبھی میلاد وغیرہ کی مجلس منعقد ہوتی تو وہ اس مبارک مجلس کو اس کی شان اور احترام کے مطابق منعقد کرتے دعا کے بعد فرش پر سے سفید چاندنی اٹھا دی جاتی اور اس جگہ پر ساز و آواز کی مجلس منعقد کی جاتی اور اہل خانہ اس میں حصہ لیتے۔ کسی کے ہاتھ میں کوئی ساز ہوتا تو کسی کے ہاتھ میں ہارمونیم اور اس کی سروں کے مطابق آواز ہوتی۔ انگلیاں اور آواز کے زیرو بم ایک ساتھ چلتے۔ بہر کیف موسیقی کی اس مجلس کے بعد رات کے احترام میں نیند کی مجلس آراستہ ہوتی اور یوں ایک شام میلاد اور موسیقی کے ساتھ گزر جاتی۔ جناب جنرل صاحب اگر سیاست میں آ جاتے ہیں تو ہماری سیاست میں شاید خشکی کی جگہ کچھ رونق بھی نظر آنے لگے۔

ویسے جرنیل صاحب مطلع رہیں کہ جناب عمران خان اس میں بازی لے گئے ہیں اور ان کی بیگم صاحبہ جو پہلے ٹی وی پر جلوہ افروز ہوتی تھیں اب سیاسی مجلسوں میں دکھائی دینے لگی ہیں اور تمام اپنے ناز و انداز کے ساتھ حاضرین کو متوجہ کر رہی ہیں۔ جنرل صاحب کے پاس اگر اس کا مقابلہ ہے تو سبحان اللہ۔ ہم تماشائی لوگ ہیں ہمیں اور کیا چاہیے۔ جنرل صاحب ان دنوں جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف مائل ہیں۔ قادری صاحب ان کی موسیقی کی مجلس تو نہیں لیکن دوسری مجلس ضرور آراستہ کرلیں گے اور سامعین بھی ساتھ لائیں گے۔


بہر کیف جنرل صاحب کی سیاست میں عملاً شرکت خوش کن ہوگی۔ وہ بذات خود ایک بارونق فرد ہیں اور ایک موسیقی نواز خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو فوج میں اتنے بڑے عہدے پر پہنچ گئے کہ اپنے ایک ناپسندیدہ سیاستدان کو ملک بدر کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ اب یہ ملک بدر سیاستدان ملک کے مالک ہیں اور جنرل صاحب ان کی رعایا اور اسی حال میں وہ سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔ ہم تماشائی صحافی بڑی بے چینی سے اس تماشے کو دیکھ رہے ہیں اور دعا گو ہیں کہ یہ تماشا جاری رہے۔

ہمارا سپریم کورٹ ان قومی اداروں میں سے ہے جو اپنی اور ملک اور قوم کی عزت کو بچاتا رہتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے بارے میں لکھنے کو دل تو بہت چاہتا ہے لیکن استاد نے نصیحت کی تھی عدلیہ کے بارے اپنی طرف سے کبھی بھی نہ لکھنا جو لکھنا ہے وہ عدالت کے فیصلے پڑھ کر ان کی روشنی میں ہی کچھ لکھنا بلکہ فیصلوں کی زبان ہی دہرا دینا، عافیت اسی میں ہے۔ میں اس کے باوجود جسارت کر جاتا ہوں۔ سپریم کورٹ کے ایک جج جو عنقریب چیف بننے والے ہیں کبھی میرے کوہستانی گاؤں میں چلے جاتے ہیں جہاں وہ پہاڑوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور وہاں پرانے مزاروں کی زیارت کرتے ہیں۔

پرانی تاریخی عمارتوں کے کھنڈر بھی ان کی دلچسپی میں شامل ہیں۔ میں ان کی اس سیاحت کا ذکر کر دیتا ہوں جو گاؤں جانے پر مجھے بتایا جاتا ہے۔ کہاں پہاڑوں میں بکریاں چرانے والے اور کہاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحب' میں ان کوہستانی رپورٹروں کی باتیں سنتا ہوں اور ان میں سے مطلب کی بات اخذ کرتا ہوں۔ اس عجیب واقعے کو چھپا نہیں سکتا اور اس کا ذکر بھی کر دیتا ہوں مگر بچ بچا کر کہ میں تو ایک پیشی بھگتانے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ سپریم کورٹ کا ذکر یوں کر رہا ہوں کہ اس کے حکم پر اردو زبان کو اس کا آئینی حق ملنے والا ہے اور حکومت اس پر عملاً توجہ دے رہی ہے۔

انگریزی زبان کو ذریعے عزت سمجھنے والوں کی حالت میں ان کی انگریزی کی تقریروں میں دیکھتا ہوں کہ وہ لکھی ہوئی تقریر بھی نہیں پڑھ سکتے مگر انگریزی ضرور بولتے ہیں۔ ایسی حرکت کرنے والوں کی طرف سے جو اب ماؤزئے تنگ نے دیا تھا کہ کیا میں گونگا ہوں اور میری زبان کوئی نہیں ہے جسے ضرورت ہو وہ خود سمجھ لے۔ لیکن ہم پاکستانی اب بھی غلام کے غلام ہیں۔ حضرت عبیداللہ سندھی نے فرمایا تھا کہ غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں۔ وہ شریف کو بے وقوف مکار کو چالاک قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں''۔ کیا ہم بھی ایسے ہی نہیں ہیں۔ خدا ہمیں ذہنی آزادی بھی عطا کر دے۔
Load Next Story