دورہ وادی نیلم

لہلہاتے جنگلات، خوبصورت وادیاں حیرت ذدہ کر دینے والی چوٹیاں اور محبت سےبھرےسادہ مزاج پُرخلوص لوگ، یہ ہے پیارا پاکستان۔

اس یاد گار اور خوشگوار سفر کے ساتھ اپنے پرُ خلوص میزبانوں کو بھی ہم کبھی نہ بُھلا سکیں گے۔ فوٹو :فائل

یہ کوئی لفاظی نہیں حقیقت ہے کہ ہے کہ ہمارا ملک پاکستان جنت سے کم نہیں۔ دلکش اور رواں دریا، لہلہاتے جنگلات، خوبصورت وادیاں حیرت ذدہ کر دینے والی چوٹیاں اور محبت سے بھرے لوگ، کیا ہی خوب منظر ہوتا ہے جب ہم ملک میں جاری دہشت گردی، مہنگائی، فرقہ واریت اور لاقانونیت کو ذہن سے نکالتے ہیں تو ملک پاکستان جنت نظیر محسوس ہوتا ہے، یہ اتفاق ہمیں کراچی سے 1930 کلو میٹر دور وادی نیلم جا کر ہوا۔ ہم نے اپنا سفر کراچی سے شروع کیا اور لاہور سے ہوتے ہوئے مانسہرہ پہنچے اور مانسہرہ سے ہوتے ہوئے با لاکوٹ، بسیاں، مظفرآباد، دودھنیال، کیل، سونر، شاردہ، صابری آبشار، اور کچھ فاصلہ پر تائوبٹ تک حسین وادیوں کا نظارہ کیا۔







سفر کے دوران پاک آرمی کی چیک پوسٹ پر ہم نے نمازِ مغرب اور نمازِ عشاء ادا کی، ایک بات قابلِ ذکر رہی کہ وہاں کے مقامی لوگوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دودھنیال میں ہمیں رات کا قیام کرنا تھا لیکن مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے جن صاحب کے گھر ہمیں رات رکنا تھا وہ صاحب ہمیں نہیں مل سکے اور اب جب ہمیں سخت سردی میں رات کے لیے قیام گاہ نظر نہ آئی تو ہم مسجد کی طرف ہو لئے، مگر عین اُسی وقت ایک بزرگ شخص سے ملاقات ہوئی اور خیریت دریافت کے بعد ہم سے تمام روئیداد پوچھی اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اِس لیے گھبرائیں مت بلکہ میرے ساتھ چلیں۔ اُنہوں نے نا قابلِ برداشت سردی میں ہمارے سخت انکار کے باوجود ہمارے لئے رہنے کا بہترین انتظام کیا، صرف یہی نہیں بلکہ پھر صبح پُر تکلف ناشتہ بھی ہمارے لئے تیار تھا۔ ناشتے کے دوران انہوں نے ہمارے پروگرام سے متعلق معلومات حاصل کیں اور اپنے بیٹے شفقت کو ہمارے ساتھ کر دیا کہ یہ آگے کہ تمام سفر میں آپ لوگوں کی رہنمائی کرے گا۔ یہ جذبہ دیکھ کر حیرانی کی انتہا نہ تھی کہ اس نفسہ نفسی کے دور میں جہاں کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں اتنی مہمان نوازی دل ماننے کو تیار نہ تھا۔







ہم نے بزرگ سے رخصت لی اور شاردہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ راستے میں حسین نظاروں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چشموں سے تازہ اور ٹھنڈا پانی پی کر طبیعت پُر لطف ہوگئی۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت گاؤں، صبح صبح ہنسی خوشی اسکول جاتے ہوئے بچے اور ساتھ میں چلتا ہوا دریائے نیلم اور اس کے ساتھ ہمارے جیپ کے ڈرائیور فرہاد صاحب کا مزاجِ پرُ بہار۔ شاردہ پر قاسم بھائی نے ہمارا استقبال کیا۔ شاردہ میں قدیم یونیورسٹی کے کھنڈرات دیکھے اور یونیوورسٹی آف شاردہ کا دورہ کیا، پھر قاسم بھائی کے ساتھ چائے پی اور صابری آبشار کی طرف روانہ ہو گئے۔ قاسم بھائی نے اس شرط پر روانہ کیا کہ آج کی رات ہمیں ان کے پاس قیام کرنا ہوگا۔ تقریباً 1 گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم صابری آبشار پر پنہچے اور تصویر کشی شروع کردی۔ ساتھیوں کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کسی نے نہ اِس سے پہلے آبشار کا نظارا کیا تھا اور نہ وہ کبھی بعد میں کریں گے۔ سب ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرکے تصاویر بنوانے لگے۔ آبشار پر سیر و تفریح کے بعد ہم جب شاردہ واپس پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔










رات گذارنے کا انتظام نذیر بھائی کے گھر کیا گیا تھا۔ جب ہم لکڑی کے ڈبل اسٹوری گھر کی اوپری منزل کے کمرے میں داخل ہوئے تو نذیر بھائی نے انگھیٹی میں ہمارے لئے آگ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کمرے میں 5 منٹ بیٹھ کر سردی کا نام و نشان تک نہ رہا، رات میں شاندار ضیافت کی گئی جس کے بعد باتوں کی نشست شروع ہوئی۔ قاسم بھائی کی خوشی اور غم سے بھری گفتگو اور نذیر بھائی کے شکار کی داستان سننے میں رات 11 کا وقت ہوگیا اور میزبان ہم سے رخصت لیکر چل دئے تو ہم بھی نے فرصت سے پیر پسارے۔









جب صبح ہوئی تو گزشتہ رات کی طرح اِس بار بھی ناشتے کا بھرپور انتظام کیا گیا تھا۔ ناشتے کی فراغت کے بعد قاسم بھائی نے لکڑی کا تراشیدہ فن پارہ مجھے تحفہ میں دیا، جسے بڑی نفاست اور عرق ریزی سے تیار کیا گیا تھا، قابلِ ذکر بات یہ کہ لکڑی پر مکمل طور پر ہاتھ سے کام گیا تھا۔ میرے لئے یہ تحفہ اتنا قیمتی ہے جس کو بیان کرنا نہ ممکن ہے۔ شاردہ سے ہلکی ہلکی بونداباندی میں ہم کیرن پنہچے۔ یہاں پہنچنے پر اندازہ ہوا کہ انڈیا اور پاکستان ایک دریا کے فاصلہ پر تھے۔ کیرن میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم واپسی کی طرف گامزن ہو لئے اور رات کے اندھیرے میں پہاڑوں پر چلتی گاڑیاں، سردی کی شدت اور پہاڑوں کی اونچائی سے مظفرآباد کا نظارہ نہایت خوبصورت تھا اور اس یاد گار اور خوشگوار سفر کے ساتھ اپنے پرُ خلوص میزبانوں کو بھی ہم کبھی نہ بُھلا سکیں گے۔









نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story