دہشت گردی کے خلاف واضح سوچ اور پالیسی کی ضرورت

وفاقی حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تمام اداروں کی مشترکہ ذمے داری ہے

وفاقی حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تمام اداروں کی مشترکہ ذمے داری ہے، فوٹو: فائل

وفاقی حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تمام اداروں کی مشترکہ ذمے داری ہے، تمام اداروں کو آئینی حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل اور دیگر متعلقہ اقدامات جاری رکھے گی تاکہ عام آدمی کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف حکومت کے فیصلہ کن اقدام کو دو برسوں سے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا اور سراہا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی پر کامیابی سے عملدرآمد اس وقت ممکن ہو سکا جب حکومت نے تمام سیاسی شراکت داروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے وسیع البنیاد سیاسی ہم آہنگی پیدا کی اور مسلح افواج کے بہادر جوانوں اور افسران نے اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جب کہ صوبائی حکومتوں، پولیس، سول آرمڈ فورسز اور انٹیلی جنس کے اداروں کی مربوط کوششیں بھی اس میں شامل ہیں۔ عدلیہ نے بھی اس حوالے سے مکمل تعاون کیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی کامیابی کا کریڈٹ پاکستان کے عوام کو جاتا ہے جنہوں نے اس آپریشن کی دل و جان سے حمایت کی۔

ملک میں دہشت گردی کے خاتمے اور مستقل قیام امن کے لیے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام حکومتی سول اور عسکری ادارے مل کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کریں گے۔ فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا جس میں اسے نمایاں کامیابی ملی اور آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں واضح کمی آ چکی ہے۔

دہشت گردی چند دن میں ختم نہیں ہو سکتی یہ ایک طویل اور صبر آزما جنگ ہے جس میں مختلف محاذوں پر لڑنا پڑے گا اس کے لیے ناگزیر ہے کہ تمام حکومتی سول اور عسکری ادارے مشترکہ طور پر اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ بھی ضروری ہے، دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں بھیس بدل کر چھپے ہوئے ہیں ان بے چہرہ دشمنوں کو گرفت میں لانے کے لیے سول آرمڈ اداروں کو عوام کے منتخب نمایندوں کی مدد سے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔


فوج نے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعض مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت اور عسکری اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود نہیں جس کے باعث خدشہ ہے کہ یہ جنگ کمزور پڑ سکتی ہے اور دہشت گرد دوبارہ سے مجتمع ہو کر حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ حکومت بارہا اس امر کا اعلان کر چکی ہے کہ ملکی سلامتی کے تحفظ اور بقا کے لیے وہ اور فوج مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی کا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ کسی قسم کا کوئی اختلاف ملکی سلامتی کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے، اگر دونوں اہم اداروں کے درمیان کسی مسئلے پر کوئی اختلاف موجود بھی ہے تو اسے دور کر لینا چاہیے۔ ملکی نظام کے استحکام کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج نے تو قربانیاں دے کر اپنا فرض ادا کر دیا اب حکومت اور سول اداروں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن کے مستقل قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

بادی النظر میں وفاقی حکومت کے ترجمان کا بیان گزشتہ سے پیوستہ روز کورکمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیے کا جواب نظر آتا ہے' بہرحال اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی' انتہا پسندی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے' گورننس میں بہتری کی گنجائش ہروقت موجود رہتی ہے' سیاسی جماعتوں کو بھی اس حوالے سے اپنا رہنما کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے' فوج اور سیکیورٹی اداروں کا کام ہتھیار اٹھانے والوں کی سرکوبی ہے۔

اگر شرپسند عناصر اور دہشت گرد شہروں اور قصبوں میں پھیل گئے ہیں' ان کے سرپرستوں نے سیاسی لبادے اوڑھ لیے ہیں اور انھیں فنانس کرنے والے بھی بہروپ بدلتے رہتے ہیں تو انھیں تلاش کرنا اور قانون کے کٹہرے میں لانا سول حکومتوں اور اداروں کی ذمے داری ہے' اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندوں اور انتہا پسندی کی سوچ کے خلاف نظریاتی محاذ پر جنگ کی ذمے داری جمہوری سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ پر عائد ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے کارکنوں کو تربیت دینے کا کوئی کلچر دیکھنے میں نہیں آ رہا' وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو اس حوالے سے اپنے باہمی روابط کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانا چاہیے تاکہ کہیں کوئی ابہام پیدا نہ ہو کیونکہ یہ ابہام بہت سے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ملک کو اس وقت ابہام کی نہیں بلکہ واضح اور صاف سوچ اور پالیسی کی ضرورت ہے۔
Load Next Story