ہمارا ہیرو اسفند یار
اب ذرا غور کیجیے کہ ہمارے للو پنجو قسم کے حکمران بھی کسی شہر میں اپنی سواری کے لیے راستے بند کرا دیتے ہیں
اب ذرا غور کیجیے کہ ہمارے للو پنجو قسم کے حکمران بھی کسی شہر میں اپنی سواری کے لیے راستے بند کرا دیتے ہیں
ہمارے بیٹے جنھوں نے ہم سے پیار کے سوا کچھ نہیں لیا اور جو کچھ لیا بھی وہ اپنی ہمت اور صلاحیت کے بل پر لیا ۔ اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیے اور وہ یاد گار تلوار بھی جو کسی قابل ترین اور قدرتی جانباز کو ہی ملتی ہے قوم کی امانت سمجھ کر سینے سے لگا لی اور جب آزمائش کا وقت آیا تو وہ تلوار ٹوٹی نہیں ،کتنی ہی تلواروں کو ریزہ ریزہ کر گئی اور اپنے مالک کا حق ادا کر گئی۔
کیپٹن اسفند یار بخاری اپنی تعلیم کے دوران اکیڈمی میں صف اول میں تھا اور جس نصاب کے لیے وہ تیار کیا گیا اس میں بھی وہ صف اول میں رہا ۔ اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ ہم سب دہشت گردوں سے لڑ رہے تھے مگر اسفند یار باہر نکل کر صف اول میں تھا اور دشمن کے ساتھ نبرد آزما تھا۔ اسی جنگ میں وہ ایک مسلمان سپاہی کا بلند ترین اعزاز لے گیا۔
اکیڈمی کی تعلیم میں تلوار حاصل کی اور جہاد کی تعلیم میں جان قربان کر دی۔ اس نے تلوار کا حق بھی ادا کیا اور اپنی جان کا بھی کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا انعام تھا، ایک ایسا انعام جو موت سے آشنا نہیں ہوتا ۔ ہمارا یہ خوبصورت جوان پاکستانی آج ایک نہ ختم ہونے والی زندگی کے ابدی انعام سے سرفراز ہے، وہ زندگی جس میں ایک شہید کے خوابوں سے بھی زیادہ نعمتیں ہیں۔ ایک بات درج کرنے کی میں ہمت نہیں پاتا کہ ہماری قوم کے اس دلہا کے تابناک چہرے پر جلد ہی بس دو تین ماہ تک سہرا سجنے والا تھا ۔
میں اپنی اس پاکستانی بیٹی سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ زندگی بھر ایک شہید کی بیوی رہے گی۔ خدا اس کو کسی بھی پاکستانی گھر میں لے جائے اس کی خوش نصیبی اس کا فخر اس کے ساتھ رہے گا اور ایک تلوار اس کی حفاظت کرے گی اور وہ خاتون پاکستانی ہو گی کہ اس کے اسفند یار سے بڑا اس ملک میں اور کون ہے۔ اسفند یار بخاری نے اس ملک میں تعلیم پائی اور اسی ملک میں ہر اعزاز حاصل کیا، یوں وہ اپنے پاکستان کا مقروض تھا اور اس نے اپنا یہ قرض ادا کر دیا ۔ اس کا امریکا اور دبئی یہی پاکستان تھا جس کی حفاظت کے لیے اس نے جان قربان کر دی۔
اسفند یار جیسے بیٹے سے محروم اس کے معمر والد جن کا پگھلا ہوا چہرہ ہر ٹی وی دیکھنے والے کے سامنے تھا اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتا رہا۔ انھوں نے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے حکمرانوں سے ایک درخواست کی کہ وہ ملک سے کرپشن اور رشوت ستانی کو ختم کر دیں۔ بیٹے کی جدائی سے زیادہ کربناک حالت اس باپ پر کبھی نہیں آئے گی اور اس حالت میں بھی اس شخص کوکرپشن کے چرکے یاد تھے جو ان کے آس پاس ہر پاکستانی کو ہر روز سہنے پڑتے ہیں اور وہ بے بسی کے عالم میں سب کچھ برداشت کرتا ہے اور اس کی زبان سے حکمرانوں کے لیے بددعا ہی نکلتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے حکمرانی اور مال و دولت میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ انسان کسی شہید کے باپ کی بددعا بھی برداشت کر جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو جس قدر علی الاعلان رشوت ستانی اور حرام دولت کا چرچا ہے میں نہیں سمجھتا کہ انسانوں کی کسی دوسری سوسائٹی میں کرپشن کے باوجود اس کا اس قدر فخر کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہو ۔کچھ پہلے تک پاکستان میں بھی رشوت خور اسے چھپایا کرتے تھے۔ ایک رشوتی محکمے کے ایک کلرک تھوڑی بہت رشوت کی رقم کو اپنی سائیکل کے ہینڈل میں چھپا کر رکھتے تھے۔
ضرورت کے وقت انھیں ہینڈل کا ربڑ کا دستہ اتار کر اس کے خالی حصے سے رقم باہر نکالنے میں بڑی دقت ہوتی تھی اور اسے چھپانا بھی ہوتا تھا ۔ یہ نیک اور شرم و حیا والے پاکستانیوں کا زمانہ تھا جب کہ آج تو رشوت کا بڑے فخر سے اعلان کیا جاتا ہے۔ خبر پڑھی کہ فلاں پارٹی کا اجلاس دبئی میں پارٹی کے آفس میں ہو گا ۔
غریبوں کا نعرہ لگانے والی اس پارٹی کے پاس اتنا سرمایہ کیسے آ گیا کہ اب اس کا دفتر دبئی میں ہوتا ہے اور اس کے لیڈر اتنے رئیس ہیں کہ دبئی ایسے چلے جاتے ہیں جیسے اسلام آباد جانا ہو۔ ایسی اور کئی مثالیں ہیں اور ہمارا کوئی سیاستدان غریب اور محتاج نہیں ہے۔ غربت اور محتاجی کوئی اچھی بات نہیں لیکن اسے ختم کرنے کا طریقہ صحیح اور جائز ہونا چاہیے، دبئی والا نہیں۔
سیاستدان اگر حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ حکمران ہوتے ہیںکیونکہ ان کا تعلق اور رشتہ حکمرانوں سے ہوتا ہے اس لیے وہ کرپشن زیادہ آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
دنیا میں جہاں کے ملکوں سے ہم قرضے لیا کرتے ہیں ان کے سیاستدان کرپشن سے خوفزدہ رہتے ہیں اور حکومت ان سے کوئی رعایت نہیں کرتی۔ یورپ کے ایک ملک کے وزیراعلیٰ نے اسمبلی سے درخواست کی کہ میری گاڑی کو دفتر آنے جانے کے لیے راستہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے جس سے اسکول بس گزرتی ہے تاکہ میں وقت پر اسمبلی اور دفتر پہنچ سکوں۔ ان کی یہ درخواست ردکر دی گئی اور مشورہ دیا گیا کہ وہ گھر سے جلدی نکلا کریں تاکہ وہ وقت پر دفتر پہنچ جائیں۔
اب ذرا غور کیجیے کہ ہمارے للو پنجو قسم کے حکمران بھی کسی شہر میں اپنی سواری کے لیے راستے بند کرا دیتے ہیں اور وہ بلا روک ٹوک اپنا یہ سفر طے کرتے ہیں حالانکہ ان کے دفتر دیر سویر سے پہنچنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دفتر میں ان کا کوئی کام نہیں ہوتا بلکہ وہ ذاتی کام کاج بھی سرکاری دفتر میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف نے اپنی آمد پر ٹریفک روکنے پر ناراضگی ظاہر کی ہے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے منع کر دیا ہے۔
جج صاحب کا خیال ہے کہ ان کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ،کسی پولیس کے سپاہی کے اختیار میں نہیں ہے جو تھکی اور ڈھلکی ہوئی گردن کے ساتھ کھڑا ہوا ان کی حفاظت کرتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی حکمران کی لمبی چوڑی سواری گزرتی ہے تو سڑک بند کر دی جاتی ہے تاکہ ان صاحب کی جان کے دشمن ان تک نہ پہنچ سکیں۔ مجھے یہاں اپنا ہیرو اسفند یار پھر یاد آ گیا ہے جو موت سے پیار کرتا ہوا اور اپنی اعزازی تلوار کی عزت کرتا ہوا پاکستان کے دشمنوں سے بھڑ گیا، جان دے دی مگر دشمن کو اپنی سرزمین سے ختم کر دیا۔ میرا ہیرو اسفند یار زندہ باد لیکن وہ شہید ہے اور زندہ باد تو ہے ہی۔
معلوم ہوا کہ پہلی تنخواہ سے اس نے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور خواہش ظاہر کی کہ اس کی تدفین اسی میں ہو۔ وہ شہادت پا گیا اور اس کا متبرک جسد خاکی اسی زمین میں دفن ہوا جو اس نے اپنی پہلی تنخواہ میں سے خریدی تھی۔ کیا شہادت پانے والے شہادت کے اعزاز سے پہلے ہی کچھ اشارے پا لیتے ہیں۔ ان پر کسی ان دیکھی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
کیپٹن اسفند یار بخاری اپنی تعلیم کے دوران اکیڈمی میں صف اول میں تھا اور جس نصاب کے لیے وہ تیار کیا گیا اس میں بھی وہ صف اول میں رہا ۔ اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ ہم سب دہشت گردوں سے لڑ رہے تھے مگر اسفند یار باہر نکل کر صف اول میں تھا اور دشمن کے ساتھ نبرد آزما تھا۔ اسی جنگ میں وہ ایک مسلمان سپاہی کا بلند ترین اعزاز لے گیا۔
اکیڈمی کی تعلیم میں تلوار حاصل کی اور جہاد کی تعلیم میں جان قربان کر دی۔ اس نے تلوار کا حق بھی ادا کیا اور اپنی جان کا بھی کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا انعام تھا، ایک ایسا انعام جو موت سے آشنا نہیں ہوتا ۔ ہمارا یہ خوبصورت جوان پاکستانی آج ایک نہ ختم ہونے والی زندگی کے ابدی انعام سے سرفراز ہے، وہ زندگی جس میں ایک شہید کے خوابوں سے بھی زیادہ نعمتیں ہیں۔ ایک بات درج کرنے کی میں ہمت نہیں پاتا کہ ہماری قوم کے اس دلہا کے تابناک چہرے پر جلد ہی بس دو تین ماہ تک سہرا سجنے والا تھا ۔
میں اپنی اس پاکستانی بیٹی سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ زندگی بھر ایک شہید کی بیوی رہے گی۔ خدا اس کو کسی بھی پاکستانی گھر میں لے جائے اس کی خوش نصیبی اس کا فخر اس کے ساتھ رہے گا اور ایک تلوار اس کی حفاظت کرے گی اور وہ خاتون پاکستانی ہو گی کہ اس کے اسفند یار سے بڑا اس ملک میں اور کون ہے۔ اسفند یار بخاری نے اس ملک میں تعلیم پائی اور اسی ملک میں ہر اعزاز حاصل کیا، یوں وہ اپنے پاکستان کا مقروض تھا اور اس نے اپنا یہ قرض ادا کر دیا ۔ اس کا امریکا اور دبئی یہی پاکستان تھا جس کی حفاظت کے لیے اس نے جان قربان کر دی۔
اسفند یار جیسے بیٹے سے محروم اس کے معمر والد جن کا پگھلا ہوا چہرہ ہر ٹی وی دیکھنے والے کے سامنے تھا اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتا رہا۔ انھوں نے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے حکمرانوں سے ایک درخواست کی کہ وہ ملک سے کرپشن اور رشوت ستانی کو ختم کر دیں۔ بیٹے کی جدائی سے زیادہ کربناک حالت اس باپ پر کبھی نہیں آئے گی اور اس حالت میں بھی اس شخص کوکرپشن کے چرکے یاد تھے جو ان کے آس پاس ہر پاکستانی کو ہر روز سہنے پڑتے ہیں اور وہ بے بسی کے عالم میں سب کچھ برداشت کرتا ہے اور اس کی زبان سے حکمرانوں کے لیے بددعا ہی نکلتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے حکمرانی اور مال و دولت میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ انسان کسی شہید کے باپ کی بددعا بھی برداشت کر جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو جس قدر علی الاعلان رشوت ستانی اور حرام دولت کا چرچا ہے میں نہیں سمجھتا کہ انسانوں کی کسی دوسری سوسائٹی میں کرپشن کے باوجود اس کا اس قدر فخر کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہو ۔کچھ پہلے تک پاکستان میں بھی رشوت خور اسے چھپایا کرتے تھے۔ ایک رشوتی محکمے کے ایک کلرک تھوڑی بہت رشوت کی رقم کو اپنی سائیکل کے ہینڈل میں چھپا کر رکھتے تھے۔
ضرورت کے وقت انھیں ہینڈل کا ربڑ کا دستہ اتار کر اس کے خالی حصے سے رقم باہر نکالنے میں بڑی دقت ہوتی تھی اور اسے چھپانا بھی ہوتا تھا ۔ یہ نیک اور شرم و حیا والے پاکستانیوں کا زمانہ تھا جب کہ آج تو رشوت کا بڑے فخر سے اعلان کیا جاتا ہے۔ خبر پڑھی کہ فلاں پارٹی کا اجلاس دبئی میں پارٹی کے آفس میں ہو گا ۔
غریبوں کا نعرہ لگانے والی اس پارٹی کے پاس اتنا سرمایہ کیسے آ گیا کہ اب اس کا دفتر دبئی میں ہوتا ہے اور اس کے لیڈر اتنے رئیس ہیں کہ دبئی ایسے چلے جاتے ہیں جیسے اسلام آباد جانا ہو۔ ایسی اور کئی مثالیں ہیں اور ہمارا کوئی سیاستدان غریب اور محتاج نہیں ہے۔ غربت اور محتاجی کوئی اچھی بات نہیں لیکن اسے ختم کرنے کا طریقہ صحیح اور جائز ہونا چاہیے، دبئی والا نہیں۔
سیاستدان اگر حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ حکمران ہوتے ہیںکیونکہ ان کا تعلق اور رشتہ حکمرانوں سے ہوتا ہے اس لیے وہ کرپشن زیادہ آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
دنیا میں جہاں کے ملکوں سے ہم قرضے لیا کرتے ہیں ان کے سیاستدان کرپشن سے خوفزدہ رہتے ہیں اور حکومت ان سے کوئی رعایت نہیں کرتی۔ یورپ کے ایک ملک کے وزیراعلیٰ نے اسمبلی سے درخواست کی کہ میری گاڑی کو دفتر آنے جانے کے لیے راستہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے جس سے اسکول بس گزرتی ہے تاکہ میں وقت پر اسمبلی اور دفتر پہنچ سکوں۔ ان کی یہ درخواست ردکر دی گئی اور مشورہ دیا گیا کہ وہ گھر سے جلدی نکلا کریں تاکہ وہ وقت پر دفتر پہنچ جائیں۔
اب ذرا غور کیجیے کہ ہمارے للو پنجو قسم کے حکمران بھی کسی شہر میں اپنی سواری کے لیے راستے بند کرا دیتے ہیں اور وہ بلا روک ٹوک اپنا یہ سفر طے کرتے ہیں حالانکہ ان کے دفتر دیر سویر سے پہنچنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دفتر میں ان کا کوئی کام نہیں ہوتا بلکہ وہ ذاتی کام کاج بھی سرکاری دفتر میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف نے اپنی آمد پر ٹریفک روکنے پر ناراضگی ظاہر کی ہے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے منع کر دیا ہے۔
جج صاحب کا خیال ہے کہ ان کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ،کسی پولیس کے سپاہی کے اختیار میں نہیں ہے جو تھکی اور ڈھلکی ہوئی گردن کے ساتھ کھڑا ہوا ان کی حفاظت کرتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی حکمران کی لمبی چوڑی سواری گزرتی ہے تو سڑک بند کر دی جاتی ہے تاکہ ان صاحب کی جان کے دشمن ان تک نہ پہنچ سکیں۔ مجھے یہاں اپنا ہیرو اسفند یار پھر یاد آ گیا ہے جو موت سے پیار کرتا ہوا اور اپنی اعزازی تلوار کی عزت کرتا ہوا پاکستان کے دشمنوں سے بھڑ گیا، جان دے دی مگر دشمن کو اپنی سرزمین سے ختم کر دیا۔ میرا ہیرو اسفند یار زندہ باد لیکن وہ شہید ہے اور زندہ باد تو ہے ہی۔
معلوم ہوا کہ پہلی تنخواہ سے اس نے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور خواہش ظاہر کی کہ اس کی تدفین اسی میں ہو۔ وہ شہادت پا گیا اور اس کا متبرک جسد خاکی اسی زمین میں دفن ہوا جو اس نے اپنی پہلی تنخواہ میں سے خریدی تھی۔ کیا شہادت پانے والے شہادت کے اعزاز سے پہلے ہی کچھ اشارے پا لیتے ہیں۔ ان پر کسی ان دیکھی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔