گرتا پڑتا لاہور

بہر کیف اب قدرت کے اس حملے سے وہ شکست کھانے والے ہیں۔ نہ ہی یہ دیواریں دوبارہ تعمیر کی جا سکتی ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
اس بحث میں پڑے بغیر کہ پرانے لاہور کی عمر کتنی ہے حالیہ زلزلے نے ہمارے اس پیارے شہر کی قدیم دیواریں بھی ہلا دی ہیں۔ شاہی قلعے کی ہم عمر اور ہم وزن بھاری بھر کم دیواریں دیکھ کر ڈر لگتا ہے کئی دیواروں میں دراڑیں سامنے ظاہر ہو گئی ہیں اور ان دیواروں کی پناہ میں مدت مدیر سے رہنے والے اب پہلی بار خطرے میں قدرے بے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ پرانے لاہور کی دیکھ بھال کرنے والے سرکاری اہلکار پریشان ہو گئے ہیں۔ پہلے سے ہی بوسیدہ قرار دی جانے والی دیواریں فوری طور پر دوبارہ چیک کی جا رہی ہیں کیونکہ حالیہ زلزلے سے کئی عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں یعنی دیواروں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے والے سلسلے کمزور پڑ گئے ہیں اور اس وجہ سے ان عمارتوں میں مقیم لاکھوں لاہوری صدیوں بعد زندگی سے خوفزدہ اور غیر محفوظ دکھائی دیتے ہیں لیکن جائیں تو جائیں کہاں۔ خدا جانے ان کے وہ کون آباؤ اجداد تھے جنہوں نے ان بھاری دیواروں کی پناہ میں زندگی بسر کرنے کا آغاز کیا اور مکمل حفاظت کے ساتھ وقت گزارتے رہے اور ان دیواروں کی پناہ میں شہر کے حملہ آوروں کا مقابلہ بھی کرتے رہے۔

بہر کیف اب قدرت کے اس حملے سے وہ شکست کھانے والے ہیں۔ نہ ہی یہ دیواریں دوبارہ تعمیر کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی وہ زندگی لوٹ سکتی ہے جو ان دیواروں کے سائے اور پیار میں جوان ہوئی۔ ان جذباتی باتوں کو ایک طرف رکھ کر حقیقت پسند ماہرین کا خیال ہے کہ بوسیدہ قرار دی گئی عمارتوں کو دوبارہ چیک کیا جائے یعنی ان کی زندگی کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ کسی وقت بھی کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ اندر سے ہلی ہوئی دیواریں کسی جھٹکے سے لڑ کھڑا کر گر سکتی ہیں اور پھر کیا ہو گا اس کا تصور بھی آسان نہیں ہے۔ کافی پہلے بوسیدہ اور ازکار رفتہ دیواروں کا معائنہ کیا گیا تھا۔ اس سروے سے پتہ چلا کہ کوئی 434 عمارتیں خطرناک حالت میں ہیں چنانچہ ان میں سے 52 عمارتوں کو مسمار بھی کر دیا گیا جب کہ ابھی زندہ رہنے والی عمارتوں میں 108 عمارتوں کو مرمت کر دیا گیا۔ ضلعی حکومت نے جو سروے کرایا تھا اس کی رپورٹ کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں کمزور عمارتوں کی صورت حال یہ تھی۔


داتا گنج بخش ٹاؤن 169عمارتیں، راوی ٹاؤن میں 17، شالیمار ٹاؤن میں 56، اقبال ٹاؤن میں 15، نشتر ٹاؤن میں 7 عدد، سمن آباد ٹاؤن میں 77، گلبرگ ٹاؤن میں 16، واہگہ ٹاؤن میں 15، عزیز بھٹی ٹاؤن میں 64 اور اسی طرح بعض دوسرے علاقوں کی مخدوش عمارتوں کے مالکان کو نوٹس دیے گئے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں ایسی عمارتوں کا شمار مشکل ہے جو اب بوسیدہ ہو چکی ہیں اور اپنے رہائشیوں کے لیے خطرہ ہیں۔ یوں تو پرانی عمارتیں ایک مستقل خطرہ بنی رہتی ہیں لیکن حالیہ زلزلے نے اس خطرہ کو ہر شہری کے لیے جان لیوا بنا دیا ہے۔ اللہ کا فضل ہوا کہ لاہور زلزلہ سے بڑی حد تک بچ گیا لیکن جیسا کہ بتایا ہے اس زلزلے نے بھی شہر کی بعض دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دیوار خدا نہ کرے اکیلے نہیں گرتی وہ قریبی ملحقہ دیواروں کو بھی لے کر گرتی ہے۔

لاہور کو جو خطرہ لاحق ہے یہ مستند انجینئروں کا تجزیہ ہے جو کسی ایسے خطرے کی نشان دہی تو کر سکتے ہیں مگر اس کا عملاً کوئی علاج ان کے پاس نہیں ہے یہ حکومت کا کام ہے اور اتنے فنڈ حکومت کے پاس ہی ہوتے ہیں جو ایسے خطروں کو دور کر سکتی ہے۔ لاہور میں پرانے اور قدیمی لاہور کے تحفظ کے لیے ایک ادارہ موجود ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ لاہور کو بچانے کی کوشش کرے۔ اس ادارے کے پاس وسائل بھی موجود ہیں تربیت یافتہ عملہ بھی ہے اور پرانی عمارتوں کے مالکان بھی تعاون کے لیے ظاہر ہے کہ تیار ہوں گے۔ خود لاہور کے عام شہری بھی اس شہر کے تحفظ اور خوبصورتی کے لیے خوبصورت جذبہ رکھتے ہیں۔ دنیا میں کئی ایسے پرانے شہر موجود ہیں جن کی جوانی بحال کی گئی ہے بلکہ بعض شہر تو پہلے سے زیادہ خوبصورت بن گئے ہیں لیکن لازم ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی اور پرائیویٹ ادارے بھی سرگرم ہوں۔

لاہور تو واقعی خطرہ میں ہے زلزلے نے اس شہر کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور اگر اس صورت حال پر فوری توجہ نہ دی گئی اور اسے حالات کی گردش پر چھوڑ دیا گیا تو پھر کبھی کوئی خطرہ قابو سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اسی شہر کے ہیں اور وہ اس شہر سے ایک جذباتی تعلق بھی رکھتے ہیں۔ ہمیں ان سے اور ان کے بھائی سے یہ توقع ہے کہ وہ لاہور کو بچالیں گے اور یہ شہر اس قوم کا ایک ورثہ ہے جس کی حفاظت حکمرانوں کے لیے لازم ہے۔ امیدیں تو بہت ہیں اور جائز بھی ہیں ہم پردیسی تو کسی دن لاہور سے چلے جائیں گے مگر لاہور کو تو باقی رہنا ہے۔
Load Next Story