کیا ٹیکسی چلانا جرم ہے

افسوس کی بات تب ہوتی جب کسی بھارتی اخبار میں چھپتا کہ سابق پاکستانی کرکٹر بیرون ملک جوئے کا اڈہ چلا رہا ہے

پاکستان میں یہ پی سی بی کا کام ہے کہ ایسے ٹیسٹ یا فرسٹ کلاس کرکٹرز جو مالی مشکلات کا شکار ہیں ان کی مدد کرے،فوٹو فائل

KARACHI:
''سابق پاکستانی کرکٹر ارشد خان آسٹریلیا میں ٹیکسی چلا رہے ہیں، افسوس''

چند روز قبل سوشل میڈیا پر کسی کی شیئر کردہ یہ معلومات خبر بن کرکئی بھارتی اخبارات میں شائع ہوئی، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، پہلی بات یہ تھی کہ غیرتصدیق شدہ بات کو کیسے 'ٹائمز آف انڈیا' سمیت کئی بڑے بھارتی اخبارات نے شائع کیا، دوسرا یہ کہ کیا ٹیکسی چلانا جرم ہے؟

تھوڑا سوچا تو یہ بات سمجھ آئی کہ ٹیکسی چلانا نہیں بھارتیوں کی نظر میں پاکستانی ہونا جرم ہے،انھیں موقع ملا کہ سابق کرکٹر ہے چلو مذاق اڑاتے ہیں، چلیں ایک لمحے کیلیے مان لیتے ہیں کہ یہ درست ہے تو بھی ارشد خان کے بارے میں یہ جان کر افسوس نہیں بلکہ فخر کرنا چاہیے کہ انھوں نے کبھی اپنے وطن کو نہیں بیچا، ایمانداری سے پہلے کمایا اور اب بھی کما رہے ہیں، ارشد خان کو میں کئی برس سے جانتا ہوں، وہ دھیمے انداز میں بات کرنے والے سلجھے ہوئے انسان ہیں، پٹھان ہونے کی وجہ سے خودداری کوٹ کوٹ کربھری ہے، کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔

جس وقت وہ کرکٹ ٹیم میں تھے میچ فکسنگ کا دور دورہ رہا، بڑے بڑے کھلاڑی سٹے بازوں کے دام میں الجھ گئے، آج اگر آپ بعض سابق کرکٹرز کا موجودہ لائف اسٹائل دیکھیں تو کئی بڑے سیاستدانوں کو بھول جائیںگے، ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ کرپٹ لوگوں کو زیادہ عزت ملتی اور جو ایمانداری سے چار پیسے کمائیں انھیں کمتر سمجھا جاتا ہے،اسی معاشرے میں اب بھی بے شمارایسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے ملک کیلیے پوری لگن سے کرکٹ کھیلی اورعزت کی زندگی گزار رہے ہیں، رہی بات ارشد خان کی تو ایسا قطعی نہیں ہے کہ وہ مالی طور پر بہت کمزور ہو کر ٹیکسی چلانے پر مجبور ہو گئے۔

وہ اچھے خاصے سیٹ ہیں، سڈنی جیسے مہنگے شہر میں ان کا اپنا گھر موجود اور بچے اعلیٰ اسکولز میں پڑھتے ہیں، انھوں نے کئی گاڑیاں خریدی ہوئی ہیں جنھیں کرائے پر چلایا جاتا ہے، ان کی باقاعدہ رجسٹرڈ کمپنی ہے، ساتھ وہ لیول تھری کوچنگ کورس بھی کر رہے ہیں، گذشتہ عرصے ورلڈکپ کے دوران کئی قومی کرکٹرز بھی ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے تھے، ارشد خان سے جب میری بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ '' بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلیے آسٹریلیا منتقل ہوا، جب وہ پڑھ لکھ لیں گے تو واپس اپنے وطن آ جاؤں گا، یہاں کوچنگ کے ساتھ خود بھی کرکٹ کھیل رہا ہوں،بڑھتی عمر بھی کارکردگی کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔''


یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹرزکے زیادہ پڑھائی کرنے کا رواج نہیں ہے، آج فر فر انگریزی بولتے ہوئے بعض کھلاڑیوں کو دیکھ کر کنفیوز نہ ہوں، وہ بھی میٹرک اور انٹر پاس ہیں مگر انھوں نے اپنے آپ کوبہت گروم کیا، بہت سے سابق کرکٹرز کسی نہ کسی طرح پی سی بی میں آ گئے۔

پھر کرسی سے ایسے چمٹے کہ اب عمر مکمل کرنے کے بعد ہی جائیں گے، ان کے پاس ڈگری نہ کوئی قابلیت ہے، صرف خوشامدیاکسی بڑے سابق کھلاڑی و اعلیٰ شخصیت کی سفارش پر ملازمت مل گئی، اب بڑے بڑے افسران ان سے بلیک میل ہوتے ہیں اور کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا،بعض کھلاڑیوں کو کرکٹ کیریئر کے دوران قومی اداروں میں ملازمتیں ملیں اور وہ ارب پتی ہونے کے باوجود اب بھی ہر ماہ بے چینی سے چند ہزار روپے کے چیک کا انتظار کرتے ہیں، اب کم پڑھے لکھے کرکٹرز اگر بیرون ملک اپنا مستقبل بنانا چاہیں تو اتنی آسانی سے کوئی ملازمت نہیں ملے گی۔

وقار یونس بہت بڑے کھلاڑی رہے، پاکستانی نژاد آسٹریلوی خاتون سے شادی نے انھیں وہاں کی شہریت دلا دی، مگر ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود کینگرو ٹیم سے بطور بولنگ کوچ منسلک نہ ہو سکے،مشکوک ماضی ان کے آڑے آتا رہا، البتہ ثقلین مشتاق جیسے لوگ خوش قسمت رہے جنھیں انگلینڈ اور دیگر ممالک میں کئی مواقع ملے، ارشد خان کے بارے میں بھی یہ نہ سمجھیں کہ وہ خدانخواستہ بہت بُرے حالات کا شکار ہیں،پشاور میں بھی ان کا پوش علاقے میں مہنگا گھر تھا، وہ کوچنگ و دیگر ذرائع آمدنی سے اچھی زندگی گزار رہے تھے، اب آسٹریلیا میں بھی عزت سے روزی روٹی کما رہے ہیں۔

ان کا مستحکم کاروبار ہے، افسوس کی بات تب ہوتی جب کسی بھارتی اخبار میں چھپتا کہ سابق پاکستانی کرکٹر بیرون ملک جوئے کا اڈہ چلا رہا ہے یا شراب خانہ کھول لیا،بھارت کا تو کام ہی کسی نہ کسی بہانے پاکستان سے جڑی منفی خبریں سامنے لانا ہے، انھیں بتاتا چلوں کہ ارشد خان یا کسی اور پاکستانی کو ان کی ہمددری درکار نہیں، ان کی فکر میں دبلے نہ ہوں وہ بھارتیوں کواپنے اسپورٹس مینز کا حال دیکھنا چاہیے، کوئی بیچارہ میڈل بیچ رہا تو کسی نے ٹھیلا لگایا ہوتا ہے، ان کے بارے میں کچھ لکھیں تو شاید بھلا ہو جائے۔

پاکستان میں یہ پی سی بی کا کام ہے کہ ایسے ٹیسٹ یا فرسٹ کلاس کرکٹرز جو مالی مشکلات کا شکار ہیں ان کی مدد کرے، جنھوں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت اس کھیل کو دیا اب اگر انھیں کوئی ضرورت ہے تو اسے پورا کرنا بورڈ کی ذمہ داری ہے، بہت سے خوددار لوگ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، حکام خود تلاش کریں کہ کون سا ایسا کرکٹر ہے جس کی مالی حالت ٹھیک نہیں، پھر خاموشی سے اس کی مدد کر دی جائے، جہاں بغیر کام کیے کئی افسران کو بھاری تنخواہیں دے دی جاتی ہیں وہیں کچھ مستحق کھلاڑیوں کی مدد ہو جائے تو اس میں کوئی بُری بات نہیں ہوگی۔
Load Next Story