جمہوریت ہماری اصل طاقت

ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج تسلیم کی جاتی ہے کیونکہ اس کی تربیت اعلیٰ ترین درجے کی ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
ہم مارشل لاؤں کے ستائے اور مارے ہوئے پاکستانی جب اپنا کوئی چھوٹا بڑا قومی فیصلہ خود کرنے کا موقع پاتے ہیں اور جب ہمیں یہ اختیار ملتا ہے کہ کسی قومی مسئلے پر جو فیصلہ چاہیں اپنی مرضی سے کریں تو ہمارے اندر فخر بلکہ غرور کی ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک آزاد قوم کا سویا ہوا اعتماد جاگ اٹھتا ہے اور ہم ایک بدلی ہوئی نئی قوم بن جاتے ہیں۔

ایک آزاد اور خود مختار قوم۔ غلامی کی پرچھائیوں سے محفوظ ہنستی کھیلتی قوم زندگی سے بھرپور فراٹے بھرتی ہوئی قوم جس کا کوئی فرد کبھی اس غیر معمولی صورت حال سے گھبرا کر جسم پر چٹکی بھر کر دیکھتا ہے کہ کیا یہ میں ہی ہوں۔ حالات کی تبدیلی سے قوی زندگی میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے وہ پاکستانیوں کے لیے ایک غیر معمولی اور زندگی کے عام معمول سے ہٹی ہوئی بات ہوتی ہے۔ اس کا شدید احساس گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اسپیکر کے الیکشن کے موقع پر ہوا۔

اول تو اسمبلیوں کا کوئی تصور نہیں ہوا کرتا تھا اگر اسمبلی حالات کی ضرورت اور مجبوری کے تحت وجود میں لائی ہی جاتی تو پھر اوپر کے اشاروں پر چلتی اور اسمبلی کے اسپیکر جیسے بنیادی اور سب سے زیادہ بااختیار منصب پر کسی کی تقرری کہیں اور سے ہوتی۔ ہمیں صرف اطلاع ملتی اور ہم اس پر ضرورت پڑتی تو عمل کرتے ورنہ اکثر تو ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا کہ تمہارا اسمبلی سے کیا تعلق ہے اور ہم سچ پوچھیں تو اپنی اس حیثیت پر خوش ہی رہتے۔ گھروں میں بیٹھ کر نوکری یا مزدوری کی عزت کی روٹی کھاتے اور شکر بجا لاتے۔

ان دنوں ہم ایک جمہوری دور سے گزر رہے ہیں اور ہمارے فیصلے جمہوری انداز میں ہو رہے ہیں۔ صوبوں میں اسمبلیاں ہیں وزرائے اعلیٰ ہیں جو اپنے صوبوں میں بااختیار ہیں۔ ہر کام خود اور اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس طرح ایک جمہوری نظام ملک بھر میں نافذ ہے بلکہ اب تو اس میں اضافہ ہونے والا ہے جب بلدیاتی ادارے قائم ہوں گے ان کی کارکردگی منظم ہو گی تو دنیا بہت ہی بدلی ہوئی محسوس ہو گی یعنی نیچے سے اوپر تک جمہوریت کا راج ہو گا اور تب پاکستان ایک جمہوری ملک کی زندگی بسر کر رہا ہو گا۔ مکمل جمہوریت۔ اس جمہوریت کو قائم اور زندہ رکھنا ہمارے سیاستدانوں کا کام ہو گا ان کی نیت درست ہو گی تو ملک کی نیت بھی درست ہو گی۔

ہم پاکستانیوں کو ایک محفوظ زندگی کی شدید ضرورت ہے ایک ایسی زندگی جس کی حفاظت ہمارے اختیار میں ہو اور ہم دشمنوں کو خبردار کر سکیں کہ ہم ایک جیتی جاگتی توانا زندہ قوم ہیں جو اپنا دفاع بھی جانتی ہے اور اپنا مفاد بھی۔ اس وقت پاکستان بحمدللہ اپنے دفاع سے مطمئن ہے۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج تسلیم کی جاتی ہے کیونکہ اس کی تربیت اعلیٰ ترین درجے کی ہے اور ایک بات آج کی دنیا کو شاید معلوم نہ ہو کہ ہماری فوج جنگ نہیں جہاد کرتی ہے اور اللہ کی راہ میں جان دیتی ہے۔


ملک کی حفاظت بھی اللہ کی ایک راہ ہے۔ اس وقت ہمارے پاس ہماری تاریخ میں پہلی بار ایسا اسلحہ بھی موجود ہے جو کسی سپاہی میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ ایک سپاہی نعروں سے نہیں اسلحے سے جنگ کرتا ہے اور ہمارے سپاہی کے پاس اس کی پسند اور ضرورت کا اسلحہ موجود ہے شاید سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے سپاہی اور فوج کو ایسی قیادت میسر ہے جو پاکستان کے نقطہ نظر سے آئیڈیل کہی جا سکتی ہے۔ ہمارا سپہ سالار ایک ایسا سپاہی ہے جو اپنی عافیت جنگ کے میدان میں سمجھتا ہے اور جس نے پوری فوج کو ایک مقصد دے کر ملک کے دفاع میں اتارا ہوا ہے۔

فوجیں اپنے کمانڈروں کی ہمت اور مہارت پر لڑتی ہیں اور یہ کسی سپہ سالار پر منحصر ہے کہ وہ اپنی فوج کے سامنے کیا مثال پیش کرتا ہے۔ سلطان صلاح الدین اپنے خیمے میں آرام کر رہا تھا کہ چند سپہ سالار اس سے ملنے آئے اور سب نے کہا کہ اس وقت دشمن کی فوج بے حساب اور بہت زیادہ ہے اور بہتر ہو گا اگر ہم جنگ سے گریز کر لیں۔ سپہ سالار نے کہا کہ خیمے کا پردہ ہٹاؤ اور سلطان نے خود دیکھا کہ واقعی فوج بہت زیادہ ہے۔

یورپ پوری طاقت کے ساتھ عکہ کے میدان میں جمع ہو گیا ہے اور کسی فیصلے کن جنگ پر تیار ہے۔ اب ذرا غور فرمائیے مسلمانوں کے سپہ سالار کے عزم اور ارادے صلاح الدین نے اپنے سپہ سالاروں سے کہا کہ ہمیں دشمن کی اتنی بڑی فوج پھر کبھی کسی میدان جنگ میں اکٹھی نہیں ملے گی۔ یہی وقت ہے جب ہم دشمن کو ہمیشہ کے لیے نابود کر سکتے ہیں۔

اللہ کا نام لیں اور دشمن کے مقابلے میں نکل آئیں سلطان نے خود پہل کی اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مدتوں تک عکہ کے میدان سے انسانی ہڈیاں برآمد ہوتی رہیں۔ مسلمان فوج نے دشمن کی اس بڑی اور زبردستی تیار فوج کو ختم کر دیا تھا جس کے بعد یورپ فلسطین کی طرف رخ نہ کر سکا۔ آج ہم پاکستانیوں کے پاس بھی ایک بہت بڑا اور جرات مند جرنیل ہے ہمیں توقع ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کر سکے گا اور ہمارا دشمن بھارت اب طویل غور و فکر میں مصروف ہے۔

جمہوریت اور اس پر اس کی حفاظت کا صحیح بندوبست ہماری قوم کے لیے بہت ہے۔ ہم وقار اور عزت کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان بہرکیف غیر محب وطن نہیں ہیں وہ سب پاکستانی ہیں اور ان کا مستقبل سوائے چند ایک کے پاکستان میں ہے۔
Load Next Story