تعلیم ایک نفع بخش کاروبار
ان دنوں حکومت چونکہ بلدیاتی انتخابات میں پھنسنے والی ہے اس لیے وہ کوئی رسک لینے پر تیار نہیں
Abdulqhasan@hotmail.com
ISLAMABAD:
ہم پاکستانی خاندانی منصوبہ بندی کے قائل نہیں ہیں۔ اگرچہ اشتہاروں میں تو دو بچوں کی نصیحت کی جاتی ہے لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی مرضی اور فضل کرم کی امید پر چلتے ہیں اور بچے جتنے بھی ہوں اتنے ہی اچھے ہیں، اب میں نانا دادا ہوں اس لیے بچوں کی تعلیم کی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہوں۔ گزشتہ دنوں جب پرائیویٹ اسکولوں نے یکایک فیس بڑھا دی تو والدین اس قدر گھبرا گئے کہ ان کی خواتین نے جلسے جلوس شروع کر دیے۔
ان دنوں حکومت چونکہ بلدیاتی انتخابات میں پھنسنے والی ہے اس لیے وہ کوئی رسک لینے پر تیار نہیں ہے چنانچہ حکومت کو اپنی سستی اور لاپروائی بھی یاد آ گئی اور اس نے فوراً ہی پرانی فیسیں بحال رکھنے کا حکم جاری کر دیا، اگرچہ بعض پرائیویٹ اسکولوں والے بہت زیادہ بااثر ہیں لیکن حکومت نے فی الحال ان کا متوقع دباؤ قبول کر لیا، اس ضمن میں ظاہر ہے کہ والدین بھی حکومت کے ساتھ تھے چنانچہ حکومت کم از کم اس ایک مرحلے سے بخیر و عافیت گزر گئی اور حکومت سے زیادہ والدین نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اصل مسئلہ حکومت کا نہیں والدین کا تھا جنھیں یہ آگ کا مرحلہ جوں توں کرکے طے کرنا ہی تھا۔
میری چھوٹی پیاری پوتی نے جب مجھ سے کہا کہ بابا اسکول والوں نے فیس وغیرہ دگنی کر دی ہیں میری سہیلیاں کہہ رہی تھیں کہ وہ شاید کسی دوسرے سستے اسکول میں چلی جائیں تو بابا کیا میں بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ کسی چھوٹے سے اسکول میں چلی جاؤں گی، یہ بات کہتے ہوئے اس معصوم کی آواز میں عجیب طرز کی مایوسی تھی۔ میں نے اسے تو تسلی دے دی لیکن ایسی کتنی ہی بچیاں تسلی کے چند لفظوں سے بھی محروم ہوں گی۔ تعلیم ہمارے ہاں ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے۔
ہمارے ہاں گاؤں میں زمین فروخت کرنے سے بری بات اور کوئی نہیں ہو سکتی لیکن بچہ جب میٹرک کر کے لاہور کے کسی کالج میں داخلے کے لیے گیا تو اس کے اخراجات کے لیے کسی کی زمین یا کسی ماں کے زیور بک گئے لیکن تعجب ہے کہ بیٹے کی تعلیم کے لیے کچھ بھی بیچ دینا ایک قابل عزت فیصلہ رہا۔
بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے ہی کچھ بیچ دینے کی نوبت آ جائے تو درست کہ والدین اپنی حالت پر ترس کھائیں کہ وہ بچوں کو پڑھانے میں ناکام ہو رہے ہیں لیکن یہ ناکامی ایسی ہے جو قابل قبول نہیں ہے اور جیسے تیسے بچے کی فیس وغیرہ کا بندوبست تو کرنا ہی ہے لیکن جب تعلیم کاروبار بن جائے اور بازار کی گرانی تعلیم پر اثر انداز ہو تو پھر اپنے ان بزرگ مسلمانوں کو یاد کیجیے جو بچوں کی تعلیم ہی نہیں ان کے روٹی کپڑے کا بندوبست بھی کیا کرتے تھے اور مدرسے قائم کرتے تھے۔ والدین بچے کو مدرسے کے استاد کے حوالے کر دیتے تھے اور گھر چلے جاتے تھے۔ جس طرح طبیب مریض سے فیس نہیں لیتے تھے اسی طرح مدرسے والے کسی طالب علم سے فیس بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اس کے جائز اخراجات بھی برداشت کرتے تھے۔
اب مسلمان ہی بدل گئے اور ان کی زندگی میں کاروبار مقدم بن گیا تو ڈاکٹر بھاری فیس لینے لگے اور استاد شاگرد سے تعلیم کا معاوضہ لینے لگے چنانچہ جب یہ معاوضہ بڑھایا جاتا ہے تو گھر گھر میں طوفان برپا ہو جاتا ہے کہ نہ تو بچے کو تعلیم سے محروم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کچی عمر کے بچے کو گلیوں میں آوارہ چھوڑا جا سکتا ہے چنانچہ حکومت نے حالات سے مجبور ہو کر فیسوں میں اضافہ روک لیا ہے اور وہی فیس برقرار رکھی ہے جو گزشتہ سال تھی۔ یہ سن کر میری بہو نے مجھے میری پسند کی خاص چائے پلائی ہے اور ڈاکٹر کی ہدایات کی پروا نہیں کی۔
حکومت کے اپنے تعلیمی ادارے بھی ہوتے ہیں اور جگہ جگہ ان کا وجود ہوتا ہے مگر پھر بھی لوگ بچوں کو ان سرکاری اسکولوں میں داخل نہیں کراتے اس لیے کہ ان اسکولوں کے اساتذہ صرف سرکاری نوکری کرتے ہیں تعلیم نہیں دیتے اور اب تو والدین سے زیادہ خود طلبہ باشعور ہو گئے ہیں اور وہ کسی معیاری اسکول میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور انھی حالات سے فائدہ اٹھا کر پرائیویٹ اسکول کھلے ہیں اور کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنے اسکولوں کا معیار کسی حد تک اچھا کر سکے تو اسے پرائیویٹ اداروں کے مالکان سے خم نہ کھانا پڑے اور نہ ہی ان کی رعایا پریشان ہو۔ بچے کو تعلیم تو ہر حال میں دلوانی ہی ہے خواہ اس کی ماں کے زیور بکیں یا باپ کی زمین لیکن حکومت ذرا توجہ کرے تو رعایا کی تعلیم کسی پریشانی کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔
نہ حکومت پریشان ہو نہ والدین لیکن حکمرانوں کی تھوڑی بہت فرض شناسی کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ماشاء اللہ اب گلی گلی میں آباد ہیں اور کئی ایک کے کھلی جگہوں پر کیمپس بھی بن گئے ہیں۔ یہ سلسلہ ضلعوں کے صدر مقامات تک بھی پھیلتا جاتا ہے۔
وزیراعظم نے فیسوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے پرائیویٹ اسکولوں کی ریگولیٹری اتھارٹی بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ ان اداروں کی نگرانی کے لیے کبھی کوئی ادارہ ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ گم ہو گیا۔ اب گزشتہ سال والی فیس لاگو ہو گی آیندہ سال دیکھا جائے گا لیکن مائیں کسی جلسے جلوس کے لیے تیار رہیں کیونکہ آنے والا سال نہ جانے کیسا سال ہو گا اور ماؤں کو پھر سے احتجاج کرنا ہو گا کیونکہ تعلیم اب ایک نفع بخش کاروبار ہے اور اس کی نگرانی کے لیے بھی گاہکوں کو منظم ہونا پڑے گا تاکہ بازار میں گرانی حد سے بلکہ والدین کی توفیق سے بڑھ نہ جائے۔
ہم پاکستانی خاندانی منصوبہ بندی کے قائل نہیں ہیں۔ اگرچہ اشتہاروں میں تو دو بچوں کی نصیحت کی جاتی ہے لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی مرضی اور فضل کرم کی امید پر چلتے ہیں اور بچے جتنے بھی ہوں اتنے ہی اچھے ہیں، اب میں نانا دادا ہوں اس لیے بچوں کی تعلیم کی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہوں۔ گزشتہ دنوں جب پرائیویٹ اسکولوں نے یکایک فیس بڑھا دی تو والدین اس قدر گھبرا گئے کہ ان کی خواتین نے جلسے جلوس شروع کر دیے۔
ان دنوں حکومت چونکہ بلدیاتی انتخابات میں پھنسنے والی ہے اس لیے وہ کوئی رسک لینے پر تیار نہیں ہے چنانچہ حکومت کو اپنی سستی اور لاپروائی بھی یاد آ گئی اور اس نے فوراً ہی پرانی فیسیں بحال رکھنے کا حکم جاری کر دیا، اگرچہ بعض پرائیویٹ اسکولوں والے بہت زیادہ بااثر ہیں لیکن حکومت نے فی الحال ان کا متوقع دباؤ قبول کر لیا، اس ضمن میں ظاہر ہے کہ والدین بھی حکومت کے ساتھ تھے چنانچہ حکومت کم از کم اس ایک مرحلے سے بخیر و عافیت گزر گئی اور حکومت سے زیادہ والدین نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اصل مسئلہ حکومت کا نہیں والدین کا تھا جنھیں یہ آگ کا مرحلہ جوں توں کرکے طے کرنا ہی تھا۔
میری چھوٹی پیاری پوتی نے جب مجھ سے کہا کہ بابا اسکول والوں نے فیس وغیرہ دگنی کر دی ہیں میری سہیلیاں کہہ رہی تھیں کہ وہ شاید کسی دوسرے سستے اسکول میں چلی جائیں تو بابا کیا میں بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ کسی چھوٹے سے اسکول میں چلی جاؤں گی، یہ بات کہتے ہوئے اس معصوم کی آواز میں عجیب طرز کی مایوسی تھی۔ میں نے اسے تو تسلی دے دی لیکن ایسی کتنی ہی بچیاں تسلی کے چند لفظوں سے بھی محروم ہوں گی۔ تعلیم ہمارے ہاں ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے۔
ہمارے ہاں گاؤں میں زمین فروخت کرنے سے بری بات اور کوئی نہیں ہو سکتی لیکن بچہ جب میٹرک کر کے لاہور کے کسی کالج میں داخلے کے لیے گیا تو اس کے اخراجات کے لیے کسی کی زمین یا کسی ماں کے زیور بک گئے لیکن تعجب ہے کہ بیٹے کی تعلیم کے لیے کچھ بھی بیچ دینا ایک قابل عزت فیصلہ رہا۔
بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے ہی کچھ بیچ دینے کی نوبت آ جائے تو درست کہ والدین اپنی حالت پر ترس کھائیں کہ وہ بچوں کو پڑھانے میں ناکام ہو رہے ہیں لیکن یہ ناکامی ایسی ہے جو قابل قبول نہیں ہے اور جیسے تیسے بچے کی فیس وغیرہ کا بندوبست تو کرنا ہی ہے لیکن جب تعلیم کاروبار بن جائے اور بازار کی گرانی تعلیم پر اثر انداز ہو تو پھر اپنے ان بزرگ مسلمانوں کو یاد کیجیے جو بچوں کی تعلیم ہی نہیں ان کے روٹی کپڑے کا بندوبست بھی کیا کرتے تھے اور مدرسے قائم کرتے تھے۔ والدین بچے کو مدرسے کے استاد کے حوالے کر دیتے تھے اور گھر چلے جاتے تھے۔ جس طرح طبیب مریض سے فیس نہیں لیتے تھے اسی طرح مدرسے والے کسی طالب علم سے فیس بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اس کے جائز اخراجات بھی برداشت کرتے تھے۔
اب مسلمان ہی بدل گئے اور ان کی زندگی میں کاروبار مقدم بن گیا تو ڈاکٹر بھاری فیس لینے لگے اور استاد شاگرد سے تعلیم کا معاوضہ لینے لگے چنانچہ جب یہ معاوضہ بڑھایا جاتا ہے تو گھر گھر میں طوفان برپا ہو جاتا ہے کہ نہ تو بچے کو تعلیم سے محروم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کچی عمر کے بچے کو گلیوں میں آوارہ چھوڑا جا سکتا ہے چنانچہ حکومت نے حالات سے مجبور ہو کر فیسوں میں اضافہ روک لیا ہے اور وہی فیس برقرار رکھی ہے جو گزشتہ سال تھی۔ یہ سن کر میری بہو نے مجھے میری پسند کی خاص چائے پلائی ہے اور ڈاکٹر کی ہدایات کی پروا نہیں کی۔
حکومت کے اپنے تعلیمی ادارے بھی ہوتے ہیں اور جگہ جگہ ان کا وجود ہوتا ہے مگر پھر بھی لوگ بچوں کو ان سرکاری اسکولوں میں داخل نہیں کراتے اس لیے کہ ان اسکولوں کے اساتذہ صرف سرکاری نوکری کرتے ہیں تعلیم نہیں دیتے اور اب تو والدین سے زیادہ خود طلبہ باشعور ہو گئے ہیں اور وہ کسی معیاری اسکول میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور انھی حالات سے فائدہ اٹھا کر پرائیویٹ اسکول کھلے ہیں اور کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنے اسکولوں کا معیار کسی حد تک اچھا کر سکے تو اسے پرائیویٹ اداروں کے مالکان سے خم نہ کھانا پڑے اور نہ ہی ان کی رعایا پریشان ہو۔ بچے کو تعلیم تو ہر حال میں دلوانی ہی ہے خواہ اس کی ماں کے زیور بکیں یا باپ کی زمین لیکن حکومت ذرا توجہ کرے تو رعایا کی تعلیم کسی پریشانی کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔
نہ حکومت پریشان ہو نہ والدین لیکن حکمرانوں کی تھوڑی بہت فرض شناسی کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ماشاء اللہ اب گلی گلی میں آباد ہیں اور کئی ایک کے کھلی جگہوں پر کیمپس بھی بن گئے ہیں۔ یہ سلسلہ ضلعوں کے صدر مقامات تک بھی پھیلتا جاتا ہے۔
وزیراعظم نے فیسوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے پرائیویٹ اسکولوں کی ریگولیٹری اتھارٹی بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ ان اداروں کی نگرانی کے لیے کبھی کوئی ادارہ ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ گم ہو گیا۔ اب گزشتہ سال والی فیس لاگو ہو گی آیندہ سال دیکھا جائے گا لیکن مائیں کسی جلسے جلوس کے لیے تیار رہیں کیونکہ آنے والا سال نہ جانے کیسا سال ہو گا اور ماؤں کو پھر سے احتجاج کرنا ہو گا کیونکہ تعلیم اب ایک نفع بخش کاروبار ہے اور اس کی نگرانی کے لیے بھی گاہکوں کو منظم ہونا پڑے گا تاکہ بازار میں گرانی حد سے بلکہ والدین کی توفیق سے بڑھ نہ جائے۔