لاہور کو بدلیے مگر بچائیے بھی
اس لاہور کی آبادی ایک معقول حد تک تھی جہاں لوگ پیدل چلتے تھے یا ٹانگوں پر۔
Abdulqhasan@hotmail.com
KARACHI:
خوشاب شہر سے کسی ہندو کمپنی کی نندہ بس نام والی بس میں سوار ہو کر کبھی لاہور پہنچے اور پھر اس شہر میں ایسے پہنچے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ لاہور کے باہر سے کئی نامور اور ہماری طرح کئی بے نام لوگ اس شہر میں پہنچے اور پھر اسی کے گلی کوچوں میں گم ہو گئے یا نام پا گئے۔ یہ ہر نئے لاہوری کی اپنی ہمت تھی کہ اس نے اس علمی اور ثقافتی شہر سے کیا پایا اور کیا کھویا۔ میں اس وقت اس پرانے لاہور کو یاد کر رہا ہوں جو میری اس شہر میں آمد پر موجود تھا۔
اس شہر کی حویلیاں' بازار' پرانی عمارتیں' بھاری بھر کم دیواریں اور ان میں لاکھوں دریچے اور کھڑکیاں باریاں۔ ان میں سے جھانکتی ہوئی لاہور والیاں، گھروں میں پانی کے لیے آباد کُھوئیاں؎ جہتاں کھوئیاں توں بھرن معشوق پانی او مٹھیاں تے دوجی کھاریاں نیں اور اس سے پہلے یہ کہ کیہہ دساں میں لاہور دیاں کنے بوہے تے کنیاں باریاں نیں۔
اس لاہور کی آبادی ایک معقول حد تک تھی جہاں لوگ پیدل چلتے تھے یا ٹانگوں پر۔ دن رات کا تحفظ تھا لاہوری بے فکر ہو کر رات گئے تک مجلسوں میں شعر و شاعری یا قصے کہانیاں سنتے سناتے، اس طرح اس شہر کی زندگی آسودگی اور آرام کے ساتھ گزر رہی تھی۔ شہر کی پرانی خوبصورت عمارتیں جسے کسی نے شہر کی آرائش کے لیے تعمیر کردی تھیں اور شہر کے پرانے بازار جو اپنے مال کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
بہرکیف اتنے بڑے اور رنگا رنگ شہر کی کوئی کیا بات کرے اور کس بات کو یاد کرے۔ آج یہ سب اس لیے یاد آ رہا ہے کہ جیسے شیخ سعدی نے کہا تھا کہ؎ ہر کہ آمد عمارت نو ساخت یعنی جو بھی اقتدار میں آیا اس نے کوئی نئی عمارت بنا دی۔ خطرہ یہ ہے کہ آج کے صاحبان اقتدار نئی عمارتیں نئی گلیاں نئی شاہراہیں اور ایک بالکل نئی دنیا بسانے چلے ہیں اور یہ تعمیر نو خطرہ ہے کہ پرانی تاریخی عمارتوں اور راستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ان کی نئی دنیا مغلوں کے لاہور میں کیا اضافہ کرے گی۔ آج تو مغل دور کی ایک دیوار بھی کھڑی نہیں کی جا سکتی کجا کہ کسی بدلے ہوئے نئے لاہور کی کوئی جھلک دکھائی جائے۔
ایک پرابلم یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے پرانے لاہور کی زندگی کا مزا نہیں چکھا کہ ان کے ذوق کو پرانے زمانے کی کشش اپنی طرف کھینچ سکے۔
جتنا کچھ یہ نیا لاہور ان دنوں دکھایا جا رہا ہے وہ لاہور کی زمین سے بلند اور فضاؤں میں اڑتا پھرتا ہے۔ پرانے لاہور کے باسی تو راستے بھول گئے ہیں ان کے راستے زمین پر تھے اور ان راستوں کے دونوں طرف پہچانی ہوئی عمارتیں تھیں جن سے وہ گزرتے تھے اور کسی ذرا سی تبدیلی کو بھی محسوس کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ بدلنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ معلوم نہیں وہ لاہور کہیں گم ہی نہ ہو جائے جسے ملکہ عالم نور جہاں نے جان دے کر اس کے عوض یعنی جان جتنی قیمت دے کر خریدا تھا اور نور جہاں کے اداس مقبرے کی اداسی اور گہری نہ ہو جائے۔
لاہور را بجاں برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
ملکہ عالم کی جان کے برابر کا یہ شہر بھی اس کے ویران مقبرے کا حصہ نہ بن جائے۔
بات لاہور کے پرانے حسن کی ہو رہی تھی جس کے بارے میں پرانے لاہور کے شناسا اور آشنا سب پریشان ہیں کہ اگر یہ شہر تھوڑا بہت ہی بدل گیا تو پھر وہ کہاں جائیں گے۔ وہ تو بدلے ہوئے لاہور کے راستے ہی کھودیں گے اورپھر گھر کا راستہ کس کس سے پوچھیں گے۔ تبدیلی کے شوق کا زمانہ ہے اور تبدیلی بری بات نہیں ہے لیکن عرض صرف اتنی ہے اور وہ بھی لاہوریوں کی کہ ان کے جانے پہچانے شہر کی شناخت زندہ رہے۔
ہم پردیسی تو کسی بھی دن کسی بس میں اپنے پرانے دو بکسے سامان کے اٹھا کر لوٹ جائیں گے لیکن لاہور کے باشندے تو اسی شہر کے ہیں ان کے تو مختلف حصوں کی زبان بھی مختلف ہے۔ اندرون موچی گیٹ کا ایک رہائشی جب بات کر رہا ہوتا ہے تو اپنے تلفظ سے اپنا پتہ بتلا رہا ہوتا ہے اور بعض الفاظ اس کی زبان سے مختلف لہجے میں ادا ہوتے ہیں۔ بہر حال لاہور' لاہور ہے اور اس ہزاروں برس کی قدیم تہذیب کو کچھ سرمائے سے بدلا نہیں جا سکتا۔
کسی خبر میں تھا کہ چوبرجی کو سلامت رہنا چاہیے۔ یہ ایک مطالبہ تھا لیکن حد ہے کہ چوبرجی جیسے پرانے تاریخی لاہوری نشان کو بھی خطرہ ہے۔ چوبرجی ایسے کئی تاریخی نشان ہیں جو لاہور میں آپ کہیں بھی نکل جائیں آپ کو دکھائی دیں گے اور ساتھ ہی ان کی تاریخ بھی جو ان پرانی بلکہ قدیم عمارتوں سے جڑی ہوئی ہے اور دونوں جدا نہیں ہو سکتیں مگر نئی چوبرجی کون بنا سکتا ہے اس کے لیے مغل شہزادی چاہیے۔
لاہور میں کس مقام ، عمارت اور آثار کو محفوظ رکھنا چاہیے یہ کسی پرانے لاہوری کا کام ہے جو ملکہ عالم نور جہاں کی طرح جان کے بدلے اس شہر کو محفوظ کر لے اور اس شہر کے نئے مغلوں کو بتائے کہ لاہور میں کیا کچھ کیسا ہے اور اس کی تبدیلی کے لیے ایک لاہور کا ایک اور معمار چاہیے۔
لاہور کو نئی تعمیر اور مرمت کی زبردست ضرورت ہے۔ زمین کا ایک ہچکولہ اس شہر کی عمارتوں کو ہلا دیتا ہے اور ان سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ لاہور کو بدلیں اسے نیا لاہور بنائیں لیکن اس کی تاریخی شناخت اگر ممکن ہو تو باقی رکھیں۔ یہ آیندہ نسلوں پر احسان ہو گا جنھیں کبھی پرانے لاہور کی ایک جھلک دیکھنی نصیب ہو گی۔
خوشاب شہر سے کسی ہندو کمپنی کی نندہ بس نام والی بس میں سوار ہو کر کبھی لاہور پہنچے اور پھر اس شہر میں ایسے پہنچے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ لاہور کے باہر سے کئی نامور اور ہماری طرح کئی بے نام لوگ اس شہر میں پہنچے اور پھر اسی کے گلی کوچوں میں گم ہو گئے یا نام پا گئے۔ یہ ہر نئے لاہوری کی اپنی ہمت تھی کہ اس نے اس علمی اور ثقافتی شہر سے کیا پایا اور کیا کھویا۔ میں اس وقت اس پرانے لاہور کو یاد کر رہا ہوں جو میری اس شہر میں آمد پر موجود تھا۔
اس شہر کی حویلیاں' بازار' پرانی عمارتیں' بھاری بھر کم دیواریں اور ان میں لاکھوں دریچے اور کھڑکیاں باریاں۔ ان میں سے جھانکتی ہوئی لاہور والیاں، گھروں میں پانی کے لیے آباد کُھوئیاں؎ جہتاں کھوئیاں توں بھرن معشوق پانی او مٹھیاں تے دوجی کھاریاں نیں اور اس سے پہلے یہ کہ کیہہ دساں میں لاہور دیاں کنے بوہے تے کنیاں باریاں نیں۔
اس لاہور کی آبادی ایک معقول حد تک تھی جہاں لوگ پیدل چلتے تھے یا ٹانگوں پر۔ دن رات کا تحفظ تھا لاہوری بے فکر ہو کر رات گئے تک مجلسوں میں شعر و شاعری یا قصے کہانیاں سنتے سناتے، اس طرح اس شہر کی زندگی آسودگی اور آرام کے ساتھ گزر رہی تھی۔ شہر کی پرانی خوبصورت عمارتیں جسے کسی نے شہر کی آرائش کے لیے تعمیر کردی تھیں اور شہر کے پرانے بازار جو اپنے مال کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
بہرکیف اتنے بڑے اور رنگا رنگ شہر کی کوئی کیا بات کرے اور کس بات کو یاد کرے۔ آج یہ سب اس لیے یاد آ رہا ہے کہ جیسے شیخ سعدی نے کہا تھا کہ؎ ہر کہ آمد عمارت نو ساخت یعنی جو بھی اقتدار میں آیا اس نے کوئی نئی عمارت بنا دی۔ خطرہ یہ ہے کہ آج کے صاحبان اقتدار نئی عمارتیں نئی گلیاں نئی شاہراہیں اور ایک بالکل نئی دنیا بسانے چلے ہیں اور یہ تعمیر نو خطرہ ہے کہ پرانی تاریخی عمارتوں اور راستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ان کی نئی دنیا مغلوں کے لاہور میں کیا اضافہ کرے گی۔ آج تو مغل دور کی ایک دیوار بھی کھڑی نہیں کی جا سکتی کجا کہ کسی بدلے ہوئے نئے لاہور کی کوئی جھلک دکھائی جائے۔
ایک پرابلم یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے پرانے لاہور کی زندگی کا مزا نہیں چکھا کہ ان کے ذوق کو پرانے زمانے کی کشش اپنی طرف کھینچ سکے۔
جتنا کچھ یہ نیا لاہور ان دنوں دکھایا جا رہا ہے وہ لاہور کی زمین سے بلند اور فضاؤں میں اڑتا پھرتا ہے۔ پرانے لاہور کے باسی تو راستے بھول گئے ہیں ان کے راستے زمین پر تھے اور ان راستوں کے دونوں طرف پہچانی ہوئی عمارتیں تھیں جن سے وہ گزرتے تھے اور کسی ذرا سی تبدیلی کو بھی محسوس کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ بدلنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ معلوم نہیں وہ لاہور کہیں گم ہی نہ ہو جائے جسے ملکہ عالم نور جہاں نے جان دے کر اس کے عوض یعنی جان جتنی قیمت دے کر خریدا تھا اور نور جہاں کے اداس مقبرے کی اداسی اور گہری نہ ہو جائے۔
لاہور را بجاں برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
ملکہ عالم کی جان کے برابر کا یہ شہر بھی اس کے ویران مقبرے کا حصہ نہ بن جائے۔
بات لاہور کے پرانے حسن کی ہو رہی تھی جس کے بارے میں پرانے لاہور کے شناسا اور آشنا سب پریشان ہیں کہ اگر یہ شہر تھوڑا بہت ہی بدل گیا تو پھر وہ کہاں جائیں گے۔ وہ تو بدلے ہوئے لاہور کے راستے ہی کھودیں گے اورپھر گھر کا راستہ کس کس سے پوچھیں گے۔ تبدیلی کے شوق کا زمانہ ہے اور تبدیلی بری بات نہیں ہے لیکن عرض صرف اتنی ہے اور وہ بھی لاہوریوں کی کہ ان کے جانے پہچانے شہر کی شناخت زندہ رہے۔
ہم پردیسی تو کسی بھی دن کسی بس میں اپنے پرانے دو بکسے سامان کے اٹھا کر لوٹ جائیں گے لیکن لاہور کے باشندے تو اسی شہر کے ہیں ان کے تو مختلف حصوں کی زبان بھی مختلف ہے۔ اندرون موچی گیٹ کا ایک رہائشی جب بات کر رہا ہوتا ہے تو اپنے تلفظ سے اپنا پتہ بتلا رہا ہوتا ہے اور بعض الفاظ اس کی زبان سے مختلف لہجے میں ادا ہوتے ہیں۔ بہر حال لاہور' لاہور ہے اور اس ہزاروں برس کی قدیم تہذیب کو کچھ سرمائے سے بدلا نہیں جا سکتا۔
کسی خبر میں تھا کہ چوبرجی کو سلامت رہنا چاہیے۔ یہ ایک مطالبہ تھا لیکن حد ہے کہ چوبرجی جیسے پرانے تاریخی لاہوری نشان کو بھی خطرہ ہے۔ چوبرجی ایسے کئی تاریخی نشان ہیں جو لاہور میں آپ کہیں بھی نکل جائیں آپ کو دکھائی دیں گے اور ساتھ ہی ان کی تاریخ بھی جو ان پرانی بلکہ قدیم عمارتوں سے جڑی ہوئی ہے اور دونوں جدا نہیں ہو سکتیں مگر نئی چوبرجی کون بنا سکتا ہے اس کے لیے مغل شہزادی چاہیے۔
لاہور میں کس مقام ، عمارت اور آثار کو محفوظ رکھنا چاہیے یہ کسی پرانے لاہوری کا کام ہے جو ملکہ عالم نور جہاں کی طرح جان کے بدلے اس شہر کو محفوظ کر لے اور اس شہر کے نئے مغلوں کو بتائے کہ لاہور میں کیا کچھ کیسا ہے اور اس کی تبدیلی کے لیے ایک لاہور کا ایک اور معمار چاہیے۔
لاہور کو نئی تعمیر اور مرمت کی زبردست ضرورت ہے۔ زمین کا ایک ہچکولہ اس شہر کی عمارتوں کو ہلا دیتا ہے اور ان سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ لاہور کو بدلیں اسے نیا لاہور بنائیں لیکن اس کی تاریخی شناخت اگر ممکن ہو تو باقی رکھیں۔ یہ آیندہ نسلوں پر احسان ہو گا جنھیں کبھی پرانے لاہور کی ایک جھلک دیکھنی نصیب ہو گی۔