سوتلانا سچ کی رہ گزر پر
وہ استری کررہی تھی جب فون کی گھنٹی بجی، اس نے استری بند کی اور آگے بڑھ کر ریسیور اٹھایا۔
zahedahina@gmail.com
وہ استری کررہی تھی جب فون کی گھنٹی بجی، اس نے استری بند کی اور آگے بڑھ کر ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سویڈش اکیڈمی کی سارہ دانیوس تھی 'مادام ہماری کمیٹی نے آپ کو 2015 کے نوبل ادبی انعام کاحق دار قرار دیا ہے'۔ اسے بتایاگیا کہ اس اعزاز کے ساتھ ہی اسے 7 لاکھ 75ہزار پونڈ کی رقم بھی ملے گی ۔ اسے بے اختیار خیال آیا کہ میں جن 2 نئی کتابوں پر کام کرنا چاہتی تھی، اب وہ میرے لیے ممکن ہوسکے گا۔
یہ سابق سوویت یونین سے علیحدہ ہوجانے والے ملک بیلارس کی سوتلانا الیکزیوچ کی زندگی کی کہانی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب اس کے باپ کو فوجی ملازمت سے سبکدوش کردیا گیا تو ماں باپ بیلارس چلے گئے اوروہاں جاکر ان دونوں نے اسکول میں پڑھانا شروع کردیا۔1948 میں سوتلانا پیدا ہوئی۔ سوتلانا ابھی پڑھ رہی تھی جب اسے احساس ہوا کہ گھر کی خستہ حالی کو کم کرنے کے لیے اسے بھی کچھ کرنا چاہیے۔
یہی سوچ کر اس نے اپنی پڑھائی نامکمل چھوڑی اور اپنے شہر کے مقامی اخبار میں رپورٹر ہوگئی۔ رپورٹر ہونا اس کے لیے فخر کی بات تھی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ وہ 5 برس کی عمر سے لکھنا چاہتی تھی۔ اسے نصاب سے دلچسپی تو تھی لیکن کتابیں اس کے لیے نعمت تھیں ۔ اسے جو کتاب ، رسالہ یا اخبار کا ٹکڑا ملتا، وہ اسے پڑھ جاتی، لکھے ہوئے لفظوں سے والہانہ وابستگی نے اسے لکھنے پر مجبور کیا۔ وہ جس وقت مقامی اخبار میں رپورٹر کے طور پر کام کررہی تھی۔ اس وقت اس سمیت کسی نے بھی تصور نہیں کیا تھا کہ یہ سفر اسے کہاں تک لے جائے گا۔
وہ ناول نگار نہیں ، افسانہ نگار نہیں۔ اس کے بارے میں یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ وہ یاد نگار ہے ۔ جس طرح جغرافیہ داں کسی خطے ، علاقے یا شہر کی پیمائش کرتے ہیں اور اس کی تفصیل لکھتے ہیں اسی طرح سوتلانا گزشتہ 30 اور 40برسوں کے دوران سوویت یونین اور اس کی تحلیل کے بعد کے دنوں میں بھی افراد کی یادوں کو کھنگالتی رہی۔
اس نے ہزار وں عورتوں ، مردوں اور بچوں سے باتیں کیں ، وہ ان کی یادوں میں تیری، ان کی زندگی کی پرتوں کو آثارقدیمہ کے کسی ماہر کی طرح الٹ پلٹ کردیکھا ۔ یادیں ، یادوں کے انبار ، جذبوں کی شدت ، دوسری جنگ عظیم ، افغان جنگ، چرنوبل جیسا بھیانک سانحہ جس کا شکار ہونے والے انسانوں کے اندر آتش فشاں پھٹ پڑے ، جن کا لاوا کسی کو نظر نہیں آیا لیکن جن کی حدت نے انسانوں کو تہس نہس کردیا۔
چرنوبل کے ایٹمی بجلی گھر میں جو کچھ ہوا، اس نے جس طرح لاکھوں لوگوںکی زندگیاں ملیا میٹ کردیں، سوتلانا اس سانحے کو سہنے والوں تک پہنچی اور ان کی داستان درد لکھی۔ یہ کتاب جُو چرنوبل سے آنے والی آوازیں ، کے عنوان سے 1997 میں شایع ہوئی۔ اس میں درد کی ناقابل بیان داستانیں تھیں۔ اسی میں اس نوجوان کی زندگی کے آخری لمحے لکھے گئے جو فائر مین تھا، جوانی اس کے روئیں روئیں سے جھلکتی تھی۔ وہ چرنوبل کے جہنم کو سرد کرنے گیا اوروہاں سے واپس آکر اس نے اسپتال میں دودن گزارے۔ ان 48 گھنٹوں میں اس کی نوجوان بیوی اس کے سرہانے بیٹھی رہی۔
سوتلانا نے لکھا ہے کہ بیوی جب اس کا ہاتھ اٹھاتی تو گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا اور اندر سے ان کے سرکنے کی آوازآتی ۔ پھر وہ اپنے پھیپھڑوں اور جگر کے لوتھڑوں کی الٹی کرنے لگا۔ 'میں اپنے محبوب شوہر کے منہ سے وہ ٹکڑے نکالتی رہی۔ وہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا اور آج بھی ناقابل بیان ہے۔ وہ مجھے مردہ خانے میں لے گئے ۔ میری درخواست پر انھوں نے اس کے رہے سہے بدن پر آگ بجھانے والے کی وردی چڑھادی لیکن اس کے دونوں پاؤں اتنے سوج گئے تھے کہ اس کے ناپ کے جوتے نہ مل سکے۔ انھوں نے اسے ننگے پیر دفن کردیا۔ میرا محبوب آخری سفر پر جوتوں کے بغیر گیا'۔
ایسی ہی دل دوز زندگیاں ہیں جو سوتلانا نے لکھیں، جن کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے ایک نئی صنف ادب کو جنم، دیا ہے ۔ اس نے جذبوں کی ، اور روحوں کی تاریخ لکھی ہے۔ ادب میں سوتلانا کے مرشد ایس آدم وچ نے ایک کتاب 'محاصرے کی داستان' لکھی تھی۔ یوں تو سوتلانا کو آدم وچ کی تمام تحریریں بہت محبوب ہیں لیکن اس کتاب نے اس پر گہرا اثر چھوڑا۔ یہ 1941سے 1944 کے درمیان لنین گراڈ (پٹروگراڈ ) کے محاصرے کا رزمیہ ہے۔ وہ لڑائی جو اس شہر نے ہتھیاروں کے بغیر لڑی اور آخر کار فتح مند رہا۔
سوتلانا دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے 3 برس بعد پیداہوئی تھی ۔ اس کا بچپن ان عورتوں کے قصے سنتے گزرا جو شام کے بعد گاؤں کے کسی ایک گھر کے آنگن یا کمرے میں جمع ہوجاتیں اور ایک دوسرے کو اپنے مردوں کی بہادری کے قصے سناتیں ، یہ بتاتیں کہ بھوک کس طرح ان کی آنتوں میں دندناتی پھرتی تھی اور گرگٹ، چوہے اور سانپ اگر مل جاتے تو انھیں کس مہارت سے ماردیا جاتا تھا اور پھر ان کے گوشت سے بھوک کو شکست دی جاتی۔ بھوک جو انسانوں کی سب سے بڑی دشمن تھی۔ بھوک جس کا مقابلہ پٹروگراڈ کے لوگوں نے عزم وہمت سے کیا تھا۔ ہلاک ہوگئے تھے لیکن نازی فوجوں کے سامنے ہتھیا رنہیں ڈالے تھے۔ عورتیں یہ داستانِ درد سناتیں اور محاذ سے بچ کر آجانے والے مرد سستی شرابوں سے اپنا غم بہلاتے تھے۔
سوتلانا کہتی ہے کہ میں اس سوویت بیلارس میں پلی بڑھی نازیوں نے جہاں رہنے والے یہودیوں کو چن چن کر ماردیا تھا اور آس پاس کے جن دیہاتوں میں خانہ بدوش اور سلاف رہتے تھے، انھیں جلا کر خاکسترد کردیا تھا۔
بچپن میں سنی ہوئی یہی کہانیاں تھیں جنہوں نے اسے ان عورتوں سے سوالات پر مائل کیا جواب عمر رسیدہ تھیں اور جنہوں نے جنگ کے دنوں کو جھیلا تھا۔ یہی وہ انٹرویو تھے جو اختصار کے ساتھ' جنگ عورت کا چہرہ نہیں رکھتی، کے عنوان سے ماسکو کے ایک رسالے کی 1984 کی اشاعت میں شایع ہوا ۔ اس مضمون کو بیلارس کے کئی ناشروں نے شایع کرنے سے انکار کردیاتھا۔
اسے تقدیر کہیے یا اتفاق کہ یہ تحریر اس وقت کے سربراہ مائیکل گورباچوف کی نظر سے گزری اور انھوں نے اسے اپنی تقریر میں استعمال کیا۔ یہ گلاسناسٹ کی ابتداء تھی۔ مکمل شکل میں یہ کتاب 1985 میں شایع ہوئی اور اس کی 20 لاکھ جلدیں فروخت ہوگئیں۔ یہ کتاب ادبی حلقوں میں اس قدر مقبول ہوئی کہ سوتلانا کو 'لنین کوسومول ایوارڈ'دیاگیا جو اس وقت سوویت یونین کا سب سے بڑا شہری اعزاز تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس کتاب کا مکمل ایڈیشن شایع ہوا۔ سوتلانا نے اپنی اس کتاب کے فوراً بعد ان سیکڑوں لوگوں کے انٹرویو کیے جو دسری جنگ عظیم کے وقت بچے تھے، یہ کتاب جس کا نام '' آخری گواہیاں '' ہے ، یہ بھی بہت مقبول ہوئی ۔
ایک ایسے وقت میں سوتلانا نے افغانستان کا رخ کیا جہاں سوویت فوجیں افغان حکومت کی درخواست پر 1979 میں داخل ہوئی تھیں اور افغان باغیوں سے برسر جنگ تھیں۔ وہ کابل، قندھار اور دوسرے افغان شہروں میں گئی ۔ اس نے سوویت فوجیوں کے انٹرویوکیے اور وطن واپس جاکر ان کی ماؤں او ر ان کی بیواؤں سے ملی۔ اس نے اس کتاب کا نام ' زنک بوائز' رکھا ۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتی ہے کہ یہ جنگ سے میری پہلی ملاقات تھی۔ میں نے جو کچھ دیکھا، اس نے مجھے ہلاکر کررکھ دیا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ نوجوان کتنی آسانی سے قتل کرتے تھے۔ وہ ووڈ کا کی بوتلیں ختم کرتے، قہقہے لگاتے ۔ اپنی ماؤں کے لیے وہ کوئی یاد گاری تحفہ لے جانا چاہتے تھے لیکن روپے کہاں سے آئیں؟ وہ گولیاں اپنے دشمنوں کے ہاتھوں فروخت کردیتے ، جو اگلے دن ان ہی کو قتل کردینے کے کام آتی تھیں۔
اس کتاب نے سوتلانا کو سوویت یونین میں نہایت نامقبول بنادیا۔ اور اسی رفتار سے وہ یورپ کے ادبی اور دانشورا نہ حلقوں میں مقبول ہوتی گئی۔ آج جب کہ سوویت یونین کے انہدام کو زمانہ ہوا۔ اس وقت بھی بہت سے روسی سوتلانا سے ناراض ہیں۔ان کے خیال میں اس کو ادب کا نوبل انعام اس لیے دیاگیا ہے کہ اس نے دنیا میں روسیوں کا وہ چہرہ دکھایا ہے جو خوش نما نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مغرب کے لوگ اس بات سے مسرت محسوس کرتے ہیں اگر انھیں ہماری خامیاں نظر آئیں۔
مشکل یہ ہے کہ اس سے پہلے یہی الزامات بیونن ، پاستر ناک اور سولزے نتسن پر بھی لگے ہیں۔ اب سوتلانا بھی دشنام واتہام کا ہدف ہے۔ اسے کیا کہیے کہ ادب خواہ وہ افسانے اور ناول کی شکل میں ہو یا لوگوں کی گفتگوؤں کو اس شدت سے بیان کردینے کے رنگ میں کہ دل پر چھریاں چل جائیں ، وہ اول و آخر ادب ہے۔ اگر کسی بھی ملک کے حکمران اپنے لوگوں سے سچ کو چھپائیں اور اپنی فتوحات کے جھوٹے ترانے سنائیں، تو اس میں ان ادیبوں اور صحافیوں کا کیا قصور جو سچ لکھتے اور سچ کی پُر خطر رہ گزر پر چلتے ہیں۔
یہ سابق سوویت یونین سے علیحدہ ہوجانے والے ملک بیلارس کی سوتلانا الیکزیوچ کی زندگی کی کہانی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب اس کے باپ کو فوجی ملازمت سے سبکدوش کردیا گیا تو ماں باپ بیلارس چلے گئے اوروہاں جاکر ان دونوں نے اسکول میں پڑھانا شروع کردیا۔1948 میں سوتلانا پیدا ہوئی۔ سوتلانا ابھی پڑھ رہی تھی جب اسے احساس ہوا کہ گھر کی خستہ حالی کو کم کرنے کے لیے اسے بھی کچھ کرنا چاہیے۔
یہی سوچ کر اس نے اپنی پڑھائی نامکمل چھوڑی اور اپنے شہر کے مقامی اخبار میں رپورٹر ہوگئی۔ رپورٹر ہونا اس کے لیے فخر کی بات تھی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ وہ 5 برس کی عمر سے لکھنا چاہتی تھی۔ اسے نصاب سے دلچسپی تو تھی لیکن کتابیں اس کے لیے نعمت تھیں ۔ اسے جو کتاب ، رسالہ یا اخبار کا ٹکڑا ملتا، وہ اسے پڑھ جاتی، لکھے ہوئے لفظوں سے والہانہ وابستگی نے اسے لکھنے پر مجبور کیا۔ وہ جس وقت مقامی اخبار میں رپورٹر کے طور پر کام کررہی تھی۔ اس وقت اس سمیت کسی نے بھی تصور نہیں کیا تھا کہ یہ سفر اسے کہاں تک لے جائے گا۔
وہ ناول نگار نہیں ، افسانہ نگار نہیں۔ اس کے بارے میں یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ وہ یاد نگار ہے ۔ جس طرح جغرافیہ داں کسی خطے ، علاقے یا شہر کی پیمائش کرتے ہیں اور اس کی تفصیل لکھتے ہیں اسی طرح سوتلانا گزشتہ 30 اور 40برسوں کے دوران سوویت یونین اور اس کی تحلیل کے بعد کے دنوں میں بھی افراد کی یادوں کو کھنگالتی رہی۔
اس نے ہزار وں عورتوں ، مردوں اور بچوں سے باتیں کیں ، وہ ان کی یادوں میں تیری، ان کی زندگی کی پرتوں کو آثارقدیمہ کے کسی ماہر کی طرح الٹ پلٹ کردیکھا ۔ یادیں ، یادوں کے انبار ، جذبوں کی شدت ، دوسری جنگ عظیم ، افغان جنگ، چرنوبل جیسا بھیانک سانحہ جس کا شکار ہونے والے انسانوں کے اندر آتش فشاں پھٹ پڑے ، جن کا لاوا کسی کو نظر نہیں آیا لیکن جن کی حدت نے انسانوں کو تہس نہس کردیا۔
چرنوبل کے ایٹمی بجلی گھر میں جو کچھ ہوا، اس نے جس طرح لاکھوں لوگوںکی زندگیاں ملیا میٹ کردیں، سوتلانا اس سانحے کو سہنے والوں تک پہنچی اور ان کی داستان درد لکھی۔ یہ کتاب جُو چرنوبل سے آنے والی آوازیں ، کے عنوان سے 1997 میں شایع ہوئی۔ اس میں درد کی ناقابل بیان داستانیں تھیں۔ اسی میں اس نوجوان کی زندگی کے آخری لمحے لکھے گئے جو فائر مین تھا، جوانی اس کے روئیں روئیں سے جھلکتی تھی۔ وہ چرنوبل کے جہنم کو سرد کرنے گیا اوروہاں سے واپس آکر اس نے اسپتال میں دودن گزارے۔ ان 48 گھنٹوں میں اس کی نوجوان بیوی اس کے سرہانے بیٹھی رہی۔
سوتلانا نے لکھا ہے کہ بیوی جب اس کا ہاتھ اٹھاتی تو گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا اور اندر سے ان کے سرکنے کی آوازآتی ۔ پھر وہ اپنے پھیپھڑوں اور جگر کے لوتھڑوں کی الٹی کرنے لگا۔ 'میں اپنے محبوب شوہر کے منہ سے وہ ٹکڑے نکالتی رہی۔ وہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا اور آج بھی ناقابل بیان ہے۔ وہ مجھے مردہ خانے میں لے گئے ۔ میری درخواست پر انھوں نے اس کے رہے سہے بدن پر آگ بجھانے والے کی وردی چڑھادی لیکن اس کے دونوں پاؤں اتنے سوج گئے تھے کہ اس کے ناپ کے جوتے نہ مل سکے۔ انھوں نے اسے ننگے پیر دفن کردیا۔ میرا محبوب آخری سفر پر جوتوں کے بغیر گیا'۔
ایسی ہی دل دوز زندگیاں ہیں جو سوتلانا نے لکھیں، جن کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے ایک نئی صنف ادب کو جنم، دیا ہے ۔ اس نے جذبوں کی ، اور روحوں کی تاریخ لکھی ہے۔ ادب میں سوتلانا کے مرشد ایس آدم وچ نے ایک کتاب 'محاصرے کی داستان' لکھی تھی۔ یوں تو سوتلانا کو آدم وچ کی تمام تحریریں بہت محبوب ہیں لیکن اس کتاب نے اس پر گہرا اثر چھوڑا۔ یہ 1941سے 1944 کے درمیان لنین گراڈ (پٹروگراڈ ) کے محاصرے کا رزمیہ ہے۔ وہ لڑائی جو اس شہر نے ہتھیاروں کے بغیر لڑی اور آخر کار فتح مند رہا۔
سوتلانا دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے 3 برس بعد پیداہوئی تھی ۔ اس کا بچپن ان عورتوں کے قصے سنتے گزرا جو شام کے بعد گاؤں کے کسی ایک گھر کے آنگن یا کمرے میں جمع ہوجاتیں اور ایک دوسرے کو اپنے مردوں کی بہادری کے قصے سناتیں ، یہ بتاتیں کہ بھوک کس طرح ان کی آنتوں میں دندناتی پھرتی تھی اور گرگٹ، چوہے اور سانپ اگر مل جاتے تو انھیں کس مہارت سے ماردیا جاتا تھا اور پھر ان کے گوشت سے بھوک کو شکست دی جاتی۔ بھوک جو انسانوں کی سب سے بڑی دشمن تھی۔ بھوک جس کا مقابلہ پٹروگراڈ کے لوگوں نے عزم وہمت سے کیا تھا۔ ہلاک ہوگئے تھے لیکن نازی فوجوں کے سامنے ہتھیا رنہیں ڈالے تھے۔ عورتیں یہ داستانِ درد سناتیں اور محاذ سے بچ کر آجانے والے مرد سستی شرابوں سے اپنا غم بہلاتے تھے۔
سوتلانا کہتی ہے کہ میں اس سوویت بیلارس میں پلی بڑھی نازیوں نے جہاں رہنے والے یہودیوں کو چن چن کر ماردیا تھا اور آس پاس کے جن دیہاتوں میں خانہ بدوش اور سلاف رہتے تھے، انھیں جلا کر خاکسترد کردیا تھا۔
بچپن میں سنی ہوئی یہی کہانیاں تھیں جنہوں نے اسے ان عورتوں سے سوالات پر مائل کیا جواب عمر رسیدہ تھیں اور جنہوں نے جنگ کے دنوں کو جھیلا تھا۔ یہی وہ انٹرویو تھے جو اختصار کے ساتھ' جنگ عورت کا چہرہ نہیں رکھتی، کے عنوان سے ماسکو کے ایک رسالے کی 1984 کی اشاعت میں شایع ہوا ۔ اس مضمون کو بیلارس کے کئی ناشروں نے شایع کرنے سے انکار کردیاتھا۔
اسے تقدیر کہیے یا اتفاق کہ یہ تحریر اس وقت کے سربراہ مائیکل گورباچوف کی نظر سے گزری اور انھوں نے اسے اپنی تقریر میں استعمال کیا۔ یہ گلاسناسٹ کی ابتداء تھی۔ مکمل شکل میں یہ کتاب 1985 میں شایع ہوئی اور اس کی 20 لاکھ جلدیں فروخت ہوگئیں۔ یہ کتاب ادبی حلقوں میں اس قدر مقبول ہوئی کہ سوتلانا کو 'لنین کوسومول ایوارڈ'دیاگیا جو اس وقت سوویت یونین کا سب سے بڑا شہری اعزاز تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس کتاب کا مکمل ایڈیشن شایع ہوا۔ سوتلانا نے اپنی اس کتاب کے فوراً بعد ان سیکڑوں لوگوں کے انٹرویو کیے جو دسری جنگ عظیم کے وقت بچے تھے، یہ کتاب جس کا نام '' آخری گواہیاں '' ہے ، یہ بھی بہت مقبول ہوئی ۔
ایک ایسے وقت میں سوتلانا نے افغانستان کا رخ کیا جہاں سوویت فوجیں افغان حکومت کی درخواست پر 1979 میں داخل ہوئی تھیں اور افغان باغیوں سے برسر جنگ تھیں۔ وہ کابل، قندھار اور دوسرے افغان شہروں میں گئی ۔ اس نے سوویت فوجیوں کے انٹرویوکیے اور وطن واپس جاکر ان کی ماؤں او ر ان کی بیواؤں سے ملی۔ اس نے اس کتاب کا نام ' زنک بوائز' رکھا ۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتی ہے کہ یہ جنگ سے میری پہلی ملاقات تھی۔ میں نے جو کچھ دیکھا، اس نے مجھے ہلاکر کررکھ دیا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ نوجوان کتنی آسانی سے قتل کرتے تھے۔ وہ ووڈ کا کی بوتلیں ختم کرتے، قہقہے لگاتے ۔ اپنی ماؤں کے لیے وہ کوئی یاد گاری تحفہ لے جانا چاہتے تھے لیکن روپے کہاں سے آئیں؟ وہ گولیاں اپنے دشمنوں کے ہاتھوں فروخت کردیتے ، جو اگلے دن ان ہی کو قتل کردینے کے کام آتی تھیں۔
اس کتاب نے سوتلانا کو سوویت یونین میں نہایت نامقبول بنادیا۔ اور اسی رفتار سے وہ یورپ کے ادبی اور دانشورا نہ حلقوں میں مقبول ہوتی گئی۔ آج جب کہ سوویت یونین کے انہدام کو زمانہ ہوا۔ اس وقت بھی بہت سے روسی سوتلانا سے ناراض ہیں۔ان کے خیال میں اس کو ادب کا نوبل انعام اس لیے دیاگیا ہے کہ اس نے دنیا میں روسیوں کا وہ چہرہ دکھایا ہے جو خوش نما نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مغرب کے لوگ اس بات سے مسرت محسوس کرتے ہیں اگر انھیں ہماری خامیاں نظر آئیں۔
مشکل یہ ہے کہ اس سے پہلے یہی الزامات بیونن ، پاستر ناک اور سولزے نتسن پر بھی لگے ہیں۔ اب سوتلانا بھی دشنام واتہام کا ہدف ہے۔ اسے کیا کہیے کہ ادب خواہ وہ افسانے اور ناول کی شکل میں ہو یا لوگوں کی گفتگوؤں کو اس شدت سے بیان کردینے کے رنگ میں کہ دل پر چھریاں چل جائیں ، وہ اول و آخر ادب ہے۔ اگر کسی بھی ملک کے حکمران اپنے لوگوں سے سچ کو چھپائیں اور اپنی فتوحات کے جھوٹے ترانے سنائیں، تو اس میں ان ادیبوں اور صحافیوں کا کیا قصور جو سچ لکھتے اور سچ کی پُر خطر رہ گزر پر چلتے ہیں۔