یہ تھا جمہوری پاکستان
پاکستان سمیت آج دنیا بھر میں جمہوریت کویاد کیا جا رہا ہے اوراس دن کا نعرہ یہ ہے کہ جمہوریت ہر حال میں آمریت سے بہتر ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
پاکستان سمیت آج دنیا بھر میں جمہوریت کو یاد کیا جا رہا ہے اور اس دن کا نعرہ یہ ہے کہ جمہوریت ہر حال میں آمریت سے بہتر ہے۔ دنیا بھر میں قریب قریب جتنے بھی ملک ہیں وہ بادشاہت یا قبائلی سرداری سے نکل کر جمہوری کہلائے ہیں سوائے ایک ملک پاکستان کے جو پیدا ہی جمہوریت کی آغوش میں ہوا اور جس کی بنیاد صرف اور صرف جمہوریت پر رکھی گئی۔
پاکستان کو اس کے عوام کی بدقسمتی سے آمریت کے اتنے چرکے سہنے پڑے ہیں کہ پاکستانی کسی نہ کسی طرز کی آمریت کے زیر سایہ ہونے کے باوجود دن رات نام جمہوریت کا لیتے ہیں اور اس کی تلاش میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب ذرا پاکستان کے قیام کو یاد کیجیے یہ ملک اس لیے قائم ہوا کہ اس کے مجوزہ باشندے جمہوریت کی طاقت سے اپنے لیے ایک ملک حاصل کرنا چاہتے تھے ورنہ ان کے پاس کوئی دوسری ایسی طاقت نہیں تھی جو انھیں جمہوریت دلا سکتی ہے۔
انگریز ہندوستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے اگرچہ برطانیہ میں اپوزیشن جس کے لیڈر سر ونسٹن چرچل تھے ہندوستان کو اس وقت آزادی دینے کے حق میں نہیں تھے اور زیادہ نہیں تو پچاس برس تک وہ مزید حکمرانی کو ممکن سمجھتے تھے لیکن برطانیہ کی مقتدر حکومت کے وزیراعظم ایٹلی نے آزادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اتنے بڑے ہندوستان میں اتنے زیادہ مسلمانوں کا کیا جائے جو اس ملک میں اپنے ایک ملک کے طلب گار تھے۔
کہیں کہیں سے ایک مطالبہ تو یہ بھی سامنے آتا تھا کہ انگریزوں نے یہ ملک مسلمان حکمرانوں سے حاصل کیا تھا اس لیے اب وہ اسے مسلمانوں کے حوالے کر دیں یعنی مسلمانوں کو واپس کر دیں لیکن عالمی حالات اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف موجود طاقتوں نے زیادہ سے زیادہ یہ مہربانی کی کہ ہندوستان میں سے اس کا ایک حصہ کسی مسلمان حکومت کے حوالے کر دیا جسے پاکستان کا نام دیا گیا دیا گیا تھا اور جس کی قیادت حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے۔
ایک ایسی دانشمندانہ قیادت جس نے ہندو اور انگریز دونوں کو سیاسی شکست دے کر پاکستان قائم کر دیا اور یہ سیاسی شکست صرف اور صرف جمہوریت سے دی گئی اور برصغیر کے مسلمانوں کے جمہوری اتحاد نے پاکستان قائم کر دیا۔ اس کے پیچھے نہ کوئی آمر تھا نہ کوئی بادشاہ تھا صرف مسلمان عوام تھے اور ان کا قائد محمد علی جناح تھا۔ اس لیے یہ تاریخی طور پر طے ہے کہ پاکستان جو صفحہ ہستی پر پہلے سے موجود نہیں تھا مسلمانوں کے رائے عامہ کی طاقت سے قائم ہوا یعنی جمہوریت کی طاقت سے اور یوں جمہوریت نے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا ملک قائم کر دیا۔ اس سے قبل تاریخ ہمیں کسی ایسے نئے ملک کا پتہ نہیں دیتی۔
گویا انسانی تاریخ نے روئے زمین پر دنیا کو ایک نیا جمہوری ملک عطا کیا اس لیے جمہوریت کو یاد کرنے کا جتنا حق پاکستان کو حاصل ہے اتنا کسی دوسرے ملک کو نہیں ہے کیونکہ جتنے بھی باقاعدہ ملک ہیں وہ سب کسی نہ کسی قسم کی آمریت سے نکل کر وجود میں آئے ہیں۔ صرف پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو صحیح اور مسلمہ جمہوریت کی پیداوار ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے جو پاکستان کے حق میں صادر ہو چکا ہے۔
جن پراگندہ حالات اور مخالفوں کے ہجوم میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا ان میں یہ ممکن نہ تھا کہ جمہوریت کے نظریات کو پاکستان کی سیاسی قیادت میں راسخ کیا جاتا اور پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم جمہوری ملک کے طور پر آگے بڑھتا بلکہ تعجب ہوتا ہے کہ اس نئے ملک پر بہت جلد پہلا حملہ آمریت نے کیا اور ایک فوجی بزور طاقت اور اسلحہ ملک کا حکمران بن گیا۔
حالات سے گھبرائی ہوئی قوم نے جو پہلے کی غیر مستحکم حکومت سے نالاں تھی آمریت کو تسلیم کر لیا اور اس جمہوریت کو بھول گئی جس کی طاقت سے یہ نادر روز گار ملک وجود میں آیا تھا۔ اس پہلی آمریت نے گویا آمریت کا راستہ کھول دیا پے در پے فوجی حکمران آتے گئے اور سویلین حکومتوں کی مدت کم سے کم ہوتی گئی اور جمہوریت آئی بھی تو مہمان بن کر ملک کی مالک بن کر نہیں۔ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کوئی ایسا چکر چلا کہ آج بھی جب ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہے پاکستانی فوج کے سربراہ کا راستہ دیکھ رہے ہیں اور اس کی حکومت کے لیے بے چین ہیں اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مسلسل آمریت اور بیچ میں جمہوری وقفوں میں بھی پاکستان نے بھارت ایسے پیدائشی دشمن کے سامنے زندگی کرنے کا فن سیکھ لیا اور اپنے تحفظ کے لیے دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ایٹم بم بنا لیا۔
یہ ایٹم بم کسی فوجی حکومت میں نہیں ایک خالصتاً سول حکومت میں بنایا گیا۔ ایک جمہوری حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے اس بم کی بنیاد رکھی اور ایسی مضبوط بنیاد کہ اس کی حکومت کے جانے کے باوجود ایٹم بم پر دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود کام جاری رہا۔ کچھ سامان باہر سے منگوایا جاتا تھا جو یورپ کی کسی ائر پورٹ پر پکڑا بھی جاتا لیکن اسی سامان کی ایک دوسری کھیپ کراچی میں جہاز سے اتر رہی ہوتی۔
بہر کیف اس قوم نے جمہوریت کی اصل طاقت سے محروم ہونے کے باوجود اپنا وجود قائم رکھا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی مبینہ جمہوریت کا مقابلہ بھی کیا۔ اگر کچھ بزدل اور غدار پیدا نہ ہو جاتے تو ملک کا اتحاد باقی رہتا لیکن دو ٹکڑے ہونے کے باوجود پاکستان آج ایک طاقت ہے اور اپنی اس جمہوریت کی تلاش میں ہیں جس نے اسے پیدا کیا تھا۔ اگر پاکستان میں جمہوریت زندہ ہوتی تو پھر نہ جانے یہ ملک کیا ہوتا۔
پاکستان کو اس کے عوام کی بدقسمتی سے آمریت کے اتنے چرکے سہنے پڑے ہیں کہ پاکستانی کسی نہ کسی طرز کی آمریت کے زیر سایہ ہونے کے باوجود دن رات نام جمہوریت کا لیتے ہیں اور اس کی تلاش میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب ذرا پاکستان کے قیام کو یاد کیجیے یہ ملک اس لیے قائم ہوا کہ اس کے مجوزہ باشندے جمہوریت کی طاقت سے اپنے لیے ایک ملک حاصل کرنا چاہتے تھے ورنہ ان کے پاس کوئی دوسری ایسی طاقت نہیں تھی جو انھیں جمہوریت دلا سکتی ہے۔
انگریز ہندوستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے اگرچہ برطانیہ میں اپوزیشن جس کے لیڈر سر ونسٹن چرچل تھے ہندوستان کو اس وقت آزادی دینے کے حق میں نہیں تھے اور زیادہ نہیں تو پچاس برس تک وہ مزید حکمرانی کو ممکن سمجھتے تھے لیکن برطانیہ کی مقتدر حکومت کے وزیراعظم ایٹلی نے آزادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اتنے بڑے ہندوستان میں اتنے زیادہ مسلمانوں کا کیا جائے جو اس ملک میں اپنے ایک ملک کے طلب گار تھے۔
کہیں کہیں سے ایک مطالبہ تو یہ بھی سامنے آتا تھا کہ انگریزوں نے یہ ملک مسلمان حکمرانوں سے حاصل کیا تھا اس لیے اب وہ اسے مسلمانوں کے حوالے کر دیں یعنی مسلمانوں کو واپس کر دیں لیکن عالمی حالات اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف موجود طاقتوں نے زیادہ سے زیادہ یہ مہربانی کی کہ ہندوستان میں سے اس کا ایک حصہ کسی مسلمان حکومت کے حوالے کر دیا جسے پاکستان کا نام دیا گیا دیا گیا تھا اور جس کی قیادت حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے۔
ایک ایسی دانشمندانہ قیادت جس نے ہندو اور انگریز دونوں کو سیاسی شکست دے کر پاکستان قائم کر دیا اور یہ سیاسی شکست صرف اور صرف جمہوریت سے دی گئی اور برصغیر کے مسلمانوں کے جمہوری اتحاد نے پاکستان قائم کر دیا۔ اس کے پیچھے نہ کوئی آمر تھا نہ کوئی بادشاہ تھا صرف مسلمان عوام تھے اور ان کا قائد محمد علی جناح تھا۔ اس لیے یہ تاریخی طور پر طے ہے کہ پاکستان جو صفحہ ہستی پر پہلے سے موجود نہیں تھا مسلمانوں کے رائے عامہ کی طاقت سے قائم ہوا یعنی جمہوریت کی طاقت سے اور یوں جمہوریت نے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا ملک قائم کر دیا۔ اس سے قبل تاریخ ہمیں کسی ایسے نئے ملک کا پتہ نہیں دیتی۔
گویا انسانی تاریخ نے روئے زمین پر دنیا کو ایک نیا جمہوری ملک عطا کیا اس لیے جمہوریت کو یاد کرنے کا جتنا حق پاکستان کو حاصل ہے اتنا کسی دوسرے ملک کو نہیں ہے کیونکہ جتنے بھی باقاعدہ ملک ہیں وہ سب کسی نہ کسی قسم کی آمریت سے نکل کر وجود میں آئے ہیں۔ صرف پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو صحیح اور مسلمہ جمہوریت کی پیداوار ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے جو پاکستان کے حق میں صادر ہو چکا ہے۔
جن پراگندہ حالات اور مخالفوں کے ہجوم میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا ان میں یہ ممکن نہ تھا کہ جمہوریت کے نظریات کو پاکستان کی سیاسی قیادت میں راسخ کیا جاتا اور پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم جمہوری ملک کے طور پر آگے بڑھتا بلکہ تعجب ہوتا ہے کہ اس نئے ملک پر بہت جلد پہلا حملہ آمریت نے کیا اور ایک فوجی بزور طاقت اور اسلحہ ملک کا حکمران بن گیا۔
حالات سے گھبرائی ہوئی قوم نے جو پہلے کی غیر مستحکم حکومت سے نالاں تھی آمریت کو تسلیم کر لیا اور اس جمہوریت کو بھول گئی جس کی طاقت سے یہ نادر روز گار ملک وجود میں آیا تھا۔ اس پہلی آمریت نے گویا آمریت کا راستہ کھول دیا پے در پے فوجی حکمران آتے گئے اور سویلین حکومتوں کی مدت کم سے کم ہوتی گئی اور جمہوریت آئی بھی تو مہمان بن کر ملک کی مالک بن کر نہیں۔ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کوئی ایسا چکر چلا کہ آج بھی جب ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہے پاکستانی فوج کے سربراہ کا راستہ دیکھ رہے ہیں اور اس کی حکومت کے لیے بے چین ہیں اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مسلسل آمریت اور بیچ میں جمہوری وقفوں میں بھی پاکستان نے بھارت ایسے پیدائشی دشمن کے سامنے زندگی کرنے کا فن سیکھ لیا اور اپنے تحفظ کے لیے دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ایٹم بم بنا لیا۔
یہ ایٹم بم کسی فوجی حکومت میں نہیں ایک خالصتاً سول حکومت میں بنایا گیا۔ ایک جمہوری حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے اس بم کی بنیاد رکھی اور ایسی مضبوط بنیاد کہ اس کی حکومت کے جانے کے باوجود ایٹم بم پر دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود کام جاری رہا۔ کچھ سامان باہر سے منگوایا جاتا تھا جو یورپ کی کسی ائر پورٹ پر پکڑا بھی جاتا لیکن اسی سامان کی ایک دوسری کھیپ کراچی میں جہاز سے اتر رہی ہوتی۔
بہر کیف اس قوم نے جمہوریت کی اصل طاقت سے محروم ہونے کے باوجود اپنا وجود قائم رکھا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی مبینہ جمہوریت کا مقابلہ بھی کیا۔ اگر کچھ بزدل اور غدار پیدا نہ ہو جاتے تو ملک کا اتحاد باقی رہتا لیکن دو ٹکڑے ہونے کے باوجود پاکستان آج ایک طاقت ہے اور اپنی اس جمہوریت کی تلاش میں ہیں جس نے اسے پیدا کیا تھا۔ اگر پاکستان میں جمہوریت زندہ ہوتی تو پھر نہ جانے یہ ملک کیا ہوتا۔