فکر اقبال استحکام پاکستان کی ضامن

اسلامی ریاستوں پر بڑھتے ہوئے مغربی اور اشتراکی دباؤ نے ان کے آدرشوں پر ایک تازیانے کا کام کیا۔

حکیم الامت، مفکر پاکستان، شاعر مشرق، برصغیر پاک و ہند کی معروف شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا شمار بانیان پاکستان میں ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اپنی منفرد سوچ، ندرتِ فکر، بے مثال طرز کلام، جرأت رندانہ، قلندارانہ وجدان اور اسلامی تشخص پر یقین کامل کی گوناگوں خوبیوں کے باعث جنوبی ایشیا میں بیسویں صدی کی ایک بے حد اہم اور قد آور شخصیت تھے۔ انھوں نے اپنی فہم و دانش کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے کارناموں اور لازوال اسلامی اصولوں کی سچائی کا احساس دلایا اور مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے جگاتے ہوئے انھیں ہندوستان میں اسلامی تشخص کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کے لیے تیار کیا۔ علامہ اقبال 9 نومبر 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اقبال سن بلوغت تک پہنچے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر ان کا دل جلتا اور کڑھتا تھا۔ علامہ نے شعور کی آنکھ کھولی تو سیاسیات عالم میں اسلامی دنیا بالخصوص خلافت عثمانیہ کو زوال پذیر ہوتے دیکھا۔ بلقان اور طرابلس کی جنگوں نے ان کے قلب و ذہن پر گہری واردات کی۔ یورپ، برطانیہ و امریکا میں سامراجی قوتوں کے ارتقاء اور دوسری جانب مغربی استعمار کے خلاف بغاوت کے طور پر انقلاب روس کی پیش قدمی جو نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کے زوال، وسط ایشیائی مسلم ریاستوں پر اشتراکی روس اور ہندوستان کی مسلم مغلیہ سلطنت پر برطانیہ کے قبضے کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اسی طرح مغربی سامراجی طاقتوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں لازوال اسلامی اصولوں کو شکست و ریخت کا نشانہ بناتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے، فلسطین پر یہودی قبضے کی راہ ہموار کرنے اور سیاسی و علاقائی اکائی کے حوالے سے عرب دنیا میں قومیتوں و نیشنلزم کے نام پر کمزور عرب ریاستوں کو وجود میں لائے جانے کو اقبال مسلم امہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ اسلامی دنیا میں اجتماعی سوچ کے فقدان، تیزی سے بکھرتے ہوئے اسلامی تشخص اور مسلم معاشرتی زندگی میں ابھرتے ہوئے جمود اور قنوطیت نے اقبال کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اسلامی ریاستوں پر بڑھتے ہوئے مغربی اور اشتراکی دباؤ نے ان کے آدرشوں پر ایک تازیانے کا کام کیا۔ علامہ اقبال کا وجدان انھیں کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا تھا۔ ان کے دل میں خواہشیں مچلتی تھیں کہ مسلمان بھی شکست و ریخت کے خول سے باہر نکلیں، روح کی غلامی کے جال توڑیں اور جہان نو میں تازہ بستیاں آباد کریں۔

فکری اور معنوی لحاظ سے جب ہم علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کی شاعری اور خیالات میں بڑی ندرت اور وسعت ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں مذہب، اخلاقیات، آزادی ملتِ اسلامیہ، سیاست و معیشت اور ایسے ہی بے شمار موضوعات کو موضوع سخن بنایا، ان کے نظریات سے عالم اسلام بھرپور طور پر استفادہ کرسکتا ہے۔ ان کا خطاب اگرچہ بظاہر مسلمانوں سے ہے لیکن ان کا پیغام جغرافیائی حدود سے آزاد ہے۔ اقبال کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کا آفاقی رنگ انھیں ہر دور کا شاعر اور مفکر بنادیتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ تو ہمارے دل کی آواز ہے، وہ ہمارے آلام و مصائب سے ہم سے زیادہ واقف دکھائی دیتے ہیں، پھر وہ مشکلات و مسائل اور چیلنجز کا نہ صرف تذکرہ کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی بتاتے ہیں۔

ان کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ مایوس ہونا نہیں جانتے۔ وہ مصائب و آلام سے ٹکراکر اور جرأت و بہادری سے ان کے مقابلے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کردیتے ہیں۔ ان کا فلسفہ عمل اور جدوجہد کا مقدمہ ہے۔ ان کا پیغام ہے کہ عمل کے بغیر زندگی موت کے برابر ہے اور اس کے بغیر قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔

آج کے دور میں ہمارے سامنے جو مسائل اور چیلنجز ابھر کر سامنے آرہے ہیں، ان میں قومیت، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت، آزادی افکار اور آزادی نسواں کے نام نہاد نعرے، مغربی تہذیب کی چکا چوند، مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان، ہنود و یہود کا گٹھ جوڑ، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا زوال، خودداری اور خود انحصاری کے جذبے کی کمی، خود فراموشی اور خدا فراموشی، دہشتگردی اور بدامنی، کرپشن اور بے عملی، مغربی تہذیب کی یلغار اور ان جیسے بے شمار مسائل اور چیلنجز ہیں۔ مختصراً یہ کہ عصر حاضر کے مسائل، موجودہ دور کی مشکلات کے حل اور تعمیر ملک و ملت کے لیے فکر اقبال ایک نیا عزم اور نیا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ فکر اقبال پہلے کی طرح آج بھی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ یہ ایک انقلابی تحریک کے طور پر ہمیں نیا حوصلہ اور ولولہ عطا کرسکتی ہے۔ تصور پاکستان سے تعمیر پاکستان تک اس سفر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے افکار تاریکی میں روشنی اور مایوسی میں عزم و حوصلے، خودی اور خود انحصاری، خودداری اور ملی بیداری کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ فکر اقبال تعمیر پاکستان اور استحکام پاکستان کی ضامن ہے۔


آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قومی اور ملی وحدت کا فقدان ہے۔ ہم اتحاد و یگانگت، اخوت و اجتماعیت اور بھائی چارے کے درس کو فراموش کرچکے ہیں۔ ان حالات میں فکر اقبال ہمیں یہ تعلیم دیتی نظر آتی ہے کہ:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

تعمیر وطن اور ملک و قوم کو درپیش چینلجز کا تقاضا ہے کہ ملک و قوم کا ہر فرد تعمیر پاکستان کے لیے جہد مسلسل اور عمل پیہم کی راہ اپنائے۔ سستی، کاہلی اور محنت سے جی چُرانا دانشمندوں کا شیوہ نہیں۔ تعمیر پاکستان کے لیے آج ضرورت ہے خلوص پر مبنی جدوجہد کی۔ یقین، محکم اور عمل پیہم کی۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے موجودہ مسائل، داخلی انتشار، دینی، اخلاقی اور تہذیبی قدروں کے زوال اور ملک و ملت کو درپیش چیلنجز کی ایک بنیادی وجہ اپنے دین، دینی اقدار اور مرکز سے دوری ہے، ہم نے مقاصد کو پاکستان کو فراموش کیا، اپنے نظریے سے غداری کی، اسلامی شریعت کے نفاذ اور قرآن و سنت کی بالادستی سے گریزاں رہے، اپنی خودی اور خودداری کو پست پشت ڈالا، دینی اور ملی رشتوں کو فراموش کیا، کاسۂ گدائی ہاتھ میں تھام کر غیروں کے دست نگر بنے۔ یہ تمام باتیں وہ ہیں جنھیں ملت کے اجتماعی گناہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ خود فراموشی اور خدا فراموشی کا یہ راستہ سوائے ندامت اور ناکامی کے کچھ نہیں دے گا۔

قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد اسی وقت پورے ہوں گے جب یہاں ایک حقیقی اسلامی فلاحی معاشرہ قائم ہوگا، عدل کی بالا دستی ہوگی، قرآن و سنت، آئین و قانون کے بنیادی مصدر و ماخذ ہوں گے، سودی نظام معیشت کا خاتمہ اور اعلیٰ انسانی و اسلامی اقدار کو فروغ حاصل ہوگا۔ تعمیر پاکستان اور تعمیر ملک و ملت کے لیے قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کو پیش نظر رکھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہی درحقیقت ہمارے مسائل کا حل اور تعمیر پاکستان کی حقیقی بنیاد ہے۔
Load Next Story