عمران خان زندہ باد
ایک ایسے ملک میں جہاں الیکشن کی روایت کچھ زیادہ پختہ نہیں ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
ایک ایسے ملک میں جہاں الیکشن کی روایت کچھ زیادہ پختہ نہیں ہے اور ہار جیت کو سیاسی نہیں خونریزی تک ذاتی سمجھا جاتا ہے وہاں بلدیاتی یعنی گاؤں گاؤں اور گھر گھر الیکشن کرائے گئے پھر ان انتخابات کی رونق کے لیے ایک بڑے امیدوار کی عالمی فیشنی شادی بھرے بازار میں تڑک کر کے ٹوٹ گئی جس کا اچھا یا برا نتیجہ اب تک نکلتا جا رہا ہے بلکہ یہ بھی ایک لڑائی بن گئی ہے کہ عمران خان سخت تلخ ہو کر کہتے ہیں کہ ان کی بیوی ریحام کے بارے میں کوئی سوال نہ پوچھا جائے۔
ذاتی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہو سکتی یہ ہمارے کلچر میں جائز نہیں۔ خان صاحب کئی دنوں سے یعنی جب سے انھوں نے طلاق کا کارنامہ سر انجام دیا ہے بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ذاتی مسئلہ ہے اسے عوامی مسئلہ نہ بنایا جائے اور سارا قصہ ٹھپ دیا جائے۔ایک حد تک خان صاحب کی بات شاید درست بھی ہو کہ اس مسئلے میں چونکہ خان صاحب نے ایک خاتون کو بھی ملوث کر دیا ہے اس لیے وہ اسے باپردہ مسئلہ بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ وہ اب کرکٹ کے کھلاڑی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور سیاستدان بن کر سیاست میں آئے ہیں اور سیاستدان کی زندگی ہرگز نجی زندگی نہیں ہوتی وہ عوام کی میراث بن جاتی ہے اور عوام اس پر محفلوں اور مجلسوں میں بحث کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
وہ یہ سب بلا جھجھک کرتے ہیں کیونکہ کسی سیاستدان کی خانگی زندگی بھی سیاسی اور پبلک زندگی ہوا کرتی ہے۔ جناب خان صاحب سیاست میں تو آ گئے لیکن سیاسی بن کر نہیں آئے وہ ابھی تک کرکٹر قسم کی کوئی چیز ہیں اور اس کے انداز میں ہی سیاست بھی کرتے ہیں، بہر کیف خان صاحب لاکھ کہیں کہ ان کی زندگی کے کچھ پرائیویٹ گوشے بھی ہیں لیکن بات بنتی نہیں ہے جب تک ان کے عوام کے ذہنوں میں ان کی ذاتی زندگی بھی ایک سیاسی اور عوامی زندگی رہے گی وہ تب تک جتنا زور چاہیں لگا لیں اپنی زندگی کو وہ گھر میں نہیں ڈال سکتے یہ گھر سے باہر پبلک ہی رہے گی اور ہر پاکستانی جو ووٹر ہے وہ اس سے کھیلتا رہے گا کیونکہ یہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے اور سیاسی عمل اور سرگرمی میں حق کو کون چھوڑ سکتا ہے۔
جناب خان صاحب ابھی سے ہی اپنی اس شادی والی مشہور و معروف حرکت کو چھپانا اور گھریلو بنانا چاہتے ہیں جو عملاً ممکن نہیں ہے ابھی تو خان صاحب کے سامنے کئی مرحلے آنے والے ہیں کیونکہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ان کی دوسری مطلقہ بیگم سے لندن کے بعض اخبارات کچھ لکھوانا چاہتے ہیں اور اگر اخبار والے کامیاب ہو گئے اورلگتا ہے کہ وہ کامیاب رہیں گے تو پھر محترمہ کی زبان سے جو کچھ برآمد ہو گا وہ خان صاحب کو برداشت کرنا ہو گا اور کیا کچھ برآمد ہو گا اس کا اندازہ ان سب لوگوں کو ہے جو محترمہ کو جانتے ہیں اور ان کی خان صاحب کے ساتھ ازدواجی زندگی سے پہلے وہ کس آن بان اور شان میں تھیں۔
میرا ہر گز یہ خیال نہ تھا کہ ایک معمر مرد اس حد تک حسن کا اسیر ہو جائے گا کہ وہ نہ آگے دیکھے گا نہ پیچھے صرف ایک نوجوان کی طرح بس عشق و عاشقی کی منزلوں سے گزرتا چلا جائے گا تاآنکہ وہ کامیاب ہو گا یعنی اس کی معشوقہ اس کے حبالہ عقد میں آ جائے گی اور اس پر وہ جشن کا آغاز کر دے گا۔ یہ جشن ہم نے سیاست کے میدان میں دیکھا بھی ہے۔ ابھی مزید دیکھنا تھا مگر بیچ میں کوئی رقیب رو سیاہ آ گیا یا کچھ اور ہو گیا۔
جناب خان صاحب نے پاکستان میں اپنی تازہ شادی کا جشن شروع کیا تو ان کے پرستار اور ووٹر بہت خوش ہوئے وہ خان صاحب کو ان کی اپنی پرانی جلوہ گری کے انداز میں دیکھنا چاہتے تھے جو ان سے پہلے گزر گئی تھی اور وہ صرف اس کے افسانے اور قصے ہی سنتے رہ گئے تھے لیکن ان کی خواہشیں پوری ہوئیں اور خان صاحب اپنی نئی شادی اور دلہن کی صورت میں تازہ دم جوان بن کر نمودار ہوئے۔
ٹی وی کا زمانہ ہے جس کے پاس کیمرے ہوا کرتے ہیں اور کیمرے کی آنکھ کچھ چھپاتی نہیں ہے اور جھوٹ بھی نہیں بولتی۔ ہم نے خان صاحب کی دوسری دلہن کو بھی کبھی سب سے پہلے ٹی وی کے انھی کیمروں کے ذریعہ دیکھا تھا اور تعجب کیا تھا کہ پاکستان میں ایسی ایسی نعمتیں بھی موجود ہیں جو پیدا تو لیبیا میں ہوئیں لیکن جلوہ گر خان صاحب کے گھر میں ہوئیں ویسے وہ اس سے پہلے بھی گمنام نہیں تھیں ایک ٹی وی پر باقاعدہ پروگرام کرتی تھیں۔
ہمیں معلوم نہیں کہ خان صاحب ان کے ٹی وی کے ان پروگراموں کی وجہ سے دل دے بیٹھے یا پھر کوئی اور بات ہو گئی بہر حال جو بھی ہوا پاکستانی اس پر بہت خوش ہوئے اور خان صاحب کے طفیل ان کا سماجی منظر بھی بدل گیا۔ اگرچہ یہ شادی زیادہ دیر تک خانہ آبادی نہیں رہی لیکن جب تک رہی لوگوں نے بے حد شوق کے ساتھ اسے چلتے پھرتے ہنستے کھیلتے دیکھا اور بار بار دیکھا۔ یہ ٹی وی کی مہربانی ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو محروم نہیں ہونے دیتا اور ان کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر رہتا ہے۔
اب اصل خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر موصوفہ نے برطانیہ کے منہ پھٹ کسی اخبار میں زبان کھول دی تو بڑا فساد برپا ہو گا۔ برطانیہ میں شاید یہ کوئی خاص بات نہ ہو لیکن پاکستان اور خان صاحب کی سیاسی زندگی میں ضرور گڑ بڑ ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ موصوفہ کو منت سماجت کر کے بولنے سے روک لیا جائے لیکن برطانوی اخباروں نے جو پونڈ دکھائے ہیں ان کو مسترد کرنا کیسے ممکن ہے۔
اب ریحام خان کی ایک نئی زندگی شروع ہو سکتی ہے کڑکڑاتے پونڈوں میں لپٹی ہوئی لیکن اصل پرابلم یہ ہے کہ ان کی کسی بات میں دلکشی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک خان صاحب کا نام بھی اس میں شامل نہ ہو یہ افسانہ یا کہانی جو بھی کہہ لیں دونوں کے ساتھ ہی مکمل ہوتی ہے یعنی ہیرو ہیروئن کے ساتھ، خان صاحب ایک نئی مشکل زندگی شروع کر چکے ہیں اور وہ ہے ان کی سیاسی زندگی۔ پاکستان میں سیاسی زندگی بھی مشکل ہوتی ہے اور بڑا رکھ رکھاؤ کرنا پڑتا ہے صحافیوں کو ڈانٹ کر نہیں۔ ابھی بات شروع ہوئی ہے کہ خان صاحب کا ایک بہت ہی اچھا لیڈر اور ساتھی ان کو چھوڑ گیا ہے۔
شفقت محمود کے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک سیاستدان کے پاس ہوتا ہے۔ ایک شاندار کیرئیر، نیک نامی، ایک اچھا خاندان اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ لیکن خان صاحب نے معلوم نہیں کیوں اس ساتھی کو مایوس کر دیا۔ اب ان کے بعض اور ساتھی بھی تحفظات کے شکار ہیں لیکن ہمارے جیسے لوگ سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاستدانوں کی طرح ہمارا دانہ پانی بھی سیاسی تبصروں میں ہے۔ خوشی ہوئی تھی کہ ایک نوجوان صاف ستھری زندگی لے کر سیاست میں آیا ہے اور کوشش یہی ہے کہ وہ سیاست میں اپنا رنگ جمائے اور سیاست کو نئی زندگی دے۔
بہرکیف یہ سب سیاستدانوں کے اختیار میں ہے ہماری تو صرف خواہشیں ہیں۔ عمران خان زندہ باد اس پر نازل بلائیں مردہ باد۔ لیکن وہ بھی حوصلہ سے کام لیں۔ یہ کرکٹ نہیں کہ وہ ایک ساتھی کھلاڑی کو چپت لگا دیں اور بات ختم۔ یہ سیاست ہے جو مسلسل چلتی رہتی ہے ہر روز کسی نئے جلوے کے ساتھ ورنہ پرانے سیاستدان تو پہلے سے ہی بہت ہیں ضرورت تازہ دم اور نئے عمران کی ہے۔ سیاسی افق کا نیا جلوہ۔
ذاتی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہو سکتی یہ ہمارے کلچر میں جائز نہیں۔ خان صاحب کئی دنوں سے یعنی جب سے انھوں نے طلاق کا کارنامہ سر انجام دیا ہے بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ذاتی مسئلہ ہے اسے عوامی مسئلہ نہ بنایا جائے اور سارا قصہ ٹھپ دیا جائے۔ایک حد تک خان صاحب کی بات شاید درست بھی ہو کہ اس مسئلے میں چونکہ خان صاحب نے ایک خاتون کو بھی ملوث کر دیا ہے اس لیے وہ اسے باپردہ مسئلہ بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ وہ اب کرکٹ کے کھلاڑی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور سیاستدان بن کر سیاست میں آئے ہیں اور سیاستدان کی زندگی ہرگز نجی زندگی نہیں ہوتی وہ عوام کی میراث بن جاتی ہے اور عوام اس پر محفلوں اور مجلسوں میں بحث کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
وہ یہ سب بلا جھجھک کرتے ہیں کیونکہ کسی سیاستدان کی خانگی زندگی بھی سیاسی اور پبلک زندگی ہوا کرتی ہے۔ جناب خان صاحب سیاست میں تو آ گئے لیکن سیاسی بن کر نہیں آئے وہ ابھی تک کرکٹر قسم کی کوئی چیز ہیں اور اس کے انداز میں ہی سیاست بھی کرتے ہیں، بہر کیف خان صاحب لاکھ کہیں کہ ان کی زندگی کے کچھ پرائیویٹ گوشے بھی ہیں لیکن بات بنتی نہیں ہے جب تک ان کے عوام کے ذہنوں میں ان کی ذاتی زندگی بھی ایک سیاسی اور عوامی زندگی رہے گی وہ تب تک جتنا زور چاہیں لگا لیں اپنی زندگی کو وہ گھر میں نہیں ڈال سکتے یہ گھر سے باہر پبلک ہی رہے گی اور ہر پاکستانی جو ووٹر ہے وہ اس سے کھیلتا رہے گا کیونکہ یہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے اور سیاسی عمل اور سرگرمی میں حق کو کون چھوڑ سکتا ہے۔
جناب خان صاحب ابھی سے ہی اپنی اس شادی والی مشہور و معروف حرکت کو چھپانا اور گھریلو بنانا چاہتے ہیں جو عملاً ممکن نہیں ہے ابھی تو خان صاحب کے سامنے کئی مرحلے آنے والے ہیں کیونکہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ان کی دوسری مطلقہ بیگم سے لندن کے بعض اخبارات کچھ لکھوانا چاہتے ہیں اور اگر اخبار والے کامیاب ہو گئے اورلگتا ہے کہ وہ کامیاب رہیں گے تو پھر محترمہ کی زبان سے جو کچھ برآمد ہو گا وہ خان صاحب کو برداشت کرنا ہو گا اور کیا کچھ برآمد ہو گا اس کا اندازہ ان سب لوگوں کو ہے جو محترمہ کو جانتے ہیں اور ان کی خان صاحب کے ساتھ ازدواجی زندگی سے پہلے وہ کس آن بان اور شان میں تھیں۔
میرا ہر گز یہ خیال نہ تھا کہ ایک معمر مرد اس حد تک حسن کا اسیر ہو جائے گا کہ وہ نہ آگے دیکھے گا نہ پیچھے صرف ایک نوجوان کی طرح بس عشق و عاشقی کی منزلوں سے گزرتا چلا جائے گا تاآنکہ وہ کامیاب ہو گا یعنی اس کی معشوقہ اس کے حبالہ عقد میں آ جائے گی اور اس پر وہ جشن کا آغاز کر دے گا۔ یہ جشن ہم نے سیاست کے میدان میں دیکھا بھی ہے۔ ابھی مزید دیکھنا تھا مگر بیچ میں کوئی رقیب رو سیاہ آ گیا یا کچھ اور ہو گیا۔
جناب خان صاحب نے پاکستان میں اپنی تازہ شادی کا جشن شروع کیا تو ان کے پرستار اور ووٹر بہت خوش ہوئے وہ خان صاحب کو ان کی اپنی پرانی جلوہ گری کے انداز میں دیکھنا چاہتے تھے جو ان سے پہلے گزر گئی تھی اور وہ صرف اس کے افسانے اور قصے ہی سنتے رہ گئے تھے لیکن ان کی خواہشیں پوری ہوئیں اور خان صاحب اپنی نئی شادی اور دلہن کی صورت میں تازہ دم جوان بن کر نمودار ہوئے۔
ٹی وی کا زمانہ ہے جس کے پاس کیمرے ہوا کرتے ہیں اور کیمرے کی آنکھ کچھ چھپاتی نہیں ہے اور جھوٹ بھی نہیں بولتی۔ ہم نے خان صاحب کی دوسری دلہن کو بھی کبھی سب سے پہلے ٹی وی کے انھی کیمروں کے ذریعہ دیکھا تھا اور تعجب کیا تھا کہ پاکستان میں ایسی ایسی نعمتیں بھی موجود ہیں جو پیدا تو لیبیا میں ہوئیں لیکن جلوہ گر خان صاحب کے گھر میں ہوئیں ویسے وہ اس سے پہلے بھی گمنام نہیں تھیں ایک ٹی وی پر باقاعدہ پروگرام کرتی تھیں۔
ہمیں معلوم نہیں کہ خان صاحب ان کے ٹی وی کے ان پروگراموں کی وجہ سے دل دے بیٹھے یا پھر کوئی اور بات ہو گئی بہر حال جو بھی ہوا پاکستانی اس پر بہت خوش ہوئے اور خان صاحب کے طفیل ان کا سماجی منظر بھی بدل گیا۔ اگرچہ یہ شادی زیادہ دیر تک خانہ آبادی نہیں رہی لیکن جب تک رہی لوگوں نے بے حد شوق کے ساتھ اسے چلتے پھرتے ہنستے کھیلتے دیکھا اور بار بار دیکھا۔ یہ ٹی وی کی مہربانی ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو محروم نہیں ہونے دیتا اور ان کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر رہتا ہے۔
اب اصل خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر موصوفہ نے برطانیہ کے منہ پھٹ کسی اخبار میں زبان کھول دی تو بڑا فساد برپا ہو گا۔ برطانیہ میں شاید یہ کوئی خاص بات نہ ہو لیکن پاکستان اور خان صاحب کی سیاسی زندگی میں ضرور گڑ بڑ ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ موصوفہ کو منت سماجت کر کے بولنے سے روک لیا جائے لیکن برطانوی اخباروں نے جو پونڈ دکھائے ہیں ان کو مسترد کرنا کیسے ممکن ہے۔
اب ریحام خان کی ایک نئی زندگی شروع ہو سکتی ہے کڑکڑاتے پونڈوں میں لپٹی ہوئی لیکن اصل پرابلم یہ ہے کہ ان کی کسی بات میں دلکشی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک خان صاحب کا نام بھی اس میں شامل نہ ہو یہ افسانہ یا کہانی جو بھی کہہ لیں دونوں کے ساتھ ہی مکمل ہوتی ہے یعنی ہیرو ہیروئن کے ساتھ، خان صاحب ایک نئی مشکل زندگی شروع کر چکے ہیں اور وہ ہے ان کی سیاسی زندگی۔ پاکستان میں سیاسی زندگی بھی مشکل ہوتی ہے اور بڑا رکھ رکھاؤ کرنا پڑتا ہے صحافیوں کو ڈانٹ کر نہیں۔ ابھی بات شروع ہوئی ہے کہ خان صاحب کا ایک بہت ہی اچھا لیڈر اور ساتھی ان کو چھوڑ گیا ہے۔
شفقت محمود کے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک سیاستدان کے پاس ہوتا ہے۔ ایک شاندار کیرئیر، نیک نامی، ایک اچھا خاندان اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ لیکن خان صاحب نے معلوم نہیں کیوں اس ساتھی کو مایوس کر دیا۔ اب ان کے بعض اور ساتھی بھی تحفظات کے شکار ہیں لیکن ہمارے جیسے لوگ سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاستدانوں کی طرح ہمارا دانہ پانی بھی سیاسی تبصروں میں ہے۔ خوشی ہوئی تھی کہ ایک نوجوان صاف ستھری زندگی لے کر سیاست میں آیا ہے اور کوشش یہی ہے کہ وہ سیاست میں اپنا رنگ جمائے اور سیاست کو نئی زندگی دے۔
بہرکیف یہ سب سیاستدانوں کے اختیار میں ہے ہماری تو صرف خواہشیں ہیں۔ عمران خان زندہ باد اس پر نازل بلائیں مردہ باد۔ لیکن وہ بھی حوصلہ سے کام لیں۔ یہ کرکٹ نہیں کہ وہ ایک ساتھی کھلاڑی کو چپت لگا دیں اور بات ختم۔ یہ سیاست ہے جو مسلسل چلتی رہتی ہے ہر روز کسی نئے جلوے کے ساتھ ورنہ پرانے سیاستدان تو پہلے سے ہی بہت ہیں ضرورت تازہ دم اور نئے عمران کی ہے۔ سیاسی افق کا نیا جلوہ۔