ایک حیرت انگیز سائنسی انکشاف
کائنات کے عجائبات اپنے انکشاف کے ساتھ ہی انسانی ذہن کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں
کائنات کے عجائبات اپنے انکشاف کے ساتھ ہی انسانی ذہن کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں، فوٹو: فائل
LONDON:
کائنات کے عجائبات اپنے انکشاف کے ساتھ ہی انسانی ذہن کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں جس طرح کہ یورپی خلائی جہاز پر سوار خلانورد سائنسدان اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب ایک دمبالہ سیارہ comet سورج کے قدرے قریب سے گزرا، تو انھوں نے اس کومٹ پر آکسیجن کا ایک بڑا ذخیرہ اپنی اصلی حالت میں چمکتے دیکھا۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر آندرے بیلر نے کہا ہے کہ اس نئے انکشاف سے تو ہمارے شمسی نظام کی تخلیق کے بارے میں جو سائنسی نظریات پہلے پیش کیے گئے ہیں ان پر نظرثانی کرنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔
اس متذکرہ دمبالہ سیارچے کو سائنسدانوں نے شناخت کے لیے 76P کا نمبر لگا دیا ہے۔ سائنسدانوں نے نظام شمسی کی تشکیل کو 4.6 ارب سال قدیم قرار دے رکھا ہے۔ مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر بیلر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے دمبالے پر آکسیجن کا یہ ذخیرہ نظام شمسی کی تشکیل سے بھی پہلے کا ہو۔ اس سے قبل سائنسدان دمبالہ سیارچوں پر آکسیجن کی موجودگی کو یکسر خارج از امکان قرار دے چکے تھے۔ واضح رہے آکسیجن کو سائنسی اصطلاح میں O2کہا جاتا ہے جب کہ پانی کوO H2 یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن اکٹھی، جو مل کر پانی بن جاتی ہیں۔
اور چونکہ آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جو کسی بھی دوسری چیز میں با آسانی مِکس ہو جاتی ہے اس لیے سائنسدانوں کو حیرت ہے کہ اتنے اربوں سال آکسیجن کا یہ بھاری ذخیرہ اپنی خالص حالت میں کس طرح محفوظ رہا۔ اب اس معاملہ پر یورپ کی روبوٹ لیبارٹری میں تفصیل سے تحقیق کی جائے گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہماری زمین یعنی کرۂ ارض کے علاوہ زہرہ اور مشتری سیاروں پر آکسیجن کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس نئے انکشاف سے آگے کون کون سی راہیں کشادہ ہونگی اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے سائنسدان اب حقیقی معنوں میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگے ہیں جب کہ ہم آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی ملک اس خلائی علم کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے اپنے پاس سے اخراجات اکٹھے کرے بلکہ اب تو جو ممالک اس میدان میں موجود ہیں وہ دوسروں کے اشتراک کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
روس امریکا اپنی دیرینہ دشمنی کے باوجود اس میدان میں ہمقدم ہیں۔ یورپ والوں کا اپنا الگ خلائی نظام ہے اور مزے کی بات یہ کہ روس نے مکمل روسی خواتین پر مشتمل ایک خلائی ٹیم کو چاند کے مشن پر بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کیا ہمارے وطن عزیز میں کوئی خاتون خلا باز ی کے لیے تیار ہے؟
کائنات کے عجائبات اپنے انکشاف کے ساتھ ہی انسانی ذہن کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں جس طرح کہ یورپی خلائی جہاز پر سوار خلانورد سائنسدان اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب ایک دمبالہ سیارہ comet سورج کے قدرے قریب سے گزرا، تو انھوں نے اس کومٹ پر آکسیجن کا ایک بڑا ذخیرہ اپنی اصلی حالت میں چمکتے دیکھا۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر آندرے بیلر نے کہا ہے کہ اس نئے انکشاف سے تو ہمارے شمسی نظام کی تخلیق کے بارے میں جو سائنسی نظریات پہلے پیش کیے گئے ہیں ان پر نظرثانی کرنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔
اس متذکرہ دمبالہ سیارچے کو سائنسدانوں نے شناخت کے لیے 76P کا نمبر لگا دیا ہے۔ سائنسدانوں نے نظام شمسی کی تشکیل کو 4.6 ارب سال قدیم قرار دے رکھا ہے۔ مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر بیلر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے دمبالے پر آکسیجن کا یہ ذخیرہ نظام شمسی کی تشکیل سے بھی پہلے کا ہو۔ اس سے قبل سائنسدان دمبالہ سیارچوں پر آکسیجن کی موجودگی کو یکسر خارج از امکان قرار دے چکے تھے۔ واضح رہے آکسیجن کو سائنسی اصطلاح میں O2کہا جاتا ہے جب کہ پانی کوO H2 یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن اکٹھی، جو مل کر پانی بن جاتی ہیں۔
اور چونکہ آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جو کسی بھی دوسری چیز میں با آسانی مِکس ہو جاتی ہے اس لیے سائنسدانوں کو حیرت ہے کہ اتنے اربوں سال آکسیجن کا یہ بھاری ذخیرہ اپنی خالص حالت میں کس طرح محفوظ رہا۔ اب اس معاملہ پر یورپ کی روبوٹ لیبارٹری میں تفصیل سے تحقیق کی جائے گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہماری زمین یعنی کرۂ ارض کے علاوہ زہرہ اور مشتری سیاروں پر آکسیجن کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس نئے انکشاف سے آگے کون کون سی راہیں کشادہ ہونگی اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے سائنسدان اب حقیقی معنوں میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگے ہیں جب کہ ہم آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی ملک اس خلائی علم کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے اپنے پاس سے اخراجات اکٹھے کرے بلکہ اب تو جو ممالک اس میدان میں موجود ہیں وہ دوسروں کے اشتراک کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
روس امریکا اپنی دیرینہ دشمنی کے باوجود اس میدان میں ہمقدم ہیں۔ یورپ والوں کا اپنا الگ خلائی نظام ہے اور مزے کی بات یہ کہ روس نے مکمل روسی خواتین پر مشتمل ایک خلائی ٹیم کو چاند کے مشن پر بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کیا ہمارے وطن عزیز میں کوئی خاتون خلا باز ی کے لیے تیار ہے؟