کشمیر پاکستان کا ہے کسی لیڈر کا نہیں

کشمیر مسئلہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بھارت کے گلے پر لوہے کے جوتوں والا پاؤں رکھا ہوا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

MIRPUR:
رمضان المبارک ختم ہوا اور مجھ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اس مہینے کی برکات اور اس میں حاصل ہونے والی نعمتوں کا ذکر کر سکوں۔ روزہ داروں کو یہ مہینہ مبارک ہو۔ اس مہینے کی خبریں سامنے ہیں اور ان خبروں میں پاک بھارت کی اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی ملاقات بھی زیر بحث رہی اور جن پاکستانیوں میں کشمیری غیرت موجود تھی ان پر یہ ملاقات ایک کرب بن کر گزری۔ اس ملاقات میں حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ پاک بھارت سب سے بڑے اور حل طلب مسئلے یعنی کشمیر کا ذکر تک نہ آیا۔ یہ ایک نا ممکن بات تھی مگر ہو گئی۔ اس ملاقات کا جو اعلامیہ جاری ہوا وہ یوں لگا کہ بھارت کے دفتر خارجہ میں لکھا گیا اور جاری کردیا گیا۔

اس ملاقات میں ہمارے کشمیری نسل وزیر اعظم کی جھلک صرف اس وقت دیکھی گئی جب وہ بھارتی وزیر اعظم سے ملنے کے لیے اس کی آراستہ نشست کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ اس ملاقات کا منظر اور مسئلہ کشمیر کی بے بسی اور بے کسی پر پاکستانی قوم سخت افسردہ اور شرمسار تھی لیکن خاموش تھی البتہ کشمیری لیڈر اور آزادی کشمیر کے قائد سید علی گیلانی کا بڑھاپا تڑپ اٹھا۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے عید کی جو دعوت دی تھی انھوں نے اس شرکت سے صرف انکار کر دیا کہا کہ جو پاکستانی کشمیر کا ذکر نہیں کرتے میں ان کی دعوت میں شریک نہیں ہو سکتا۔

کشمیر کی آزادی ہماری زندگی کا مشن ہے ہم اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ گیلانی صاحب نے بعد میں کئی ملاقاتوں اور تقریبات میں اپنے رنج کا ذکر کیا۔ یہاں پاکستان میں عوام کو خوشخبری دی گئی ہے کہ عید کے روز فیکٹریاں بند ہوں گی اور لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ ویسے عید کے دن کوئی فیکٹری چلا کر دکھا دے تو یہ اس کا ایک کمال ہو گا۔ حکومت کا خیال ہے کہ پاکستانی اپنی بے وقوفی اور حماقت کی آخری انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔


ہمارے حکمرانوں کی بہادری کی داد دیں کہ انھوں نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا ذکر اب ضروری نہیں سمجھا۔ ایک خبر چھپی ہے کہ جنرل مشرف اپنے دور میں کشمیر کا ذکر ترک کرنے پر اصرار کیا کرتے تھے اور یہ ہماری حکومتوں کی اندر کی بات ہے کہ وہ بھارت سے شکست کھا گئی ہیں صرف فوجی مجاہد رہ گئے ہیں جن کے حوصلے اور شہادت کی طلب جوان ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو فتح کے لیے نہیں شہادت کے لیے جہاد کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے سیاست تو ہار گئی ہے البتہ تجارت فتح مند ہے۔ علی گیلانی نے بھی اشارتاً کہا ہے کہ ایسے حالات میں تجارت بھی کامیاب نہیں ہوا کرتی۔

کشمیر مسئلہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بھارت کے گلے پر لوہے کے جوتوں والا پاؤں رکھا ہوا ہے اور دنیا کا کوئی ملک اور قوم اس قبضے کو جائز نہیں سمجھتی۔ عالمی سطح پر بھارت کو کوئی کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ کشمیر کا جرم اسے ہر عزت سے نا اہل قرار دے دیتا ہے۔ بھارت کشمیر کو ہضم کرنے کے لیے عمر بھر سے جتن کرتا چلا آ رہا ہے۔ جب یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں جوان تھا تو بھارت کے ایک بڑے دانشور کرشنا مینن طویل تقریروں کے لیے مشہور ہو گئے تھے اور اتنی طویل تقریریں کرتے تھے کے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے۔ ان کی بے ہوشی کی خبر ان کی تقریر سے بڑھ جاتی تھی۔

بھارت کے دانشوروں اور لیڈروں کو علم تھا کہ کشمیر پر قبضہ کا جواز تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس ایک ایٹم بم تو اب آیا ہے لیکن کشمیر کی صورت میں ایک ایٹم بم شروع دن سے موجود ہے جو بھارتیوں کو چین نہیں لینے دیتا۔ درست ہے کہ بھارتیوں کو موجودہ کی طرح ایسے پاکستانی حکمران ملتے رہے ہیں جو کاروبار اور بندی ساڑھی پر مرتے رہے ہیں لیکن پاکستان کے اندر بھی کشمیر کی طرح ایک ایسی لابی زندہ ہے جو کشمیر جیسے مسئلے کی آب و تاب ماند نہیں پڑنے دیتی۔ مقبوضہ کشمیر میں جب بھی احتجاج ہوتا ہے تو یہ احتجاج صرف کشمیر تک محدود نہیں ہوتا یہ پاکستان میں بھی برپا ہوتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے زندہ سلامت ہے اور انصاف مانگتا ہے۔

جب تک انصاف نہیں ملتا یہ مسئلہ زندہ سلامت رہے گا اور اس کا خطرہ بھارت کا دل ایک مسلسل گھبراہٹ میں مبتلا رکھے گا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی لیڈر بھارت کے لیے کشمیر کے مسئلے پر ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ پوری پاکستانی قوم اس پر زندگی تنگ کر دے گی۔ ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ کشمیر ہمارا ہے جو بھارت نے ہتھیا رکھا ہے اور ہمیں یہ واپس لینا ہے۔ اس پر جنگیں بھی ہوئیں اور ہوتی رہیں گی۔ پاکستانی کسی بھی جنگ کے لیے تیار ہیں۔ وہ بھارت کی زندگی حرام کر دینے والے اس مسئلہ کو زندہ رکھیں گے۔
Load Next Story