ہماری بے زبانی
محترم و مکرم جسٹس جواد ایس خواجہ اردو زبان کو ساتھ لے کر پاکستان میں عدلیہ کے بلند ترین مقام تک پہنچے ہیں۔
Abdulqhasan@hotmail.com
لاہور:
عالی مرتبت اردوئے معلی کو اس کے اصل مرکز پاکستان میں برسوں پہلے اس مقام پر فائز ہو جانا تھا جس پر وہ کوئی 69 برس بعد صرف ایک پاکستانی کی جرات اور احساس قومیت کی طاقت سے پہنچ سکی ہے یا اس کے قریب آ چکی ہے۔ یہ پاکستانی سپریم کورٹ آف پاکستان کا سربراہ ہے جو اپنے اس جلیل القدر منصب پر صرف 24 دن فائز رہے گا اور اس مدت میں اردو بھی اپنے حقیقی مرتبے اور مقام پر عیش کرے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا دیکھیں گے۔
محترم و مکرم جسٹس جواد ایس خواجہ اردو زبان کو ساتھ لے کر پاکستان میں عدلیہ کے بلند ترین مقام تک پہنچے ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ سے پہلے تو عدالتی فیصلوں کو اردو زبان میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے حیرت کے ساتھ اور پھر بے حد اطمینان کے ساتھ عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے والوں نے یہ سب دیکھا اور اس پر بمشکل یقین کیا۔
میں نے اس دوران بہت سوچا کہ کیا میں کوئی مقدمہ اس بڑی عدالت میں دائر کر سکتا ہوں لیکن مایوس ہو کر جج صاحب کے لیے اللہ سے سلامتی کی دعا کی لیکن میری کوئی خواہش اور دعا ان کے 24 دنوں کے اقتدار کو طویل نہیں کر سکتی تھی۔ یہ آئین کا مسئلہ ہے جسے میری کوئی خواہش نہیں صرف مارشل لاء ہی ادھر ادھر کر سکتا ہے اور حالات حاضرہ میں مارشل لاء کا امکان مشکل ہے کیونکہ مارشل لاء لگانے والا بھی جناب چیف جسٹس کی طرح ایک اصولی آدمی ہے اور عزت کے ساتھ اپنا وقت گزارنے پر مصر لگتا ہے۔
وزیر آباد کے جدی پشتی رئیس جج صاحب کسی احساس برتری جسے دراصل احساس کمتری کا ردعمل سمجھا جاتا ہے شکار نہیں ہیں۔ قارئین کو شاید یاد ہو کہ میں سپریم کورٹ کے جس جج صاحب کا ذکر کیا کرتا ہوں کہ وہ میرے دور دراز اور اپنے لیے مکمل اجنبی گاؤں میں جایا کرتے ہیں وہ یہی ہمارے اعلیٰ ترین منصف ہیں۔ وہ وہاں پہاڑی راستوں اور پگڈنڈیوں پر گھومتے پھرتے ہیں، نا معلوم زمانوں سے وہاں مدفون ایک فقیر کی قبر پر بھی جاتے ہیں۔ پہاڑوں کی گہرائیوں اور دور دراز واقع یہ قبر جس فقیر کی ہے وہ پہاڑ کے اس گوشے میں بکریاں چرانے والے چرواہوں کا پیر سمجھا جاتا ہے۔
پہاڑ کے اس حصے کا نام کھچیاں ہے اور یہ کھچیاں والا فقیر کہلاتا ہے جس کے مزار پر یہ چرواہے باقاعدگی کے ساتھ بکرے قربان کیا کرتے ہیں اور منتیں مانتے ہیں، یہ ایک الگ دنیا ہے اور جب سے گوشت مہنگا ہوا ہے تب سے یہ چرواہے رفتہ رفتہ خوشحال بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ فقیر کے مزار سے اگر ایک آدھ بکری ہی بچا کر فروخت کر دیں تو وہ خوشحال ہو جاتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ جج صاحب کو اس گاؤں اور اس کی پہاڑی گزر گاہوں کا راستہ کس نے بتایا اور وہ شہری زندگی کے عادی وہاں کیسے پہنچ جاتے ہیں اور کچھ وقت قیام بھی کرتے ہیں۔
میں ایک بار گاؤں گیا تو مجھے اس بارے میں بتایا گیا۔ مجھے بے حد تعجب ہوا جس کا میں نے کسی کالم میں ذکر بھی کیا تھا۔ کیا معلوم اس عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں پہلی بار اردو میں حلف اٹھانے والے اس کے یہ سربراہ ایک بار پھر میرے گاؤں تشریف لے جائیں اسی پہلے والی سادگی کے ساتھ، ویسے انھوں نے پروٹوکول لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ میرے لیے وہی ایک گاڑی ٹھیک ہے جو میں استعمال کر رہا ہوں یعنی اب بھی ان کے ساتھ تام جھام والا معاملہ نہیں ہو گا۔
عدل تو زمین پر بیٹھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ ایک بار ساتھیوں کی مجلس میں نیچے زمین پر بیٹھے تھے کہ انھیں ہلکا سا زلزلہ محسوس ہوا۔ انھوں نے اپنا کوڑا زمین پر مار کر کہا کہ کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا کہ تم برہم ہو رہی ہو زمین چپ ہو گئی۔ پروٹوکول سے محفوظ ہمارے جج صاحب بھی عمر بن خطابؓ کی پیروی میں کبھی کوئی کارنامہ دکھا سکتے ہیں۔
میں عدل و انصاف کی بات نہیں کر رہا بات اردو زبان کی عزت افزائی کی ہے جو نئے جج صاحب نے شوق کے ساتھ کی ہے۔ وہ ایک عرصے سے فیصلے اردو میں لکھ رہے تھے اور کئی بار انھوں نے اردو زبان میں فیصلوں کے فائدے کو واضح کیا ہے کہ سائلین بھی انھیں سمجھتے ہیں اور عام آدمی اپنے آپ کو عدلیہ کے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ انگریزی زبان سے وکلا ہوں یا عدالتی عملہ سب پریشان رہتے ہیں اور قطعاً کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنا دفتری کام انگریزی میں کیوں کریں اردو میں کیوں نہیں۔ انگریزی تو ہمارے حاکموں کو بھی نہیں آتی اور جہاں مجبوری ہو وہ رٹے لگا کر انگریزی بولنے آتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سب سے بڑے جج صاحب کی مہربانی کہ انھوں نے اپنے عمل سے اردو کو اس کا اصل مقام دلانے کی کوشش کی ہے اور جب تک وہ اس منصب پر فائز رہیں گے اردو کی سرداری قائم رہے گی، ہو سکتا ہے اس کی دیکھا دیکھی بعض افسران بالا بھی پاکستانی بن جائیں۔
ویسے بات یہ ہے کہ افسران بالا کو اردو آتی ہی نہیں ہے آتی تو انھیں انگریزی بھی نہیں ہے لیکن وہ کچھ گزارہ کر لیتے ہیں مگر اردو سے وہ بہت جھجھکتے ہیں، بہرحال نصف صدی سے زیادہ وقت گزر گیا ہم بے زبان ہی چلے آتے ہیں۔ ہمارے جج صاحب نے جو پودا لگا دیا ہے خدا کرے وہ پھلے پھولے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ ہمارے پیشے میں کئی ایسے اردو اخبار ہیں جن کی اشاعت پاکستان کے انگریزی زبان کے اخباروں کی مجموعی اشاعت سے بھی زیادہ ہے بہت زیادہ۔
عالی مرتبت اردوئے معلی کو اس کے اصل مرکز پاکستان میں برسوں پہلے اس مقام پر فائز ہو جانا تھا جس پر وہ کوئی 69 برس بعد صرف ایک پاکستانی کی جرات اور احساس قومیت کی طاقت سے پہنچ سکی ہے یا اس کے قریب آ چکی ہے۔ یہ پاکستانی سپریم کورٹ آف پاکستان کا سربراہ ہے جو اپنے اس جلیل القدر منصب پر صرف 24 دن فائز رہے گا اور اس مدت میں اردو بھی اپنے حقیقی مرتبے اور مقام پر عیش کرے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا دیکھیں گے۔
محترم و مکرم جسٹس جواد ایس خواجہ اردو زبان کو ساتھ لے کر پاکستان میں عدلیہ کے بلند ترین مقام تک پہنچے ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ سے پہلے تو عدالتی فیصلوں کو اردو زبان میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے حیرت کے ساتھ اور پھر بے حد اطمینان کے ساتھ عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے والوں نے یہ سب دیکھا اور اس پر بمشکل یقین کیا۔
میں نے اس دوران بہت سوچا کہ کیا میں کوئی مقدمہ اس بڑی عدالت میں دائر کر سکتا ہوں لیکن مایوس ہو کر جج صاحب کے لیے اللہ سے سلامتی کی دعا کی لیکن میری کوئی خواہش اور دعا ان کے 24 دنوں کے اقتدار کو طویل نہیں کر سکتی تھی۔ یہ آئین کا مسئلہ ہے جسے میری کوئی خواہش نہیں صرف مارشل لاء ہی ادھر ادھر کر سکتا ہے اور حالات حاضرہ میں مارشل لاء کا امکان مشکل ہے کیونکہ مارشل لاء لگانے والا بھی جناب چیف جسٹس کی طرح ایک اصولی آدمی ہے اور عزت کے ساتھ اپنا وقت گزارنے پر مصر لگتا ہے۔
وزیر آباد کے جدی پشتی رئیس جج صاحب کسی احساس برتری جسے دراصل احساس کمتری کا ردعمل سمجھا جاتا ہے شکار نہیں ہیں۔ قارئین کو شاید یاد ہو کہ میں سپریم کورٹ کے جس جج صاحب کا ذکر کیا کرتا ہوں کہ وہ میرے دور دراز اور اپنے لیے مکمل اجنبی گاؤں میں جایا کرتے ہیں وہ یہی ہمارے اعلیٰ ترین منصف ہیں۔ وہ وہاں پہاڑی راستوں اور پگڈنڈیوں پر گھومتے پھرتے ہیں، نا معلوم زمانوں سے وہاں مدفون ایک فقیر کی قبر پر بھی جاتے ہیں۔ پہاڑوں کی گہرائیوں اور دور دراز واقع یہ قبر جس فقیر کی ہے وہ پہاڑ کے اس گوشے میں بکریاں چرانے والے چرواہوں کا پیر سمجھا جاتا ہے۔
پہاڑ کے اس حصے کا نام کھچیاں ہے اور یہ کھچیاں والا فقیر کہلاتا ہے جس کے مزار پر یہ چرواہے باقاعدگی کے ساتھ بکرے قربان کیا کرتے ہیں اور منتیں مانتے ہیں، یہ ایک الگ دنیا ہے اور جب سے گوشت مہنگا ہوا ہے تب سے یہ چرواہے رفتہ رفتہ خوشحال بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ فقیر کے مزار سے اگر ایک آدھ بکری ہی بچا کر فروخت کر دیں تو وہ خوشحال ہو جاتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ جج صاحب کو اس گاؤں اور اس کی پہاڑی گزر گاہوں کا راستہ کس نے بتایا اور وہ شہری زندگی کے عادی وہاں کیسے پہنچ جاتے ہیں اور کچھ وقت قیام بھی کرتے ہیں۔
میں ایک بار گاؤں گیا تو مجھے اس بارے میں بتایا گیا۔ مجھے بے حد تعجب ہوا جس کا میں نے کسی کالم میں ذکر بھی کیا تھا۔ کیا معلوم اس عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں پہلی بار اردو میں حلف اٹھانے والے اس کے یہ سربراہ ایک بار پھر میرے گاؤں تشریف لے جائیں اسی پہلے والی سادگی کے ساتھ، ویسے انھوں نے پروٹوکول لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ میرے لیے وہی ایک گاڑی ٹھیک ہے جو میں استعمال کر رہا ہوں یعنی اب بھی ان کے ساتھ تام جھام والا معاملہ نہیں ہو گا۔
عدل تو زمین پر بیٹھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ ایک بار ساتھیوں کی مجلس میں نیچے زمین پر بیٹھے تھے کہ انھیں ہلکا سا زلزلہ محسوس ہوا۔ انھوں نے اپنا کوڑا زمین پر مار کر کہا کہ کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا کہ تم برہم ہو رہی ہو زمین چپ ہو گئی۔ پروٹوکول سے محفوظ ہمارے جج صاحب بھی عمر بن خطابؓ کی پیروی میں کبھی کوئی کارنامہ دکھا سکتے ہیں۔
میں عدل و انصاف کی بات نہیں کر رہا بات اردو زبان کی عزت افزائی کی ہے جو نئے جج صاحب نے شوق کے ساتھ کی ہے۔ وہ ایک عرصے سے فیصلے اردو میں لکھ رہے تھے اور کئی بار انھوں نے اردو زبان میں فیصلوں کے فائدے کو واضح کیا ہے کہ سائلین بھی انھیں سمجھتے ہیں اور عام آدمی اپنے آپ کو عدلیہ کے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ انگریزی زبان سے وکلا ہوں یا عدالتی عملہ سب پریشان رہتے ہیں اور قطعاً کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنا دفتری کام انگریزی میں کیوں کریں اردو میں کیوں نہیں۔ انگریزی تو ہمارے حاکموں کو بھی نہیں آتی اور جہاں مجبوری ہو وہ رٹے لگا کر انگریزی بولنے آتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سب سے بڑے جج صاحب کی مہربانی کہ انھوں نے اپنے عمل سے اردو کو اس کا اصل مقام دلانے کی کوشش کی ہے اور جب تک وہ اس منصب پر فائز رہیں گے اردو کی سرداری قائم رہے گی، ہو سکتا ہے اس کی دیکھا دیکھی بعض افسران بالا بھی پاکستانی بن جائیں۔
ویسے بات یہ ہے کہ افسران بالا کو اردو آتی ہی نہیں ہے آتی تو انھیں انگریزی بھی نہیں ہے لیکن وہ کچھ گزارہ کر لیتے ہیں مگر اردو سے وہ بہت جھجھکتے ہیں، بہرحال نصف صدی سے زیادہ وقت گزر گیا ہم بے زبان ہی چلے آتے ہیں۔ ہمارے جج صاحب نے جو پودا لگا دیا ہے خدا کرے وہ پھلے پھولے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ ہمارے پیشے میں کئی ایسے اردو اخبار ہیں جن کی اشاعت پاکستان کے انگریزی زبان کے اخباروں کی مجموعی اشاعت سے بھی زیادہ ہے بہت زیادہ۔