رشکِ گل وگلزار مہکتا یہ پریوار پہلا حصہ

بچی بہت ذہین تھی اور ابا اماں دل وجان سے فدا۔ لہذا انھوں نے فیصلہ کیا کہ بچی کو ایک اعلیٰ اسکول میں تعلیم دلوائی جائے۔

tishna.brelvi@yahoo.com

بچی بہت ذہین تھی اور ابا اماں دل وجان سے فدا۔ لہذا انھوں نے فیصلہ کیا کہ بچی کو ایک اعلیٰ اسکول میں تعلیم دلوائی جائے۔ اسکول کی فیس زیادہ ہونے کے باوجود وہ اپنے ارادے پر قائم رہے۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ اس انگلش اسکول میں وہی بچے داخل ہوتے ہیں جن کے والدین فر فر انگلش بولتے ہوں تاکہ بچے کی انگلش گھر پر بھی مضبوط ہوتی رہے۔ یہاں معاملہ کورا تھا چونکہ اماں ابا دونوں اردو تک محدود تھے۔ اس لیے ''انٹرویو '' میں ناکام ہوجاتے۔ پھر ایک ترکیب دماغ میں آئی جس پر عمل کیاگیا اور بچی''کوئین میری'' اسکول میں داخل ہوگئی۔

بچی کے اماں ابا کے بجائے ابا کے ایک دوست کی بیوی اور ان کے گھر میں مقیم ایک مہمان بچی کے والدین بن کرگئے اور پھر بچی شہرت کی بلندیوں تک پہنچی۔

1950ء میں پیدا ہونے والی اس بچی کا نام شبانہ اعظمی ، اس کے والد کیفی اعظمی، والدہ شوکت کیفی ، ابا کے دوست علی سردار جعفری، جعفری کے مہمان ایک ہندی کوی اور جعفری کی بیوی سلطانہ جعفری ۔ یہ سب لوگ کمیونسٹ بھی تھے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے ممبران بھی۔ انجمن ایک بڑے پریوار کی حیثیت رکھتی تھی اور اردو ادب پر اس کی چھاپ بہت گہری ہے۔

شبانہ کوآگے بڑھنے کے لیے بہت شاندار ماحول ملا ۔ہر طرف سے اس کی ہمت افزائی ہوئی ۔ کوئن میری اسکول کے بعد اس نے سینٹ زیویر کالج میں پڑھا۔

وہ بہت پاپولراسٹوڈنٹ تھی اور اس نے کالج کے ڈراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ مینا کماری کو وہ بہت پسند کرتی تھی ۔ایک بار اس نے مینا کماری کو اپنا ڈرامہ دکھانے کے لیے بلالیا ۔ مینا کماری بہت متاثر ہوئی اوراس نے پروڈیوسر 'ڈائریکٹر اور رائٹر خواجہ احمد عباس کو بتایا کہ اس لڑکی میں بہت ٹیلنٹ ہے اور وہ یقینا ایک بڑی اداکارہ بنے گی ۔شبانہ نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ میں بھی ٹریننگ حاصل کی اور وہیں سے 40 سال پہلے اس کے کیرئیر کا آغاز ہوا جو ہر طرح سے کامیاب رہا ۔ فلمی کیرئیر کے ساتھ وہ حقوقِ نسواں کے لیے بھی سرگرم رہی ۔ اقوامِ متحدہ کی گڈول سفیر بنی اور راجیو سبھا کی ممبر بھی۔ وہ بہت بیباک اداکارہ ہے اس نے ایک فلم میں Rape Victimکا کردار ادا کیا۔ ایک دوسری فلم میں وہ '' نائکہ'' بنی۔ یہی مشکل رول اس کی ماں نے امراؤ جان ادا میں خانم جان بن کر ادا کیا تھا ۔ستیہ جیت رے کی باکس آفس فلم''شطرنج کے کھلاڑی'' میں نواب بیگم تھی ۔FIREمیں اس نے ''لزبین'' کا بھی کردار نبھایا ۔جو عصمت چغتائی کے مشہور افسانے '' لحاف '' سے لیاگیا تھا۔وہ بے نظیر بھٹو کے کردار کے لیے بھی چن لی گئی تھی مگر آصف زرداری نے فلم رکوا دی ۔ شبانہ اعظمی کو بلراج ساہنی کا نسوانی روپ بھی کہا جاتا ہے ۔ بلراج ساہنی بھی اسی پریوارکا حصہ تھے۔

اب ذرا بات کرتے ہیں شبانہ کے والدین کی ۔ کیفی اعظمی کا اصل نام سید اختر حسین رضوی تھا ۔ وہ اعظم گڑھ کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ شروع سے ہی شاعری کا شوق تھا اور مجالس میں سلام اور مرثیے سناتے تھے۔ پھر شعر بھی لکھنے لگے ۔ جلد ہی وہ کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین میں شامل ہوگئے ۔سجاد ظہیر اور علی سردار جعفری کے بہت قریب آگئے اور پارٹی کے کل وقتی کارکن بھی بن گئے۔ پھر 1945ء میں حیدر آباد دکن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا ایک بڑا شاندارجلسہ منعقد ہوا جس کا تفصیلی حال کرشن چندر نے اپنے رپورتاژ ''پودے'' میں اس خوبی کے ساتھ لکھا کہ رپورتاژوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اس اجتماع میں مولانا حسرت موہانی، فراق گورکھپوری، سجاد ظہیر، ملک راج آنند، ساحر لدھیانوی جیسے نامورلکھنے والے شریک ہوئے اور روشن خیالی کی بنیاد پر مستقبل کا منشور وضع کیا گیا۔


یہیں ایک حیدر آبادی لڑکی شوکت کی ملاقات کیفی سے ہوئی اور جلد ہی دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ مزے کی بات کہ مولوی صاحب نے یہ کہہ کر نکاح پڑھانے سے انکار کردیاتھا کہ وہ کمیونسٹوں کو مسلمان نہیں سمجھتے لیکن ذوالفقار علی بخاری نے جو بمبئی ریڈیو کے سربراہ تھے، مولوی صاحب کو 50روپے کی خطیر رقم دے کر نکاح پڑھانے کے لیے راضی کرلیا ۔ شوکت کیفی اسٹیج آرٹسٹ تھی اور مشہور و معروف پرتھوی تھیٹر سے وابستہ۔ انھوں نے فلموں میں بھی کام کیا اور ایک کتاب بھی لکھی '' میں اور کیفی '' کیفی اعظمی بہت بیمار رہے اور 2000ء میں انتقال کرگئے۔

علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی اتنے قریب تھے کہ شبانہ اعظمی ان کو تایا کہتی تھی ۔ سلطانہ جعفری تو اس کی ماں بن کر کوئن میری اسکول گئی تھی اور سردار جعفری نے بھی شبانہ کو ہمیشہ بیٹی ہی سمجھا کیونکہ ان کی کوئی بیٹی نہیں تھی(سردار جعفری کے دو بیٹے ہیں جن کے نام انھوں نے ترکی کے مشہور ترقی پسند شاعر ''ناظم حکمت '' کے نام پر ناظم جعفری اور حکمت جعفری رکھے تھے۔ )سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی کے بہت سرگرم رکن رہے اور ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری جنرل ۔ انھوں نے خوب جیلیں بھی کاٹیں۔ مزدوروں کے لیے بہت کام کیا اور نظمیں بھی لکھیں۔ جب 1999 میں باجپئی صاحب پاکستان آئے تو وہ سردارجعفری کو بھی لانا چاہتے تھے مگر سردار جعفری بیمارتھے نہ آسکے ۔ باجپئی صاحب نے سردار جعفری کا مجموعہ کلام '' سرحد '' نواز شریف کو بھی پیش کیا تھا۔

ایک مزیدار واقعہ اس وقت پیش آیا جب الہٰ آباد سے انھیں مشاعرہ کا دعوت نامہ آیا ۔ وہ الہٰ آباد پہنچے اور عظیم شاعر فراق گورکھپوری کے یہاں قیام کیا ۔ پھر وہ رات کو مشاعرہ میں گئے۔ صدارت فراق گورکھپوری ہی کررہے تھے جب اعلان ہوا کہ اب ممتاز شاعر علی سردار جعفری اپنی غزل پیش کریں گے تو فراق صاحب کھڑے ہوگئے اور بولے '' علی سردار جعفری مجھے بہت عزیز ہے ۔ اس نے مزدوروں کے لیے کچھ نظمیں ضرور لکھی ہیں لیکن وہ غزل گو نہیں ہے لہذا اس محفلِ غزل میں وہ اپنا کلام پیش نہیں کر سکتا۔'' جعفری خاموشی سے بیٹھ گئے۔ یہ تھا استاد کا احترام۔

شبانہ اعظمی نے 34سال کی عمر میں مشہور فلمی رائٹر جاوید اختر سے شادی کی ۔ یہ جاوید کی دوسری شادی تھی ۔ پہلی شادی ہنی ایرانی سے ہوئی تھی جس سے ان کے دو بچے ہیں۔ زویا اختر اور فرحان اختر ۔ یہ دونوں بھی اپنے طور پر معروف ومشہور ہیں ۔ شبانہ سے کوئی اولاد نہیں ۔

جاوید اختر مشہور ترقی پسند شاعر جان نثار اختر اور صفیہ اختر کے بڑے لڑکے ہیں۔ اب 70 سال کے ہیں۔ بچپن میں ان کا نام ''جادو'' تھا اور شروع سے ہی جادو بیان اور جادو نگار ہیں ۔ ساتھ زبردست عاشق مزاج اور حسن پرست بھی۔ سلیم خان کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی نے بہت کامیاب کہانیاں لکھیں۔ ہاتھی میرا ساتھی، سیتا اور گیتا ، انداز، شعلے ، ڈون، یادوں کی بارات ، زنجیر ، دیوار ، ترشول وغیرہ ۔ انھوں نے بہت سے ایوارڈ اور اعزازات حاصل کیے اور خوب دولت کمائی۔ جب کہ ان کی والدہ تنگدستی کا شکار رہیں ۔ جاوید کے تعلقات اپنے باپ جاں نثار اختر کے ساتھ اچھے نہیں تھے کیونکہ انھوں نے ان کی والدہ کے انتقال کے بعد جلد ہی دوسری شادی کرلی تھی ۔ ایک بار دونوں ساحر لدھیانوی کے گھر میں مہمانوں کی طرح مقیم تھے لیکن باپ بیٹا اجنبیوں کی طرح رہ رہے

(جاری ہے۔)
Load Next Story