دوسرا لاہور

عیدالفطر کے برعکس عیدالاضحی مسلسل تین دن جاری رہتی ہے۔ ان تین دنوں میں کاروبار حیات قریب قریب بند رہتا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

عیدالفطر کے برعکس عیدالاضحی مسلسل تین دن جاری رہتی ہے۔ ان تین دنوں میں کاروبار حیات قریب قریب بند رہتا ہے۔ صرف قربانی اور قصائی سرگرم رہتے ہیں۔ یہ قربانی بکرے سے لے کر اونٹ تک کی ہوتی ہے اور اس دفعہ ٹی وی کیمرے کی برکت سے میں نے پہلی دفعہ ایک اونٹ کو نہتے انسانوں کے قابو میں دیکھا ہے اس حد تک کہ ان انسانوں نے اونٹ کو رسیوں میں جکڑ کر اس کی جان لے لی ہے۔

وہ تڑپا بہت اپنا پورا زور لگا دیا مگر وہ اپنی جان نہ بچا سکا اور نہ جانے کتنے گھروں کے چولہوں پر اسے بھون دیا گیا۔ کچھ ایسا ہی حال ان منہ زور اور بھاری بھرکم بیلوں کا ہوا۔ مضبوط اور اونچے لمبے اونٹوں اور بیلوں کی قربانی کا مضمون واحد ہے۔ جہاں تک چھوٹے چھوٹے بکروں کا تعلق ہے وہ طاقت ور انسانوں کے ہاتھوں میں ہی حلال ہو گئے۔

ان کو قابو میں لانے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہ پڑی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کے وقت قدرت نے ان کی جگہ دنبہ رکھ دیا تھا۔ اب دنبے زیادہ دستیاب نہیں ہیں لیکن ان کی جگہ بکروں کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں آپ سب کا دیکھا بھالا ہے لیکن مجھے کالم تو لکھنا ہی ہے، میں کیا کروں روٹی روزگار کا مسئلہ ہے۔

عیدالاضحیٰ میں قربانی کا ذکر ایک عام سی بات ہے۔ اصل میں آپ کا یہ کالم نگار اس لاہور شہر کی افسردگی کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو کبھی پورے برصغیر میں سیاسی اور تہذیبی زندگی کی اپنی مثال آپ تھا لیکن اب یہ نہ سیاسی رہا ہے نہ اس میں کلچرل اور تہذیبی شگفتگی موجود ہے۔

ایک پرانے لاہوری نے ایک بار مجھے بتایا کہ آزادی سے پہلے ہمارے انگریز حکمران کرسمس کا تہوار کلکتہ میں مناتے تھے یا لاہور میں۔ کلکتہ سے ان کی ہندوستان پر قبضہ کی سامراجی یادیں وابستہ تھیں اور لاہور میں لاہور تھا اپنی مثال آپ ایک شہر، اس شہر میں پردیسی حکمرانوں کے لیے بہت کچھ تھا اور وہ اس شہر میں اپنی تعیناتی پر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔


ایک انگریز اپنے ہندوستانی دوست سے کہنے لگا کہ جس انگریز نے رات کو رضائی اوڑھ لی اور کمبل کو پرے کر دیا وہ عمر بھر رضائی میں ہی سردیاں گزارتا رہا اور جس کسی نے صبح ناشتے میں پراٹھا کھا لیا ہو وہ کہیں بھی گیا پراٹھے کی لذت کو یاد کرتا رہا۔ یہ رضائی اور پراٹھا لاہور کا تحفہ ہے لیکن ان کو پسند کرنے والے چلے گئے اور اپنے پیچھے مصنوعی لاہوری چھوڑ گئے جو اب پرانے لاہور میں رہنا پسند نہیں کرتے اور نہ جانے لاہور شہر کے آس پاس دور قریب میں نئی آبادیاں بسالی ہیں جن کا ڈاک پتہ تو لاہور کا ہے مگر جن کے گھر بار لاہور کے نہیں ہیں اور نہ ہی اب ان پرانے گھروں میں کوئی رہنا پسند کرتا ہے۔

یہاں کاروبار کیا جاتا ہے اور سرشام یہاں کے تاجر اپنے نئے مصنوعی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ زیادہ تر موٹر سائیکلوں پر کیونکہ پرانے لاہور میں اب تک موٹر سائیکل ہی کامیاب سواری ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ لاہور کو اس کے لاہوری بھی چھوڑ رہے ہیں اور سیاستدان وقت پڑنے پر یہاں کسی کھلی جگہ پر کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور اپنی پارٹی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں بلکہ اب تو اونچے درجے کے لیڈر اندرون شہر کے گلی کوچوں میں بہت کم ہی آتے جاتے ہیں اور اپنے کارکنوں سے کام چلاتے ہیں۔ کھلے لاہور کے کسی پر فضا بنگلے میں رہنے والا لیڈر یہاں کا رخ نہیں کرتا۔ کہاں ایک کھلی فضا میں خوبصورت درختوں میں گھرا ہوا خوبصورت گھر اور کہاں اندرون لاہور کی متعفن گلیاں۔

شروع شروع میں پرانے لاہور میں آبادی سے متصل چند سیمنا گھر بھی ہوا کرتے تھے۔ بھاٹی دروازے میں بھاٹی چوک میں تین چار سینما تھے۔ اسی طرح ریلوے اسٹیشن کے قریب بھی ایک مشہور سینما تھا لیکن اب یہ سب پرانے سینما رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں بلکہ ہو چکے ہیں اور باہر کی آبادیوں میں نئے سینما گھر بن رہے ہیں۔ وقت کی ضرورت یہی ہے ہر قدیم کی جگہ جدید لے رہا ہے اور جدید زمانے کے لوگ انھی جدید سینماؤں سے دل بہلاتے ہیں اور خوش ہیں۔

لاہور کی تاریخ میں پہلی بار ٹیلی وژن ایک نئے انداز میں داخل ہوا ہے وہ سینما بھی ہے اور تھیٹر بھی اس میں خبریں بھی ہیں اور ڈرامے بھی ہیں، موسیقی بھی ہے اور معروف فنکاروں سے ملاقاتیں بھی جن کے ساتھ ٹی وی کے کارکن طویل انٹرویو کرتے ہیں اور سامعین کی پیاس بجھاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی نے دنیا ہی بدل دی ہے۔ ٹی وی کی موجودگی میں اب پرانے لاہور والے اپنا ذوق بدل نہ لیں تو کیا کریں۔ درست کہ ٹی وی باہر کے کھلے لاہور کی طرح اندرون لاہور بھی گرجتا برستا ہے لیکن ٹی وی کی اسکرین جس دنیا کا نظارہ کراتی ہے وہ اندرون شہر نہیں ہے۔ شہر سے باہر نکلیں تو وہ دکھائی دیتی ہے۔

اب تو لاہور کا کلاسکی بازار انار کلی بھی بدل چکا ہے۔ یہاں کے خریدار اب وہ نہیں جو زیادہ اندرون شہر کے گلی کوچوں سے نکل کر اس قریبی بازار میں آتے تھے اور اس کا ایک پھیرا ہی ہر شوق پورا کر دیتا تھا۔ آج کے انار کلی بازار میں یوں تو سب کچھ ہے مگر ماضی والی بات نہیں ہے۔ یہ انارکلی ایک بدلا ہوا بازار ہے جس کا سامان فروخت اور جس کے گاہک اب رفتہ رفتہ بدلتے جا رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کبھی اس کا نام ہی باقی رہ جائے، اس میں سے انار کلی نکل کر ادھر ادھر ہو جائے کسی دوسری دیوار میں۔
Load Next Story