میرا ’سرکاری‘ حج
لاکھوں خوش نصیب ان دنوں اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور حاضر ہیں اور حج کے مناسک سر انجام دے رہے یا دے چکے ہیں
Abdulqhasan@hotmail.com
لاکھوں خوش نصیب ان دنوں اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور حاضر ہیں اور حج کے مناسک سر انجام دے رہے یا دے چکے ہیں اور بال کٹا کے فراغت کا اعلان کر چکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ میں بھی اللہ تبارک تعالیٰ کی درگاہ میں حاضر تھا اور حج کے مناسک سر انجام دے رہا تھا۔ میں اپنی زندگی سے ان دنوں کو الگ کر چکا ہوں کیونکہ میری باقی زندگی میں وہ کسی بھی صورت میں فٹ نہیں ہو پاتے۔ مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آ سکا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا حج کرنے کی سعادت کیوں عطا فرمائی کہ جس میں آسانی ہی آسانی تھی۔
میں مملکت سعودیہ کا مہمان تھا اور مہمان بھی ایسا کہ عرفات کے میدان میں جس خیمے کے اندر میں مقیم تھا وہاں اے سی لگا ہوا تھا اور میں مکمل سکون اور آرام کے ساتھ فریضہ حج سے عہدہ برآ ہو رہا تھا۔ حج کے پورے سفر میں اور ہر عبادت میں میرا جسم آسانی اور آسائش کی نعمت سے سرفراز تھا اس دوران میں جس ہوٹل نما عمارت میں ٹھہرایا گیا وہاں انڈونیشیا کے صدر جناب سوہارتو بھی مقیم تھے اور ایک عظیم شخصیت محمد علی بھی جو بڑے فخر کے ساتھ حج کر رہا تھا۔
جب شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا وقت آیا تو وہ شخص جس کے مکے کو کوئی انسان برداشت نہیں کر سکتا تھا اور وہ دنیا بھر میں نمبر ایک مکہ باز تھا اس حال میں نظر آیا کہ وہ جھک کر زمین سے کنکری نہیں اٹھا سکتا تھا اس کا ایک ساتھی یہ کام کرتا تھا اور جب شیطان کو کنکری مارنے کا وقت آیا تو دنیا کا یہ مکہ باز اپنا ہاتھ بڑھا کر کنکری پھینک نہیں سکتا تھا۔ اس کا معاون اس کے ہاتھ میں کنکری دیتا تھا اور اس کو اوپر اٹھا دیتا تھا جس کے بعد وہ شیطانوں پر کنکریاں برسا سکتا تھا۔ میں کوشش کر کے محمد علی کے قریب رہا اور دیکھا کہ جو شخص دنیا کے ہر انسان کو شکست دے چکا ہے اب شیطان کو کنکری بھی نہیں مار سکتا۔ کیا عجب منظر تھا حج کے دوران اکثر مقامات پر اس کی آنکھ سے آنسو گرتے دکھائی دیتے تھے اور وہ دنیا کا ایک عاجز انسان بن کر اپنے رب کے حضور حاضر تھا۔
محمد علی نے سارا حج اپنے ساتھی کی مدد سے کیا اور اس دوران دوسرے حاجیوں سے نہایت ہی محبت کے ساتھ ملتا رہا جو بزرگ حاجی ہوتا محمد علی اس کے سامنے جھک کر آداب بجالاتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ لوگ اس سے پیار کرتے ہیں چنانچہ وہ پیار کا جواب دینے میں ذرا بھر بھی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ جب انڈونیشیا کا صدر اس سے جھک کر مل رہا تھا تو محمد علی گھبرا گیا تھا اس کے چہرے پر شکریے کے تاثرات تھے الفاظ نہیں تھے جب کہ اس کی زبان انگریزی تھی۔
حج کے دوران حج کے مسائل سمجھنے میں کچھ الجھن رہی۔ آنحضرت ﷺ نے زندگی مبارک میں صرف ایک حج فرمایا تھا اس لیے ایک سعودی عالم نے بتایا کہ سب سے زیادہ مشکل حج کے مسائل ہیں کیونکہ حضور نے ایک ہی بار حج کے کسی موقع پر اپنے عمل سے بتایا کہ اسے کیسے سرانجام دینا ہے اسی لیے حج کے مسائل میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بہر کیف ہر فقہ میں جو مسائل درج ہیں وہی اس فقہ کے ماننے والوں کے لیے اہم ہیں اور حج تو ایک بہت ہی بڑی عبادت ہے جس میں مال و متاع بھی ضروری ہے اور جسمانی مشقت بھی مطلوب ہے مگر ہمارے ہاں سے کئی حجاج اپنی ضعیفی میں یہ فرض ادا کرتے ہیں اور بڑی مشکل کے ساتھ مناسک حج سے عہدہ برآ ہوتے ہیں مگر ہرحال میں حج کا فرض ادا کر جاتے ہیں۔
یہاں ایک بات کا ذکر شاید نامناسب نہ ہو کہ ہمارے بازاروں میں بڑے تاجروں نے اپنے نام کے ساتھ الحاج بھی لگایا ہوتا ہے مگر وہ جب بازار میں بیٹھتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں تو اپنے حج کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ گراں فروشی کے علاوہ ناقص اشیاء ضرورت بھی ان کے ہاں سے ہی ملتی ہیں اور وہ اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کبھی اللہ تبارک کے حضور حاضر ہوئے تھے، کبھی غصہ میں آ کر ان الحاج تاجروں سے گلہ بھی کر لیتے ہیں جس کے کئی جواب ان کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ بات ذرا آگے بڑھائیں تو یہ حرکت صرف تاجر ہی نہیں کرتے ہمارے سیاستدان ان سے بھی بڑھ گئے ہیں جن کی بداعمالی دور دور تک اثر کرتی ہے، دکانداروں سے کہیں زیادہ ان تمام اور ہر قسم کے حجاج حضرات سے عرض ہے کہ وہ مہربانی فرما کر اپنے نام کے ساتھ الحاج کا لاحقہ اڑا دیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے حج کو بدنام نہ کریں۔
حج پانچ لازمی عبادات میں سے ہے۔ اگر نماز، روزہ، زکوٰۃ کا عمل کرنے والے اپنے نام کے ساتھ اپنی کسی عبادت کو نتھی نہیں کرتے تو وہ حج کو بھی صاف کر دیں اور اللہ تبارک سے دعا کریں کہ ان کا حج سلامت رہے۔ ایک اندھے گداگر کے سامنے پڑے ہوئے خیرات کے سکوں میں سے کچھ ایک صاحب نے اٹھا لیے، گداگر نے آواز دی کہ حاجی صاحب میری خیرات واپس کر دیں۔ وہ شخص واپس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کس نے بتایا کہ میں حاجی ہوں۔ اس نے کہا یہ حرکت کوئی حاجی ہی کر سکتا ہے کہ کسی اندھے گداگر کو بھی معاف نہ کرے۔
میں ذکر تو اپنے سرکاری حج کا کر رہا تھا کہ بیچ میں دوسرے حجاج کرام بھی آگئے جنہوں نے اپنے خرچ پر حج کیا تھا لیکن حج سرکاری خرچ پر ہو یا اپنے خرچ پر اس کے احترام کو ہمیشہ برقرار رکھنا پڑتا ہے اور احتیاط اس میں ہے کہ نام کے ساتھ الحاج وغیرہ نہ لکھا جائے تاکہ ان کے اعمال سے حج محفوظ رہے۔
ایک زمانہ تھا کہ میں بھی اللہ تبارک تعالیٰ کی درگاہ میں حاضر تھا اور حج کے مناسک سر انجام دے رہا تھا۔ میں اپنی زندگی سے ان دنوں کو الگ کر چکا ہوں کیونکہ میری باقی زندگی میں وہ کسی بھی صورت میں فٹ نہیں ہو پاتے۔ مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آ سکا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا حج کرنے کی سعادت کیوں عطا فرمائی کہ جس میں آسانی ہی آسانی تھی۔
میں مملکت سعودیہ کا مہمان تھا اور مہمان بھی ایسا کہ عرفات کے میدان میں جس خیمے کے اندر میں مقیم تھا وہاں اے سی لگا ہوا تھا اور میں مکمل سکون اور آرام کے ساتھ فریضہ حج سے عہدہ برآ ہو رہا تھا۔ حج کے پورے سفر میں اور ہر عبادت میں میرا جسم آسانی اور آسائش کی نعمت سے سرفراز تھا اس دوران میں جس ہوٹل نما عمارت میں ٹھہرایا گیا وہاں انڈونیشیا کے صدر جناب سوہارتو بھی مقیم تھے اور ایک عظیم شخصیت محمد علی بھی جو بڑے فخر کے ساتھ حج کر رہا تھا۔
جب شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا وقت آیا تو وہ شخص جس کے مکے کو کوئی انسان برداشت نہیں کر سکتا تھا اور وہ دنیا بھر میں نمبر ایک مکہ باز تھا اس حال میں نظر آیا کہ وہ جھک کر زمین سے کنکری نہیں اٹھا سکتا تھا اس کا ایک ساتھی یہ کام کرتا تھا اور جب شیطان کو کنکری مارنے کا وقت آیا تو دنیا کا یہ مکہ باز اپنا ہاتھ بڑھا کر کنکری پھینک نہیں سکتا تھا۔ اس کا معاون اس کے ہاتھ میں کنکری دیتا تھا اور اس کو اوپر اٹھا دیتا تھا جس کے بعد وہ شیطانوں پر کنکریاں برسا سکتا تھا۔ میں کوشش کر کے محمد علی کے قریب رہا اور دیکھا کہ جو شخص دنیا کے ہر انسان کو شکست دے چکا ہے اب شیطان کو کنکری بھی نہیں مار سکتا۔ کیا عجب منظر تھا حج کے دوران اکثر مقامات پر اس کی آنکھ سے آنسو گرتے دکھائی دیتے تھے اور وہ دنیا کا ایک عاجز انسان بن کر اپنے رب کے حضور حاضر تھا۔
محمد علی نے سارا حج اپنے ساتھی کی مدد سے کیا اور اس دوران دوسرے حاجیوں سے نہایت ہی محبت کے ساتھ ملتا رہا جو بزرگ حاجی ہوتا محمد علی اس کے سامنے جھک کر آداب بجالاتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ لوگ اس سے پیار کرتے ہیں چنانچہ وہ پیار کا جواب دینے میں ذرا بھر بھی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ جب انڈونیشیا کا صدر اس سے جھک کر مل رہا تھا تو محمد علی گھبرا گیا تھا اس کے چہرے پر شکریے کے تاثرات تھے الفاظ نہیں تھے جب کہ اس کی زبان انگریزی تھی۔
حج کے دوران حج کے مسائل سمجھنے میں کچھ الجھن رہی۔ آنحضرت ﷺ نے زندگی مبارک میں صرف ایک حج فرمایا تھا اس لیے ایک سعودی عالم نے بتایا کہ سب سے زیادہ مشکل حج کے مسائل ہیں کیونکہ حضور نے ایک ہی بار حج کے کسی موقع پر اپنے عمل سے بتایا کہ اسے کیسے سرانجام دینا ہے اسی لیے حج کے مسائل میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بہر کیف ہر فقہ میں جو مسائل درج ہیں وہی اس فقہ کے ماننے والوں کے لیے اہم ہیں اور حج تو ایک بہت ہی بڑی عبادت ہے جس میں مال و متاع بھی ضروری ہے اور جسمانی مشقت بھی مطلوب ہے مگر ہمارے ہاں سے کئی حجاج اپنی ضعیفی میں یہ فرض ادا کرتے ہیں اور بڑی مشکل کے ساتھ مناسک حج سے عہدہ برآ ہوتے ہیں مگر ہرحال میں حج کا فرض ادا کر جاتے ہیں۔
یہاں ایک بات کا ذکر شاید نامناسب نہ ہو کہ ہمارے بازاروں میں بڑے تاجروں نے اپنے نام کے ساتھ الحاج بھی لگایا ہوتا ہے مگر وہ جب بازار میں بیٹھتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں تو اپنے حج کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ گراں فروشی کے علاوہ ناقص اشیاء ضرورت بھی ان کے ہاں سے ہی ملتی ہیں اور وہ اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کبھی اللہ تبارک کے حضور حاضر ہوئے تھے، کبھی غصہ میں آ کر ان الحاج تاجروں سے گلہ بھی کر لیتے ہیں جس کے کئی جواب ان کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ بات ذرا آگے بڑھائیں تو یہ حرکت صرف تاجر ہی نہیں کرتے ہمارے سیاستدان ان سے بھی بڑھ گئے ہیں جن کی بداعمالی دور دور تک اثر کرتی ہے، دکانداروں سے کہیں زیادہ ان تمام اور ہر قسم کے حجاج حضرات سے عرض ہے کہ وہ مہربانی فرما کر اپنے نام کے ساتھ الحاج کا لاحقہ اڑا دیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے حج کو بدنام نہ کریں۔
حج پانچ لازمی عبادات میں سے ہے۔ اگر نماز، روزہ، زکوٰۃ کا عمل کرنے والے اپنے نام کے ساتھ اپنی کسی عبادت کو نتھی نہیں کرتے تو وہ حج کو بھی صاف کر دیں اور اللہ تبارک سے دعا کریں کہ ان کا حج سلامت رہے۔ ایک اندھے گداگر کے سامنے پڑے ہوئے خیرات کے سکوں میں سے کچھ ایک صاحب نے اٹھا لیے، گداگر نے آواز دی کہ حاجی صاحب میری خیرات واپس کر دیں۔ وہ شخص واپس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کس نے بتایا کہ میں حاجی ہوں۔ اس نے کہا یہ حرکت کوئی حاجی ہی کر سکتا ہے کہ کسی اندھے گداگر کو بھی معاف نہ کرے۔
میں ذکر تو اپنے سرکاری حج کا کر رہا تھا کہ بیچ میں دوسرے حجاج کرام بھی آگئے جنہوں نے اپنے خرچ پر حج کیا تھا لیکن حج سرکاری خرچ پر ہو یا اپنے خرچ پر اس کے احترام کو ہمیشہ برقرار رکھنا پڑتا ہے اور احتیاط اس میں ہے کہ نام کے ساتھ الحاج وغیرہ نہ لکھا جائے تاکہ ان کے اعمال سے حج محفوظ رہے۔