سندھ رینجرز کے قیام میں ایک سال کی توسیع
رینجرز کی کارروائیوں کے باعث شہر کے حالات میں نمایاں بہتری آئی اور جرائم کی شرح کم ہوئی ہے
اگر عسکری اور سول انتظامیہ مل کر بلا امتیاز کارروائیاں کرتی ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ شہر کے حالات میں جلد از جلد بہتری آئے گی۔ فوٹو : فائل
سندھ حکومت نے رینجرز کے قیام میں ایک سال کی توسیع کر دی ہے، اس کے قیام کی مدت 18جولائی 2015ء کو ختم ہو رہی تھی، اب وہ 18 جولائی 2016ء تک قیام کر سکے گی، اس حوالے سے وفاق کو درخواست کی جائے گی، رینجرز کے اختیارات میں توسیع آئین کے آرٹیکل 147 کے تحت کی گئی، اس کے قیام اور خصوصی اختیارات کی مدت میں اضافے کی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی کا اجلاس بلا کر منظوری لی جائے گی۔
چند روز قبل بھی سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کے خصوصی اختیارات میں تیس روز کی توسیع کی گئی تھی۔ سندھ میں رینجرز کو سونپے گئے خصوصی اختیارات کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے متضاد آراء سامنے آتی رہی ہیں، کچھ حلقے رینجرز کے قیام سے مطمئن ہیں جب کہ کچھ بالخصوص ایم کیو ایم کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جب سے کراچی میں رینجرز نے خصوصی اختیارات کے تحت دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ہے تب سے شہر کے حالات میں کافی حد تک بہتری آ رہی ہے اور اس کے قیام میں مزید توسیع بھی اسی امید پر کی جا رہی ہے کہ شہر میں امن و امان کی موجودہ صورت حال میں جو خرابیاں موجود ہیں انھیں دور کیا جا سکے۔ ادھر سندھ حکومت نے پولیس اور سول بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر تقرر و تبادلے کیے ہیں۔
جن افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا ان پر مختلف قسم کے الزامات تھے، ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو کو ہٹا دیا گیا ہے، اسی طرح دس اضلاع کے ڈی سی اوز کو بھی ان کے عہدوں سے فارغ اور آٹھ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ کراچی میں ایک مدت سے جاری ٹارگٹ کلنگ، ہنگاموں، قتل و غارت، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے باعث شہریوں کی زندگی عدم تحفظ کا شکار چلی آ رہی ہے ایسی صورت حال میں شہری حلقوں کی جانب سے الزامات بھی سامنے آئے کہ انتظامیہ اور پولیس میں موجود کچھ اہلکار ان جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
لہٰذا شہر میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری کی امید دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیاس تناظر میں امن و امان میں بہتری لانے میں سول انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کے باعث رینجرز کو طلب کیا گیا اس طرح اس نے نہایت مشکل حالات میں اختیارات سنبھالے۔ جب کسی جگہ آپریشن ہوتا ہے تو اس دوران میں بعض اوقات کچھ ناپسندیدہ واقعات کے رونما ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رینجرز کی کارروائیوں کے باعث شہر کے حالات میں نمایاں بہتری آئی اور جرائم کی شرح کم ہوئی ہے جس کی گواہی وہاں کے شہری اور تاجر حضرات بھی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کے قیام میں توسیع اور بڑے پیمانے پر پولیس اور سول بیوروکریسی میں تقرریاں تبادلے اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ معاملات میں بہت زیادہ خرابیاں موجود ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری اور سول انتظامیہ مل کر بلا امتیاز کارروائیاں کرتی ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ شہر کے حالات میں جلد از جلد بہتری آئے گی۔
چند روز قبل بھی سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کے خصوصی اختیارات میں تیس روز کی توسیع کی گئی تھی۔ سندھ میں رینجرز کو سونپے گئے خصوصی اختیارات کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے متضاد آراء سامنے آتی رہی ہیں، کچھ حلقے رینجرز کے قیام سے مطمئن ہیں جب کہ کچھ بالخصوص ایم کیو ایم کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جب سے کراچی میں رینجرز نے خصوصی اختیارات کے تحت دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ہے تب سے شہر کے حالات میں کافی حد تک بہتری آ رہی ہے اور اس کے قیام میں مزید توسیع بھی اسی امید پر کی جا رہی ہے کہ شہر میں امن و امان کی موجودہ صورت حال میں جو خرابیاں موجود ہیں انھیں دور کیا جا سکے۔ ادھر سندھ حکومت نے پولیس اور سول بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر تقرر و تبادلے کیے ہیں۔
جن افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا ان پر مختلف قسم کے الزامات تھے، ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو کو ہٹا دیا گیا ہے، اسی طرح دس اضلاع کے ڈی سی اوز کو بھی ان کے عہدوں سے فارغ اور آٹھ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ کراچی میں ایک مدت سے جاری ٹارگٹ کلنگ، ہنگاموں، قتل و غارت، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے باعث شہریوں کی زندگی عدم تحفظ کا شکار چلی آ رہی ہے ایسی صورت حال میں شہری حلقوں کی جانب سے الزامات بھی سامنے آئے کہ انتظامیہ اور پولیس میں موجود کچھ اہلکار ان جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
لہٰذا شہر میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری کی امید دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیاس تناظر میں امن و امان میں بہتری لانے میں سول انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کے باعث رینجرز کو طلب کیا گیا اس طرح اس نے نہایت مشکل حالات میں اختیارات سنبھالے۔ جب کسی جگہ آپریشن ہوتا ہے تو اس دوران میں بعض اوقات کچھ ناپسندیدہ واقعات کے رونما ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رینجرز کی کارروائیوں کے باعث شہر کے حالات میں نمایاں بہتری آئی اور جرائم کی شرح کم ہوئی ہے جس کی گواہی وہاں کے شہری اور تاجر حضرات بھی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کے قیام میں توسیع اور بڑے پیمانے پر پولیس اور سول بیوروکریسی میں تقرریاں تبادلے اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ معاملات میں بہت زیادہ خرابیاں موجود ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری اور سول انتظامیہ مل کر بلا امتیاز کارروائیاں کرتی ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ شہر کے حالات میں جلد از جلد بہتری آئے گی۔