ہم کیا ہیں کیوں ہیں اور کب تک

ہمارے غیر ملکی حاکموں نے ہمارے ساتھ ہر ظلم روا رکھا اور ہم یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور رہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

آج سے کوئی 69 برس پہلے ہم نے اس دنیائے آرزو میں آنکھ کھولی اور ہم سے بھی ویسی ہی خوش کن امیدیں وابستہ کی گئیں جو ہر نومولود سے کی جاتی ہیں ہم کوئی عام سے نومولود نہیں تھے ہماری پیدائش کے ساتھ مسلمانوں کی کئی نسلوں کی دعائیں تھیں اور ایک شاندار تاریخ تھی، برصغیر میں ہم اپنی گمشدہ سلطنت کی تلاش میں تھے کم و بیش ایک ہزار برس تک ہم نے اس خطے میں فاتحانہ زندگی بسر کی جو بالآخر ہماری کوتاہیوں کی نذر ہو گئی اور ہم غیر ملکی اور غیر مسلموں کے غلام بن گئے۔ ہمارے پاس سوائے چند حسرت آمیز شعروں کے اور کچھ نہ رہا اور ہم بعداز مرگ دفن کے لیے اس خطے میں دو گز زمین کو ترستے ہوئے رخصت ہوگئے۔

ہمارے غیر ملکی حاکموں نے ہمارے ساتھ ہر ظلم روا رکھا اور ہم یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور رہے۔ غلامی کا وقت مایوسی اور امید کی کیفیت میں گزرتا رہا۔ طویل غلامی کے اس دور میں ہم نے اپنے اچھے وقت کو ہمیشہ یاد رکھا اور اس کی واپسی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ اس خطے کے مسلمانوں کی آزادی محض کسی اچھی اور باعزت زندگی کے لیے ہی ضروری نہ تھی بلکہ ہمارے قائداعظم کے الفاظ میں ہماری بقا اور زندگی کو باقی رکھنے کے لیے ضروری تھی ورنہ ہم اس خطے میں چند قبروں کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہتے۔

برطانوی دور کوئی سو ڈیڑھ سو برس باقی رہا اور ہم اس دوران اپنی آزادی کے منصوبے اور آزادی کے بعد کے پروگرام طے کرتے رہے۔ اس خطے میں ہندو اور دوسری قومیں بھی آباد تھیں بلکہ اسے ہندوستان کہا جاتا تھا لیکن سوائے مسلمانوں کے اور کسی قوم کا کچھ بھی کھویا نہ تھا جس کی واپسی کے لیے وہ جدوجہد کرتے۔ ہمارے بزرگوں اور قائدین نے قوم کے سامنے پاکستان نام کے ایک ملک کا جغرافیائی اور نظریاتی نقشہ پیش کیا اور اس پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے بعد اس کے حصول کی جدوجہد جاری کر دی۔ مسلمانوں کو دو محاذوں پر لڑنا تھا ایک انگریز اور دوسرے ہندو۔ ہم تعداد میں ہندوؤں سے بہت کم مگر عزم اور نظریے میں بہت بلند اور بہت آگے تھے۔ نظریہ پاکستان ہی ہماری اصل طاقت تھی جسے ہمارے قائدین نے بڑی فراست اور مومنانہ حکمت سے استعمال کیا اور دنیا کے نقشے پر صرف نظریات کی طاقت سے ایک نظریاتی ملک قائم کر دیا۔


نہ صرف ایک حیرت انگیز ملک بلکہ دنیا اور خصوصاً مسلمانوں کی تاریخ کا ایک منفرد ملک۔ اس سے قبل کوئی ملک برائے اسلام قائم نہیں ہوا تھا۔ جتنے بھی مسلمان ملک موجود تھے وہ پہلے سے تھے اور انھوں نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ انسانی تاریخ کا یہ بہت بڑا اور حیرت انگیز اعزاز برصغیر کے مسلمانوں کو حاصل ہوا اور یہ ملک محض ایک جغرافیائی اضافہ نہیں تھا اسے ایک نظریاتی ملک بننا تھا اور اس اعزاز کا حقدار بننا تھا۔ اس ملک کے مسلمانوں پر شروع دن سے ہی آزمائش کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح ملک کی بنیاد رکھ کر اور کچھ عرصہ ایک نئے حکمران کا کردار پیش کر کے رخصت ہو گئے اور اس مشکل ملک کو جن کے حوالے کر گئے یا یہ ملک جن کے حوالے ہو گیا اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں۔

آج 69 برس بعد اس اسلامی نظریاتی ملک میں تاریخ کا سب سے بڑا اخلاقی سانحہ پیش آیا ہے لیکن اس ملک کے حکمرانوں کا کچھ اتہ پتا نہیں ہے کوئی ملک سے باہر رٹا لگائی ہوئی انگریزی زبان کی تقریریں پڑھ رہا ہے تو کوئی ملک کے اندر کہیں موجود ہے اور اس کا ان پاکستانی بچوں سے کوئی رشتہ نہیں ہے جن کو ہم نے زندہ قتل کر دیا ہے اور جن کا بچپن ہم نے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم نے برصغیر کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کو رسوا کیا ہے اور عملاً ثابت کر دیا ہے کہ ہم نہ صرف ایک اسلامی نظریاتی ملک کے اہل نہ تھے بلکہ اس کے قیام کی سزا بھی ہماری منتظر ہے۔

ہمارے سیاسی قائدین اور اشرافیہ کو قطعاً کچھ معلوم نہیں اور یہ ایک سچ ہے کہ یہ ملک پاکستان کیوں بنایا گیا تھا اس کے قیام کا مقصد کیا تھا اور اس کے اشرافیہ طبقے کے فرائض کیا تھے۔ ہماری اشرافیہ نے اس ملک کو لوٹ لوٹ کر دولت کے انبار در انبار جمع کر کے بیرونی ملکوں میں رکھ دیے۔ ان لیڈروں کی دولت بھی پاکستان سے باہر ہے اور اولاد بھی بلکہ بعض تو غیر ملکی شہریت کے ساتھ اس ملک کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی لطیفہ ہے۔ یہاں گنجائش نہیں کہ میں ایک ایک لیڈر کی غیر پاکستانی زندگی کا ذکر کروں لیکن یہ لوگ اس قدر دلیر بلکہ دیدہ دلیر ہیں کہ اپنے کسی قومی جرم کو چھپاتے نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے ہماری قوم کو نظریاتی بانجھ بنا دیا ہے۔ پاکستانیوں کو سب معلوم ہے کہ یہ لیڈر ان سے چھپاتے کچھ نہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں یہ ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔ ایک قوم جو اپنے بچوں کو رسیوں سے باندھ کر ان کی زندگی لوٹ لیتی ہے اور پھر ان مُردوں کو گلیوں میں آوارہ چھوڑ دیتی ہے ایسی قوم نہ کسی کے رحم کی لائق ہے اور نہ کسی کی ہمدردی کی۔ یہ مجرموں کی قوم ہے جو اپنے بچوں کو بھی معاف نہیں کرتی اور کمال حیرت یہ ہے کہ اس کے حکمران یہ سب دیکھ کر تخلیہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہم نہ رحم کے قابل ہیں اور نہ معافی کے بلکہ ہم شاید زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ میں جب اپنی حالت دیکھتا ہوں اور زندہ نہ رہنے والے اعمال دیکھتا ہوں تو مجھے ایک بھارتی صحافی کی یہ بات تیر کی طرح سینے میں چبھ جاتی ہے کہ پاکستان کا ذکر نہ کریں اسے چھوڑیں اور یہ سب اس نے پاکستانی صحافیوں کے سامنے کہا تھا۔ اس کی معلومات اور اس کی حکومت کے کامیاب منصوبے اور پاکستانی قوم یہ سب کچھ اس کے سامنے تھا۔ ہم ایک سیاسی ملک ہیں لیکن ہماری بقا آپ ناراض نہ ہوں ہماری فوج کے ہاتھ میں ہے۔ شکر ہے کہ یہ فوج ہماری اپنی ہے۔
Load Next Story