پسند کی حکومت ایک نعمت
ہمارے حکمرانوں کے پاس ہر حادثے کے بعد شدید اظہار افسوس ہے اور تخریب کاروں کو سزا دینے کا پختہ عزم ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
وطن عزیز کے حالات حاضرہ کی جس پرت کو الٹتے ہیں اس پر ایک نظر ڈالتے ہی اسے ڈر کر فوراً ہی بند کر دیتے ہیں اپنے شمال میں ہماری ایک باقاعدہ جنگ جاری ہے۔ ایک طرف ہم ہیں اور ہماری فوج اور دوسری طرف گھر بیٹھا ہمارا دشمن اپنے ایجنٹوں کو ہمارے خلاف صف آرا کر چکا ہے یوں مرنے والے بس ہم ہیں اور مارنے والے بھی ہم ہی ہیں۔
کریں تو کیا نہ کریں اور جائیں تو کہاں جائیں۔ ہمارے ہوشیار دشمن نے کامیابی کے ساتھ ہمیں ایک ایسی جنگ میں الجھا دیا ہے جس میں اگر ہم اگلے مورچوں میں نہ پہنچ جاتے تو یہ جنگ ہماری آبادیوں میں شروع ہو رہی تھی لیکن ہماری آبادیاں اب بھی محفوظ نہیں ہیں اور دشمن کے ایجنٹ ہمارے گھروں میں آ کر ہمیں قتل کر رہے ہیں ہماری قیمتی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ پشاور سے کراچی تک اور لاہور سے کوئٹہ تک جان لیوا بدامنی پھیل چکی ہے اور ہماری گئی گزری انتظامیہ ہر اہم جگہ کی سیکیورٹی میں مصروف کر دی گئی ہے لیکن ہمارے پاس شاید اتنی سیکیورٹی نہیں ہے کہ اندرون ملک کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنا سکیں۔
ہمارے حکمرانوں کے پاس ہر حادثے کے بعد شدید اظہار افسوس ہے اور تخریب کاروں کو سزا دینے کا پختہ عزم ہے۔ ہماری ریل گاڑیاں تک محفوظ نہیں ہیں اور پٹری سے اتر رہی ہیں جو کبھی ایک حیران کن حادثہ ہوا کرتا تھا۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ سڑکوں پر کوئی خوفناک حادثہ نہیں ہو جاتا جس میں کئی مسافر جاں بحق اور کئی معذور ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی دن کا اخبار کوئی خوش خبری نہیں سناتا اور کوئی ٹی وی چینل کوئی خوش کن منظر نہیں دکھاتا۔
یوں لگتا ہے جیسے اس ملک میں سُکھ چین نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ملک میں غربت اتنی نہیں جتنی حق تلفی اور عدم مساوات ہے۔ خوش حالی تقسیم نہیں کی جاتی صرف غربت تقسیم ہوتی ہے اور کوئی بھی اس سے محروم نہیں ہے۔ غربت کے بارے میں حضور پاکﷺ کا یہ مصدقہ ارشاد ہے کہ 'غریبی انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے'۔ پتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو غریبی و مسکینی کو نیکی کا درجہ دیتے ہیں۔
انسان کبھی جانوروں اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتا تھا لیکن یہ ایک طویل داستان ہے مگر اس وحشی انسان نے مل جل کر زندگی بسر کرنے کا کامیاب منصوبہ بنایا اور رفتہ رفتہ انسانی زندگی ایک نظم و ضبط میں ڈھل گئی جسے اللہ کے پیغمبروں نے بار بار اپنے دور میں آراستہ کیا اور اسے کئی نئے انداز دیے۔ حکومتیں وجود میں آئیں، آئین اور قانون بنائے گئے اور انسان کی جان اور اس کے مال و اسباب کے تحفظ کا بندوبست کیا گیا بلکہ ہر حکومت کے قیام کا مقصد ہی یہی ٹھہرا جان و مال کی حفاظت اب تک دنیا بھر میں انسانی حکومتوں کا بنیادی مقصد یہی امن و امان اور انسانی مال و متاع کا تحفظ ہے۔
جب آپ دیکھیں کہ امن و امان نہیں ہے اور انسانوں کو زندگی کا خطرہ لاحق رہتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی حکومت صحیح نہیں ہے اسے درست ہونا چاہیے یا اسے بدل دینا چاہیے ایک مقررہ مدت میں دوبارہ الیکشن کا مقصد یہی ہے کہ اگر عوام کو حکومت پسند نہیں تو وہ اسے بدل دیں اور اگر پسند ہے تو اسے باقی رکھیں یعنی دانش مند اور تجربہ کار انسانوں نے ہر قومی مرض کا علاج تجویز کر دیا ہے۔ کوئی حکمران نیک نیت اور حساس ہو سکتا ہے لیکن اس کے اندر حکمرانی کی اہلیت نہیں ہوتی تو شرافت یہی ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی بہتر انسان کے لیے خالی کر دے اور اپنی عزت بچا لے۔
یہ صورت حال کسی بھی ملک اور قوم کو پیش آ سکتی ہے۔ یورپی ممالک جو ہمیں اپنے مقابلے میں زیادہ ذمے دار اور ترقی یافتہ دکھائی دیتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں الیکشن میں حکمران بدل جاتے ہیں۔ بالغ نظر قومیں اپنے حالات اور ضرورت کے تحت حکمران بدلتی ہیں۔ ایک وزیر اعظم جنگ کے زمانے میں قوم کا ہیرو ہوتا ہے لیکن جب امن قائم ہو جاتا ہے تو اسے آرام کے لیے گھر بھیج دیا جاتا ہے خواہ وہ ونسٹن چرچل بھی کیوں نہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ قوموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنے حکمران بدل دیں۔ بعض یورپی ملکوں میں بادشاہت قائم ہے لیکن حکمرانی میں اس کا کوئی دخل عمل نہیں ہے۔ حکومت قوم کے منتخب لوگ چلاتے ہیں جو قومی اتحاد اور یگانگت کے مرکز اپنے شاہی خاندان کے سربراہ کے سامنے مودبانہ اپنا تقرر نامہ پیش کرتے ہیں اور اس کی تصدیق ہوتی ہے اور بس۔ یہ شاہی خاندان کسی قوم کو متحد رکھنے کے لیے ایک مرکز بن جاتے ہیں۔ جاپان کا بادشاہ مکمل بے اختیار ہوتا ہے لیکن جنگ اس کے نام پر لڑی جاتی ہے اور جاپانی اس کے تخت و تاج کے لیے جان دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال برطانیہ کے بادشاہ کا ہے جس کے بارے میں مصر کے معزول بادشاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔
عوام کی مرضی اور پسند کی حکومت ہی کسی شریف اور آزاد قوم کی حکومت ہوا کرتی ہے اور اس پسند کی حکومت کی وجہ سے کسی قوم کی دنیا میں کوئی عزت ہوتی ہے۔ جہاں آمریت ہو اور جہاں حکمران عوام کی مرضی کے نہ ہوں اس ملک کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ ہمارے پاکستان میں ہر طرز کی حکومت دیکھی گئی ہے۔ جمہوری بھی آمرانہ بھی اور ناپسندیدہ بھی۔
یہی وجہ ہے کہ ملک نے ترقی کے جس مقام پر آسانی کے ساتھ پہنچ جانا تھا وہ اس دور رہا۔ شکر ہے کہ ان دنوں ایک جمہوری حکومت ہے۔ عوام خوش ہوں یا ناخوش انھوں نے خود ووٹ دے کر اپنے حکمران منتخب کیے ہیں۔ اگر کوئی اپنی پسند پر خوش نہیں ہے تو نئے الیکشن ہی احتیاط کر لے مگر ایک بات کا کسی حد تک صحیح اندازہ ہے کہ فی الحال مارشل لاء کا امکان نہیں ہے۔ ہمارے فوجی سربراہ کی خاتون خانہ نے چند لاکھ کے خوبصورت تحفے شکریئے کے ساتھ واپس کر دیے ہیں۔ بازار کے جیولر وغیرہ بھی خوش ہیں کہ ایک 'عام' گاہک آتا ہے اور حسب توفیق خریداری کر کے چلا جاتا ہے۔ خدا کرے فوج کا سپہ سالار صرف فوج کا سپہ سالار ہی رہے سویلین کا 'سپہ سالار' نہ بنے۔ اس لیے ابھی تو خیر ہی ہے۔
کریں تو کیا نہ کریں اور جائیں تو کہاں جائیں۔ ہمارے ہوشیار دشمن نے کامیابی کے ساتھ ہمیں ایک ایسی جنگ میں الجھا دیا ہے جس میں اگر ہم اگلے مورچوں میں نہ پہنچ جاتے تو یہ جنگ ہماری آبادیوں میں شروع ہو رہی تھی لیکن ہماری آبادیاں اب بھی محفوظ نہیں ہیں اور دشمن کے ایجنٹ ہمارے گھروں میں آ کر ہمیں قتل کر رہے ہیں ہماری قیمتی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ پشاور سے کراچی تک اور لاہور سے کوئٹہ تک جان لیوا بدامنی پھیل چکی ہے اور ہماری گئی گزری انتظامیہ ہر اہم جگہ کی سیکیورٹی میں مصروف کر دی گئی ہے لیکن ہمارے پاس شاید اتنی سیکیورٹی نہیں ہے کہ اندرون ملک کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنا سکیں۔
ہمارے حکمرانوں کے پاس ہر حادثے کے بعد شدید اظہار افسوس ہے اور تخریب کاروں کو سزا دینے کا پختہ عزم ہے۔ ہماری ریل گاڑیاں تک محفوظ نہیں ہیں اور پٹری سے اتر رہی ہیں جو کبھی ایک حیران کن حادثہ ہوا کرتا تھا۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ سڑکوں پر کوئی خوفناک حادثہ نہیں ہو جاتا جس میں کئی مسافر جاں بحق اور کئی معذور ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی دن کا اخبار کوئی خوش خبری نہیں سناتا اور کوئی ٹی وی چینل کوئی خوش کن منظر نہیں دکھاتا۔
یوں لگتا ہے جیسے اس ملک میں سُکھ چین نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ملک میں غربت اتنی نہیں جتنی حق تلفی اور عدم مساوات ہے۔ خوش حالی تقسیم نہیں کی جاتی صرف غربت تقسیم ہوتی ہے اور کوئی بھی اس سے محروم نہیں ہے۔ غربت کے بارے میں حضور پاکﷺ کا یہ مصدقہ ارشاد ہے کہ 'غریبی انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے'۔ پتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو غریبی و مسکینی کو نیکی کا درجہ دیتے ہیں۔
انسان کبھی جانوروں اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتا تھا لیکن یہ ایک طویل داستان ہے مگر اس وحشی انسان نے مل جل کر زندگی بسر کرنے کا کامیاب منصوبہ بنایا اور رفتہ رفتہ انسانی زندگی ایک نظم و ضبط میں ڈھل گئی جسے اللہ کے پیغمبروں نے بار بار اپنے دور میں آراستہ کیا اور اسے کئی نئے انداز دیے۔ حکومتیں وجود میں آئیں، آئین اور قانون بنائے گئے اور انسان کی جان اور اس کے مال و اسباب کے تحفظ کا بندوبست کیا گیا بلکہ ہر حکومت کے قیام کا مقصد ہی یہی ٹھہرا جان و مال کی حفاظت اب تک دنیا بھر میں انسانی حکومتوں کا بنیادی مقصد یہی امن و امان اور انسانی مال و متاع کا تحفظ ہے۔
جب آپ دیکھیں کہ امن و امان نہیں ہے اور انسانوں کو زندگی کا خطرہ لاحق رہتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی حکومت صحیح نہیں ہے اسے درست ہونا چاہیے یا اسے بدل دینا چاہیے ایک مقررہ مدت میں دوبارہ الیکشن کا مقصد یہی ہے کہ اگر عوام کو حکومت پسند نہیں تو وہ اسے بدل دیں اور اگر پسند ہے تو اسے باقی رکھیں یعنی دانش مند اور تجربہ کار انسانوں نے ہر قومی مرض کا علاج تجویز کر دیا ہے۔ کوئی حکمران نیک نیت اور حساس ہو سکتا ہے لیکن اس کے اندر حکمرانی کی اہلیت نہیں ہوتی تو شرافت یہی ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی بہتر انسان کے لیے خالی کر دے اور اپنی عزت بچا لے۔
یہ صورت حال کسی بھی ملک اور قوم کو پیش آ سکتی ہے۔ یورپی ممالک جو ہمیں اپنے مقابلے میں زیادہ ذمے دار اور ترقی یافتہ دکھائی دیتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں الیکشن میں حکمران بدل جاتے ہیں۔ بالغ نظر قومیں اپنے حالات اور ضرورت کے تحت حکمران بدلتی ہیں۔ ایک وزیر اعظم جنگ کے زمانے میں قوم کا ہیرو ہوتا ہے لیکن جب امن قائم ہو جاتا ہے تو اسے آرام کے لیے گھر بھیج دیا جاتا ہے خواہ وہ ونسٹن چرچل بھی کیوں نہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ قوموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنے حکمران بدل دیں۔ بعض یورپی ملکوں میں بادشاہت قائم ہے لیکن حکمرانی میں اس کا کوئی دخل عمل نہیں ہے۔ حکومت قوم کے منتخب لوگ چلاتے ہیں جو قومی اتحاد اور یگانگت کے مرکز اپنے شاہی خاندان کے سربراہ کے سامنے مودبانہ اپنا تقرر نامہ پیش کرتے ہیں اور اس کی تصدیق ہوتی ہے اور بس۔ یہ شاہی خاندان کسی قوم کو متحد رکھنے کے لیے ایک مرکز بن جاتے ہیں۔ جاپان کا بادشاہ مکمل بے اختیار ہوتا ہے لیکن جنگ اس کے نام پر لڑی جاتی ہے اور جاپانی اس کے تخت و تاج کے لیے جان دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال برطانیہ کے بادشاہ کا ہے جس کے بارے میں مصر کے معزول بادشاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔
عوام کی مرضی اور پسند کی حکومت ہی کسی شریف اور آزاد قوم کی حکومت ہوا کرتی ہے اور اس پسند کی حکومت کی وجہ سے کسی قوم کی دنیا میں کوئی عزت ہوتی ہے۔ جہاں آمریت ہو اور جہاں حکمران عوام کی مرضی کے نہ ہوں اس ملک کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ ہمارے پاکستان میں ہر طرز کی حکومت دیکھی گئی ہے۔ جمہوری بھی آمرانہ بھی اور ناپسندیدہ بھی۔
یہی وجہ ہے کہ ملک نے ترقی کے جس مقام پر آسانی کے ساتھ پہنچ جانا تھا وہ اس دور رہا۔ شکر ہے کہ ان دنوں ایک جمہوری حکومت ہے۔ عوام خوش ہوں یا ناخوش انھوں نے خود ووٹ دے کر اپنے حکمران منتخب کیے ہیں۔ اگر کوئی اپنی پسند پر خوش نہیں ہے تو نئے الیکشن ہی احتیاط کر لے مگر ایک بات کا کسی حد تک صحیح اندازہ ہے کہ فی الحال مارشل لاء کا امکان نہیں ہے۔ ہمارے فوجی سربراہ کی خاتون خانہ نے چند لاکھ کے خوبصورت تحفے شکریئے کے ساتھ واپس کر دیے ہیں۔ بازار کے جیولر وغیرہ بھی خوش ہیں کہ ایک 'عام' گاہک آتا ہے اور حسب توفیق خریداری کر کے چلا جاتا ہے۔ خدا کرے فوج کا سپہ سالار صرف فوج کا سپہ سالار ہی رہے سویلین کا 'سپہ سالار' نہ بنے۔ اس لیے ابھی تو خیر ہی ہے۔