میاں خورشید کا تحفہ
راوی کے کنارے آباد خوش منظر اور خوش مزاج شہر لاہور کو تاریخ نے یاد گار زمانہ لوگوں کا مسکن بنا دیا ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
راوی کے کنارے آباد خوش منظر اور خوش مزاج شہر لاہور کو تاریخ نے یاد گار زمانہ لوگوں کا مسکن بنا دیا ہے۔ اس کی طویل تاریخ میں وقت کے عالی مرتبت بادشاہ اور شاندار حسن و جمال کی مالک کئی ملکہ بھی شامل ہیں اور پھر صوفیاء کرام جنہوں نے لاہور کو ایک قابل رشک زندگی عطا کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی زندگی اور ان کے دن رات آباد درباروں کی رونقیں اور خلق خدا کے لیے فیض عام۔ اس شہر میں زندگی کے کئی شعبوں کے نامور لوگ بھی نقل مکانی کرکے آباد ہو گئے۔
ان لوگوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی ہیں، جامعہ اشرفیہ کے مفتی محمد حسن بھی شامل ہیں۔ ایسے اور بھی کئی بلند پایہ شخصیتیں ہیں جن کو قدرت نے اس شہر کا راستہ دکھایا اور اپنی زندگی کے کسی بلند مقصد کی تکمیل کے لیے اس شہر کے گلی کوچے ان کے سامنے رکھ دیے۔ ان یاد گار زمانہ شخصیتوں میں سیالکوٹ کے علامہ محمد اقبال بھی ہیں اور اس شہر کے فیض احمد فیض بھی۔ سیاست کا حوالہ دیں تو پورے برصغیر میں اس کا نام اونچا ہے۔
درس و تدریس کی بات کریں تو اس شہر کے کسی کونے میں علم و فضل کے محل بھی ملتے ہیں اور کتنے ہی عالی مقام علماء کرام کی فرودگاہیں بھی۔ اس شہر میں افراد ہی نہیں کئی خاندان بھی آباد ہو گئے جنہوں نے اس شہر میں نام بنایا اور کمایا۔ قصوری علماء اور فضلاء کا ایک سلسلہ بھی اسی شہر میں آگے بڑھا،اس شہر نے ایسے خاندانوں کو بہت کچھ دیا تو ان خاندانوں نے بھی اس کے عوض میں شہر کو ایک نئی زندگی دی۔ میاں محمود علی قصوری اس خاندان کے ایک کلاسیکل بزرگ تھے۔
بہت ہی بڑے وکیل اور بہت بڑے سیاستدان اور بہت ہی فراخدل اور مہربان انسان جن کا اس کالم نگار کی صحافت کی تعمیر میں بہت بڑا حصہ تھا۔ میاں صاحب قبلہ کے بڑے صاحبزادے میاں خورشید محمود قصوری پاکستان کے وزیر خارجہ رہے اور انھوں نے اس اہم منصب کے تجربات، مشاہدات اور حالات زمانہ کو ایک طویل کتاب میں قلمبند کر دیا ہے۔ پاکستان کے یہ پہلے وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے اس قوم کو خارجہ امور سے بلاتکلف آشنا کیا ہے ان کی باریکیاں، نزاکتیں اور الجھنیں تک بیان کر دی ہیں۔
انھوں نے کتاب پر کوئی چار برس زائد وقت صرف کیا اور اسے ایک قومی دستاویز بنا دیا۔ پاک و ہند تعلقات اور کشمیر کے اہم ترین مسئلے پر انھوں نے بہت کچھ کہہ دیا ہے اور کئی راز افشاء کر دیے ہیں۔ انھوں نے اپنی یہ یادداشتیں ایک کتاب میں بند کر دی ہیں۔ اس انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب کا انگریزی نام ہے۔ (NEITHER A HAWK,NOR A DOVE) اس نام سے ایک متوازن کتاب دے دی ہے۔ اس کتاب کو دو اشاعتی اداروں نے چھاپا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور پینگوئن پبلیشر۔
یہ ضخیم کتاب اس وقت تک امور خارجہ پر ایک مستند کتاب ہ۔
ے جس میں پوری ذمے داری کے ساتھ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ پاکستانی اب اپنے خارجہ امور سے اتنے ہی واقف ہو سکتے ہیں جتنے ہمارے فارن آفس والے خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے بارے میں۔ اس سے پہلے ہمارے پاس اپنے خارجہ امور کے بارے میں معلومات بہت محدود تھیں اور شاید ناقابل اعتبار بھی۔
جناب خورشید صاحب نے یہ کمی پوری کر دی ہے اور سچ بات ہے کہ انھوں نے اپنی قوم پر ایک احسان کیا ہے ایک ایسا احسان جس کی یہ قوم ضرورت مند تھی اور ممنون رہے گی اس کے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں اور امور خارجہ کے متلاشی اور اس شعبے کے محقق افراد کا کام بہت آسان ہو گیا ہے ان سب کے لیے ایک مستند دستاویز موجود ہے۔ ہمارے ہاں شاید ہی کسی موضوع پر ایسی تحقیق کی گئی ہو۔
ہمارے وزیر خارجہ تو بہت رہے ہیں۔ آجکل اگر کوئی نہیں تو یہ ایک تاریخی استثناء ہے جو ایک لطیفہ بن کر یاد رہے گا۔ آج سے پہلے یہ ملک کبھی وزارت خارجہ جیسے اہم ترین شعبے کی وزارت سے محروم نہیں رہا اس میں ضرور کوئی حکمت ہو گی جو حکمرانوں کے علم ہی میں ہو گی لیکن جب کبھی وزیر خارجہ رہے بھی ہیں تو کسی نے بھی پوری تفصیل اور ذمے داری کے ساتھ اپنے دورکو قلمبند نہیں کیا ہے حالانکہ آج کے دور میں سب سے زیادہ اہم وزارت خارجہ ہے جس کے ذریعہ کسی ملک کے عالمی تعلقات اور حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ وزارت ملک کی ساکھ برقرار رکھتی ہے۔
ہمارے سابقہ وزرائے خارجہ نے کبھی اکا دکا مضامین شاید لکھے ہوں لیکن میاں خورشید محمود کی طرح پتہ ماری نہیں کی اور قوم کو اس کے خارجہ امور سے آگاہ نہیں کیا اور وہ بھی پوری ذمے داری کے ساتھ کیونکہ خارجہ امور بہت نازک معاملات ہیں اور ہمارے جیسے نصف صدی سے زائد عمر کے ملک کے لیے تو یہ امور یوں بھی بہت اہم ہیں کہ ہمیں اس دوران ایک چالاک دشمن سے مسلسل واسطہ رہا ہے اور کشمیر ایسے مسئلے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہے ہیں اور جن پر سمجھوتہ نہیں ہو سکا۔
علاوہ ان مسائل کے ہم جنگوں میں بھی مصروف رہے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی سبب لازم ہو گا۔ یہ بھی وزارت دفاع سے زیادہ وزارت خارجہ کا معاملہ ہے۔ اپنے ہمسائے کے ساتھ ہم ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھے رہے ہیں اور ہماری اس سے جان نہیں چھوٹ سکی بہر کیف جب تک پوری قوم حالات سے باخبر ہو نجات کا راستہ نہیں مل سکتا۔
جناب خورشید نے قوم کو اس کتاب کی صورت میں ایک تحفہ دیا ہے جس پر انھوں نے بہت زیادہ محنت کی ہے اگر بڑے میاں صاحب بقید حیات ہوتے تو بہت خوش ہوتے اتنے خوش کہ کتاب پر محنت کا پھل مل جاتا۔ کتاب چونکہ انگریزی میں ہے اس لیے عام پاکستانی اس سے مستفید نہیں ہو سکتا، میاں صاحب اس کے اردو ایڈیشن کا اہتمام ضرور کریں تاکہ ان کا یہ تحفہ پوری قوم تک یکساں پہنچ سکے۔
میں کتاب کی شاندار تقریب اور اس کے مہمان خصوصی مانی شنکر آئر کا ذکر کل کروں گا ان کے ساتھ میری ایک تاریخی یاد وابستہ ہے جس کا ذکر مناسب ہوگا۔
ان لوگوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی ہیں، جامعہ اشرفیہ کے مفتی محمد حسن بھی شامل ہیں۔ ایسے اور بھی کئی بلند پایہ شخصیتیں ہیں جن کو قدرت نے اس شہر کا راستہ دکھایا اور اپنی زندگی کے کسی بلند مقصد کی تکمیل کے لیے اس شہر کے گلی کوچے ان کے سامنے رکھ دیے۔ ان یاد گار زمانہ شخصیتوں میں سیالکوٹ کے علامہ محمد اقبال بھی ہیں اور اس شہر کے فیض احمد فیض بھی۔ سیاست کا حوالہ دیں تو پورے برصغیر میں اس کا نام اونچا ہے۔
درس و تدریس کی بات کریں تو اس شہر کے کسی کونے میں علم و فضل کے محل بھی ملتے ہیں اور کتنے ہی عالی مقام علماء کرام کی فرودگاہیں بھی۔ اس شہر میں افراد ہی نہیں کئی خاندان بھی آباد ہو گئے جنہوں نے اس شہر میں نام بنایا اور کمایا۔ قصوری علماء اور فضلاء کا ایک سلسلہ بھی اسی شہر میں آگے بڑھا،اس شہر نے ایسے خاندانوں کو بہت کچھ دیا تو ان خاندانوں نے بھی اس کے عوض میں شہر کو ایک نئی زندگی دی۔ میاں محمود علی قصوری اس خاندان کے ایک کلاسیکل بزرگ تھے۔
بہت ہی بڑے وکیل اور بہت بڑے سیاستدان اور بہت ہی فراخدل اور مہربان انسان جن کا اس کالم نگار کی صحافت کی تعمیر میں بہت بڑا حصہ تھا۔ میاں صاحب قبلہ کے بڑے صاحبزادے میاں خورشید محمود قصوری پاکستان کے وزیر خارجہ رہے اور انھوں نے اس اہم منصب کے تجربات، مشاہدات اور حالات زمانہ کو ایک طویل کتاب میں قلمبند کر دیا ہے۔ پاکستان کے یہ پہلے وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے اس قوم کو خارجہ امور سے بلاتکلف آشنا کیا ہے ان کی باریکیاں، نزاکتیں اور الجھنیں تک بیان کر دی ہیں۔
انھوں نے کتاب پر کوئی چار برس زائد وقت صرف کیا اور اسے ایک قومی دستاویز بنا دیا۔ پاک و ہند تعلقات اور کشمیر کے اہم ترین مسئلے پر انھوں نے بہت کچھ کہہ دیا ہے اور کئی راز افشاء کر دیے ہیں۔ انھوں نے اپنی یہ یادداشتیں ایک کتاب میں بند کر دی ہیں۔ اس انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب کا انگریزی نام ہے۔ (NEITHER A HAWK,NOR A DOVE) اس نام سے ایک متوازن کتاب دے دی ہے۔ اس کتاب کو دو اشاعتی اداروں نے چھاپا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور پینگوئن پبلیشر۔
یہ ضخیم کتاب اس وقت تک امور خارجہ پر ایک مستند کتاب ہ۔
ے جس میں پوری ذمے داری کے ساتھ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ پاکستانی اب اپنے خارجہ امور سے اتنے ہی واقف ہو سکتے ہیں جتنے ہمارے فارن آفس والے خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے بارے میں۔ اس سے پہلے ہمارے پاس اپنے خارجہ امور کے بارے میں معلومات بہت محدود تھیں اور شاید ناقابل اعتبار بھی۔
جناب خورشید صاحب نے یہ کمی پوری کر دی ہے اور سچ بات ہے کہ انھوں نے اپنی قوم پر ایک احسان کیا ہے ایک ایسا احسان جس کی یہ قوم ضرورت مند تھی اور ممنون رہے گی اس کے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں اور امور خارجہ کے متلاشی اور اس شعبے کے محقق افراد کا کام بہت آسان ہو گیا ہے ان سب کے لیے ایک مستند دستاویز موجود ہے۔ ہمارے ہاں شاید ہی کسی موضوع پر ایسی تحقیق کی گئی ہو۔
ہمارے وزیر خارجہ تو بہت رہے ہیں۔ آجکل اگر کوئی نہیں تو یہ ایک تاریخی استثناء ہے جو ایک لطیفہ بن کر یاد رہے گا۔ آج سے پہلے یہ ملک کبھی وزارت خارجہ جیسے اہم ترین شعبے کی وزارت سے محروم نہیں رہا اس میں ضرور کوئی حکمت ہو گی جو حکمرانوں کے علم ہی میں ہو گی لیکن جب کبھی وزیر خارجہ رہے بھی ہیں تو کسی نے بھی پوری تفصیل اور ذمے داری کے ساتھ اپنے دورکو قلمبند نہیں کیا ہے حالانکہ آج کے دور میں سب سے زیادہ اہم وزارت خارجہ ہے جس کے ذریعہ کسی ملک کے عالمی تعلقات اور حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ وزارت ملک کی ساکھ برقرار رکھتی ہے۔
ہمارے سابقہ وزرائے خارجہ نے کبھی اکا دکا مضامین شاید لکھے ہوں لیکن میاں خورشید محمود کی طرح پتہ ماری نہیں کی اور قوم کو اس کے خارجہ امور سے آگاہ نہیں کیا اور وہ بھی پوری ذمے داری کے ساتھ کیونکہ خارجہ امور بہت نازک معاملات ہیں اور ہمارے جیسے نصف صدی سے زائد عمر کے ملک کے لیے تو یہ امور یوں بھی بہت اہم ہیں کہ ہمیں اس دوران ایک چالاک دشمن سے مسلسل واسطہ رہا ہے اور کشمیر ایسے مسئلے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہے ہیں اور جن پر سمجھوتہ نہیں ہو سکا۔
علاوہ ان مسائل کے ہم جنگوں میں بھی مصروف رہے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی سبب لازم ہو گا۔ یہ بھی وزارت دفاع سے زیادہ وزارت خارجہ کا معاملہ ہے۔ اپنے ہمسائے کے ساتھ ہم ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھے رہے ہیں اور ہماری اس سے جان نہیں چھوٹ سکی بہر کیف جب تک پوری قوم حالات سے باخبر ہو نجات کا راستہ نہیں مل سکتا۔
جناب خورشید نے قوم کو اس کتاب کی صورت میں ایک تحفہ دیا ہے جس پر انھوں نے بہت زیادہ محنت کی ہے اگر بڑے میاں صاحب بقید حیات ہوتے تو بہت خوش ہوتے اتنے خوش کہ کتاب پر محنت کا پھل مل جاتا۔ کتاب چونکہ انگریزی میں ہے اس لیے عام پاکستانی اس سے مستفید نہیں ہو سکتا، میاں صاحب اس کے اردو ایڈیشن کا اہتمام ضرور کریں تاکہ ان کا یہ تحفہ پوری قوم تک یکساں پہنچ سکے۔
میں کتاب کی شاندار تقریب اور اس کے مہمان خصوصی مانی شنکر آئر کا ذکر کل کروں گا ان کے ساتھ میری ایک تاریخی یاد وابستہ ہے جس کا ذکر مناسب ہوگا۔