سعید اجمل اب فیصلہ کر ہی لیں

سلیکٹرز سعید کوکھلانے کے موڈ میں نہیں ہیں،6ماہ بعد بھی ان کی رائے نہیں تبدیل ہو گی

سلیکٹرز سعید کوکھلانے کے موڈ میں نہیں ہیں،6ماہ بعد بھی ان کی رائے نہیں تبدیل ہو گی فوٹو: فائل

SINGAPORE:
''ٹھیک ہے آپ کی بات مان لیتا ہوں، کردیتا ہوں ریٹائرمنٹ کا اعلان، مگر مجھے ایک کروڑ روپے چاہئیں''

دوسرا شخص ''ضرور، فلاں دن آ جائیں کام ہو جائے گا''

چند دن بعد دوسری ملاقات میں جب اسے ایک کروڑ روپے کا چیک دیا جاتا ہے تو وہ ''انتہائی شریف'' کرکٹر یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے کہ چیک نہیں لوں گا ٹیکس کا مسئلہ ہو گا نقد رقم درکار ہے، بعدازاں اسے ایک کروڑ روپے کے نوٹ دیے جاتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیتا ہے۔

قارئین یہ کوئی کہانی یا فلمی اسکرپٹ کا حصہ نہیں بلکہ حقیقت ہے، اس کے مرکزی کردار پی سی بی کے ایک اعلیٰ سابق آفیشل اور ہمارے ایک عظیم ترین کرکٹر تھے، بورڈ ٹیم میں نیا ٹیلنٹ لانا چاہتا تھا مگر بڑھتی عمر اور ناقص فارم کے باوجود وہ صاحب جانے کو تیار نہیں تھے، اگر زبردستی نکالا جاتا تو پی سی بی کو مشکل پڑ جاتی،آخرکار انھیں بھاری رقم دے کر کرکٹ سے علیحدگی پرراضی کیا گیا، اگر اب کی کرنسی میں دیکھا جائے تو رقم ایک کروڑ سے کئی زیادہ بنتی ہے۔

یہ تو خیر ایک '' عظیم بیٹسمین'' کا ذکر تھا، ہمارے ملک میں ازخودکرکٹ چھوڑنے کی روایت ہی نہیں ہے، حال ہی میں سری لنکن اسٹار کمار سنگاکارا نے کھیل سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور پھر انھیں کتنی عزت ملی یہ سب کے سامنے ہے، ہمارے ہیروز دیر کر جاتے ہیں، جس طرح بیٹنگ کرتے ہوئے ٹائمنگ کی انتہائی اہمیت ہوتی ہے ویسا ہی کیریئر میں بھی ہے، کرکٹ اس وقت چھوڑنی چاہیے جب لوگ آپ کو مزید کھیلتے دیکھنا چاہتے ہوں، اس وقت نہیں جب ہاتھ جوڑ کر ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا جائے یا ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد اعلان کی ضرورت ہی نہ پڑے،کسی عظیم کھلاڑی کے ساتھ ایسا سلوک ہوتے دیکھنا خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔


وہ کھلاڑی جس نے آپ کو بہت میچز جتوائے ہوں سب اس سے آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں، آگے پیچھے گھومنے والے سلیکٹرزکیریئر کا خود فیصلہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کا ڈھکے چھپے الفاظ میں مطلب ریٹائرمنٹ ہی ہوتا ہے، کپتان کا انداز بھی بدلا سا لگتا ہے، نجانے کیوں مجھے آج کل سعید اجمل کے ساتھ بھی ایسا ہوتا محسوس ہونے لگا ہے،انھوں نے تن تنہا پاکستان کو کئی میچز میں فتح دلائی،ایک زمانے میں ان کے سوا ٹیم میں کسی اور اسپنر کا داخلہ ہی بند تھا،ہر طرف سعیدکے نام کا ڈنکا بجتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا، بولنگ ایکشن میں تبدیلی نے ان سے افادیت چھین لی، اب معمولی بیٹسمین بھی اعتماد سے سامنا کرتے ہیں، ووسٹر شائر کاؤنٹی کو عمدہ بولنگ سے گذشتہ سیزن انھوں نے ڈویژن ٹو سے ون میں ترقی دلائی۔

مگر اس برس سعید پر زیادہ انحصار کاؤنٹی کو دوبارہ ڈویژن ٹو کے دہانے پر لے آیا، قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی ان کا رنگ نہ جم سکا، دونوں ایونٹس میں ان کی اوسط 50 سے زائد رہی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اب انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی مشکل ہو گی، جتنی بھی کوشش کر لیں وہ نئے ایکشن سے ماضی جیسے کارآمد بولر ثابت نہیں ہو سکتے، البتہ اوسط درجے کے اسپنر ضرور رہیں گے اور یہ سعید اجمل کے شایان شان نہیں، ہمارے ذہنوں میں فیلڈ میںہنستے مسکراتے چیونگم چباتے اعتماد سے بھرپور سعید کی ہی یادیں رہنی چاہئیں، ایسا تاثر نہیں رہنا چاہیے کہ وہ سخت چہرہ بنائے ٹیل اینڈر کو آؤٹ کرنے میں بھی دشواری محسوس کر رہے ہوں،انھیں حقیقت تسلیم کر کے ازخود ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دینا چاہیے۔

سلیکٹرز سعید کوکھلانے کے موڈ میں نہیں ہیں،6ماہ بعد بھی ان کی رائے نہیں تبدیل ہو گی، ایسے میں اپنی شرائط پر کرکٹ کو چھوڑنا مناسب ہوگا، زمبابوے سے سیریز میں ان کے پاس اچھا موقع تھا کہ ایک میچ کھیل کر اپنے شائقین کے سامنے کرکٹ کو الوداع کہتے، مگر ایسا نہیں کیا، اب بھی وقت ہے، بورڈ کو بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے، انھیں سینٹرل کنٹریکٹ میں تنزلی سے بے عزت نہیں کرنا چاہیے تھا، سب جانتے ہیں کہ پی سی بی میں کئی لوگ بغیر کام کیے بھاری تنخواہیں وصول کر رہے ہیں،بورڈ کے ٹھاٹ کرکٹرز ہی کی وجہ سے ہیں۔

اگر کسی ایک کھلاڑی کو سال بھر کچھ رقم دے دی جائے تو کیا فرق پڑے گا، وہ کوئی ریس کا گھوڑا تو نہیں ہوتا جو دوڑ نہ سکے تو سائیڈ لائن کر دیا جائے، شہریارخان کرکٹرز کو خاصی عزت دیتے ہیں، ان سے درخواست ہے کہ سعید اجمل کو ملاقات کیلیے بلائیں، اگر وہ راضی ہوں تو ان کیلیے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایک بینیفٹ میچ کرایا جائے جس میں تمام ملکی سپراسٹارز حصہ لیں، اس کی تمام آمدنی سعید اجمل کو خدمات کے اعتراف میں دیں، ساتھ میں بورڈ اپنی جانب سے بھی انھیں کچھ رقم اور شیلڈ پیش کرے، میچ کے بعد انھیں گراؤنڈ کا چکر لگانا چاہیے جہاں شائقین ان کو داد دیں۔

اس سے نئی روایت پیدا ہو گی، اسی کے ساتھ ان کا سینٹرل کنٹریکٹ جب تک کا ہے اسے برقرار رکھا جائے،چند ماہ مزید کچھ رقم دینے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی،اسی صورت ان کی خدمات پر کچھ خراج تحسین ادا کیا جا سکے گا، ماضی میں بڑے بڑے کرکٹرز شایان شان انداز میں رخصت نہ ہو سکے، شہریارصاحب آئیں ایک نئی روایت قائم کرتے ہیں، سعید اجمل کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ یہ پاکستان ہے یہاں بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں، یہ درست وقت ہے، کیریئر میں ''دوسرا '' موقع بھی ملے گا، بورڈ اکیڈمی میں کوئی کام سونپ سکتا ہے،ٹی وی پر بطور ماہرخدمات انجام دے سکتے ہیں، حالیہ کارکردگی کے بعد کاؤنٹی میں دوبارہ کھیلنا بھی آسان نہ ہو گا،اس لیے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر کوئی فیصلہ کریں، اس سے شائقین کو بھی اطمینان حاصل ہو گا کہ ہم نے اپنے کسی ہیرو کو تو باعزت اندازسے الوداع کہا۔
Load Next Story