یہ پنشن پر زندہ رہنے والے

پوری زندگی کسی ملازمت میں کھپا دینے کے بعد ایسے فریادی کسی نہ کسی شکل و صورت میں دکھائی دیتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

KARACHI:
پوری زندگی کسی ملازمت میں کھپا دینے کے بعد ایسے فریادی کسی نہ کسی شکل و صورت میں دکھائی دیتے ہیں جب ان کا ذریعہ معاش ان سے چھن چکا ہوتا ہے اور عمر بھر کی ملازمت کے بعد حکومت ان کے لیے جو پنشن مقرر کرتی ہے وہ نہ صرف بہت کم ہوتی ہے بلکہ اس کا حصول بھی اس ضعیف العمری میں ایک جان لیوا مسئلہ بن جاتا ہے۔

لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے باہر کبھی ایسے بزرگ جان سے گزر رہے ہوتے ہیں جن کی پنشن انھیں نہیں ملتی اور وہ کسی سرکاری دفتر یا ڈاک خانے کے باہر فریادی بن کر باقی ماندہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے مصائب کو بعض اوقات کوئی اخبار والا چھاپ دیتا ہے لیکن اس کا اثر شاید ہی ہوتا ہے۔ پہلے تو عمر بھر نوکری کریں اور جب نوکری تمام ہو اور پنشن مقرر ہو تو اس کو حاصل کرنے کے لیے بچی کھچی زندگی داؤ پر لگا دی جائے کہ شاید یہ عمر بھر کا اثاثہ زندگی کے مشکل ترین وقت میں کسی کام آ سکے۔

پنشن کی آس میں زندہ رہنے والے ملازمین اپنی تھوڑی سی پنشن سے کتنی امیدیں باندھ لیتے ہیں اور کن تمناؤں میں ان کی زندگی گزرتی ہے خدا نہ کرے کہ آپ بھی کبھی پنشنر ہوں اور اس عذاب سے گزریں وہ بھی زندگی کے آخری لمحوں میں۔ ایک زمانہ تھا جب کبھی پنشنر حضرات کی حالت کی رپورٹنگ کرنی پڑ جاتی تھی اور ان کے دفتر میں ان کے صاحبوں سے رابطہ کرنا پڑتا جو اس پنشن کو کسی نہ کسی بہانے روک کر بیٹھے ہوتے تھے تو ان کا اس سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا کہ جب آپ بھی پنشنر ہوں گے تو کیا ہو گا۔

کیا آپ یہ سلوک برداشت کریں گے بلکہ یہ ذلت جو آپ کے کل کے ساتھی اس وقت آپ کے ہاتھوں برداشت کر رہے ہیں اور اگر آپ دفتر کے باہر جھانک کر دیکھیں تو کسی دیوار کی ٹیک لے کر کھانستے ہوئے آپ کے یہ ساتھی کس جرم کی سزا جھیل رہے ہیں اور آپ ان پر ترس کیوں نہیں کھاتے۔ یوں لگتا ہے کہ انسان کے اندر کچھ ایسی انتقامی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے کسی پرانے ساتھی سے نہیں خود اپنے آپ سے انتقام لیتے ہیں بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہر اس دفتر کی راہداریوں میں جاری رہتا ہے جہاں پنشن بنا کرتی ہے یا پنشن بننے کا سلسلہ کبھی جاری ہو جاتا ہے۔

ہمارے سیاستدان چونکہ عموماً خوشحال لوگ ہوتے ہیں اور پنشن ایسی اذیت سے محفوظ اس لیے وہ اس طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے جب کہ ان کو لوگوں کے انھی مسائل کے لیے اسمبلیوں میں بھیجا جاتا ہے جب عمر رسیدہ کمزور ہاتھوں میں مطالبے کا کتبہ اٹھا کر کوئی پنشنر کسی اسمبلی کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے تو ہم باہر سے دیکھنے والوں کو ان کی آہ سے ڈر لگتا ہے یہ پنشنر چونکہ عموماً پڑھے لکھے ہوتے ہیں اس لیے یہ اپنے کسی احتجاج میں شائستگی برتتے ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔


ضرورت انسان کی نس نس میں اتر چکی ہوتی ہے۔ ایسی درخواستیں تو بہت موصول ہوتی ہیں لیکن ہم لوگ سیاستدانوں سے فارغ ہوں تو ان کی طرف توجہ کریں۔ بظاہر ایک خوش پوش طبقہ کی طرف سے زیادہ موصول ہوئی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین آپ کی توجہ خالصتاً انسانی مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ عرصہ دراز سے ہمیں اپنے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے،ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری COMMUTATION کی رقم بھی ادا نہیں کی جا رہی جو کہ ہمارے بڑھاپے کا واحد بڑا سہارا ہے۔ جسے ہم پس انداز کر کے یا کسی کاروبار میں لگا کر مناسب اور جائز فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

ہمارا دوسرا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ پنشن کا ہے جو اس بڑھاپے کی عمر میں ہمارے لیے آب حیات سے کم نہیں ۔

ہم آپ سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں جب حکومت پاکستان ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشنوں میں اضافہ کرتی ہے اس کا اطلاق تمام سرکاری اور خود مختار اداروں کے پنشنروں پر بھی خود بخود ہونا چاہیے لیکن بعض ادارے پنشن میں اضافہ نہیں کر رہے۔

ہمیں امید ہے کہ آپ بے کس' لاچار غریب اور بوڑھے پنشنروں کا ضرور سہارا بنیں گے۔اللہ تعالیٰ یقیناً بوڑھے بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر جزا دینگے (انشاء اللہ)۔ کمیوٹیشن کی رقم سے بوڑھے پنشنرز کوئی پلاٹ' مکان' بچوںکی تعلیم و شادی' حج اور عمرہ و دیگر امور نپٹا لیتے تھے اس سے بھی وہ اب گئے۔اب تو میڈیکل بل ادا نہ کرنے پر میڈیکل اسٹور والوں نے ادویات دینا بھی بند کر دی ہیں۔

ریٹائر ملازمین کمیوٹیشن کی رقم کو قومی بچت اسکیم میں لگاکر اپنی گزر اوقات کر لیتا تھا اب وہ کیا کرے جب اسے یہ رقم ہی نہ مل رہی ہو۔
Load Next Story