امن اور امان دونوں بھائیوں کی تلاش کا کام

گیس، بجلی، ایمان اور ضمیر وغیرہ کی تو خیر ہمیشہ قلت رہتی ہے

barq@email.com

یہ پاکستان بھی عجیب و غریب ملک ہے۔ عجیب تو یہ پیدائشی تھا جب کہ غریب بنانے میں حکومتوں اور لیڈروں کی ''محنت شاقہ'' کا ہاتھ ہے۔ جب سے اسے قائد اعظم نے بنایا ہے اور مسلم لیگ نے پالا اور پوسا ہے تب سے یہاں کوئی نہ کوئی گمشدگی ہوتی رہتی ہے۔

گیس، بجلی، ایمان اور ضمیر وغیرہ کی تو خیر ہمیشہ قلت رہتی ہے لیکن بعض اوقات کچھ ایسی چیزیں بھی غائب ہو جاتی ہیں جن کی پیداوار کافی زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی پیاز، کبھی ٹماٹر، کبھی آلو، کچالو حتیٰ کہ اکثر تو جمہوریت بھی غائب ہو جاتی ہے حالانکہ جمہوریت کی پیداوار میں پاکستان کا اتنا بڑا نام ہے اور اس کی اتنی ورائٹیاں اور ترقی دادہ اقسام پائی جاتی ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے گوداموں میں جگہ نہیں ہوتی اور دساور کو بھیجنے کی نوبت آ جاتی ہے چنانچہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی بڑی ایکسپورٹ امپورٹ کمپنیاں اسے لندن اور دبئی وغیرہ میں ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ کماتی ہیں۔

خیر جمہوریت کو اسپرین کی گولی ماریئے اس وقت ہمیں ایک تازہ ترین ''گم شدہ'' کے بارے میں بات کرنی چاہیے، تازہ ترین تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ''قلت'' تو اس کی ہمیشہ رہتی ہے لیکن آج کل بالکل ہی نایاب اور نایافت ہو گئی ہے، اتنی زیادہ کہ سارا ملک اس کی تلاش میں سرگردان ہے۔ بڑے بڑے دانشور، موٹے موٹے لیڈر، فربہ فربہ علمائے کرام و مشائخ عظام، لمبے لمبے اینکر پرسن، شعراء ادباء حکما حمقاء جہلا سب کے سب اس کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں، کنوؤں میں بانس ڈالے جا رہے ہیں، گٹروں میں مقناطیس پھرائے جا رہے ہیں، لگ بھگ آدھا درجن قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑے وسیع پیمانے پر سڑک سڑک گلی گلی گھر گھر چپہ چپہ تحقیق و تفتیش کے جھنڈے اور ڈنڈے لہرا رہے ہیں لیکن

تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے

وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں، آنکھیں ترستیاں ہیں لیکن افسوس کہ یہ کم بخت گدھے کا سینگ اصلی ہینگ، سانپ کا پیر، بچھو کی آنکھ، چڑیا کا دودھ اور لیڈر کا ضمیر ہو چکا ہے، اگر آپ کا خیال کرپشن کی طرف جا رہا ہے تو اسے روک لیجیے، کرپشن تو صرف ہمارے صوبے کے پی کے عرف خیر پہ خیر میں ختم ہو چکی ہے اور یہ رپورٹ صوبے کے وزیر اعلیٰ نے دی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ بالخیر ہو چکا ہے، یہ جس چیز کی قلت کا رونا ہم رو رہے ہیں یہ صوبائی نہیں بلکہ ملکی مسئلہ ہے جو آہستہ آہستہ بین الاقوامی ہوتا جا رہا ہے، یہ جو ''امن'' ہے۔


اب تک ہم نے جتنے ٹی وی پروگرام دیکھے ہیں،جتنے بیانات پڑھے، جتنے مقالات بھگتے ہیں اور کالمات وغیرہ پڑھے ہیں، ان سب میں صرف ایک ہی رونا ہے کہ امن مفقود ہے، کہیں بھی نہیں مل رہا ہے بلکہ ساتھ ہی اس کا جڑوان بھائی ''امان'' بھی مفقود و الخبر ہو چکا ہے۔ گزشتہ آٹھ دس سالوں میں ہم نے کوئی چار پانچ ایسی تقریبات کانفرنسیں سیمینار اور ورکشاپ و گیراج وغیرہ اٹینڈ کیے ہوں گے جن کا موضوع امن یا امن کی تلاش یا بحالی جیسا کچھ تھا، دس کے حساب سے اگر ان تقریبات میں پڑھے جانے والے مقالات، نظموں، غزلوں اور تقریروں کا اندازہ لگایا جائے تو لگ بھگ دس کروڑ دس لاکھ دس سو دس تو ہوں گے ہی، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں اور اداریوں کی بھی اتنی تعداد شمار کر لیجیے۔

حساب لگایا کہ اب تک اگر کسی تنظیم نے امن کے موضوع پر کوئی تقریب برپا نہیں کی ہے تو ان میں انجمن کباڑیاں، تنظیم رشوت خوراں اور تنظیم تیسری جنساں کا نام لیا جا سکتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ان سطور کے چھپنے تک ان میں بھی کمی واقع ہو چکی ہو کیونکہ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ کبوتر بازوں، بٹیر بازوں اور مرغ بازوں کی تقریبات بھی برپا ہونے والی ہیں، اب تک جو مواد ہم نے تحریری اور تقریری صورت میں سنا ہے۔

بھگتا ہے اور نگلا ہے اسے اگر کتابی صورت دی جائے تو کاغذ کی ضرورت پورا کرنے کے لیے دو چار نئے کارخانے لگانا پڑیں گے اور بار برداری کے لیے تمام دنیا کے ریلویز اور ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنا پڑے گا، ان سب میں مشترکہ طور پر جو باتیں کہی گئی ہیں وہ تقریباً یہ ہیں کہ امن اور اس کا جڑواں بھائی امان ایک عرصے سے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ دنیا کا کونا کونا چھان مارا، دشت تو دشت دریا اور بحر ظلمات تک میں سرکاری گاڑیاں دوڑائیں لیکن وہی ڈھاک کا ایک پات... نہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں، ان کم بختوں کا سراغ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں صرف ایک ہی آپشن بچ جاتا ہے لیکن اس آپشن کے بارے میں بتانے سے پہلے آپ کو ایک لطیفہ یا کثیقہ خریدنا پڑے گا، کہتے ہیں ایک گاؤں میں ایک شخص وارد ہوا تو گاؤں کے ایک آدمی سے پوچھا، یہاں ایک زمانے میں دلاور نام کا ایک بہت بڑا مشہور آدمی ہوتا تھا، سارے علاقے میں اس کی دھاک تھی اور لوگ اس کا نام سن کر کانپنے لگتے، وہ جو بات کہتا پتھر کی لکیر ہو جاتی اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کی بات ماننے سے انکار کر پائے۔

اس آدمی نے اجنبی کو بتایا کہ وہ زمانے لد گئے جب دلاور کا طوطی بولتا تھا، اب کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا کیوں کہ اس سے کہیں زیادہ طاقت ور دبدبے اور شہرت والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ اجنبی نے اس آدمی سے پوچھا مثلاً آج کل دلاور کی جگہ کس کا شہرہ ہے۔ وہ آدمی تھوڑی سی کسر نفسی اختیار کرتے ہوئے بولا، لوگ آج کل تمہارے بھائی، اس خاکسار کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امن و امان کی تلاش میں ناکامی کے بعد دنیا کی انگلی ہماری طرف اٹھنا تھی اور وہ اٹھ گئی ہے کیوں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اس خاکسار کی تحقیقی و تفتیشی کارناموں کا بڑا شہرہ ہے کیوں کہ خاکسار نے لگ بھگ آدھے درجن تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پشتو اکیڈمی کے ماہرین سے استفادہ کیا ہوا ہے اور جو تحقیق کوئی اور ادارہ یا شخص نہیں کر پاتا اس کے لیے آخری قرعہ فال اس خاکسار کا پڑتا ہے مثلاً جب پاکستان کے دو وزیر اعظموں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا پتہ اقوام متحدہ سے لے کر دولت مشترکہ تک کوئی بھی نہیں چلا پایا تو وہ دونوں کیس اس خاکسار نے ''ایک ہی چٹکی'' میں حل کر دیے۔

دونوں قتل ''قاتل'' نے کیے تھے۔ پاکستان کا ایک بازو جس نے کاٹا تھا، اس کا پتہ بھی اسی خاکسار نے لگایا تھا۔ یہ کام دشمن نے کیا تھا اور دوستوں کی مدد سے کیا تھا، چنانچہ نہایت ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں اس کم بخت گم شدہ کی تلاش کا کام بھی اس خاکسار کو تفویض کیا گیا۔ تمام گواہوں کے بیانات جن میں چشم دیدوں اور گوش شنیدوں کے ساتھ خال گزیدہ گواہوں تک شامل تھے اور ساتھ ہی واقعاتی شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے پتہ چلا لیا کہ اصل میں دونوں بھائیوں امن اور امان کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا، دونوں نے ایک دوسرے کو مار ڈالا اور دونوں ہی نے ایک دوسرے کی لاشوں کو کسی نامعلوم مقام پر دفن بھی کر دیا۔ یہ بالکل ہی ویسا ہی ہوا تھا جیسے سانپ اور نیولے کی لڑائی میں سانپ نے نیولے کو اور نیولے نے سانپ کو نگل لیا تھا۔
Load Next Story