گریبان میں جھانکنا ہوگا
اقوام عالم کو اپنے اپنے ’’قومی مفاد‘‘ سے بالاتر ہو کر ’’انسانی نسل کی بقاء‘‘ کی خاطر سر جوڑ کر کھوجنے ہوں گے۔
جب امریکہ کی ناک کے نیچے عراق میں داعش نے اپنی جگہ بنائی، صاحب بہادر کو اُس وقت تدارک کیوں نہ سوجھا؟ کمزور ہوتی ہوئی ’’القاعدہ‘‘ اور مضبوط ہوتی ہوئی ’’داعش‘‘ کیوں نظر نہ آئی؟ فوٹو: اے ایف پی
فرانس میں ہوئے دہشت گردی کے تازہ واقعے نے جہاں فرانسیسی قوم کو رنج اور صدمے سے آشنا کیا ہے وہیں کرہِ ارض پر پھیلے انسانوں کو خوفزدہ بھی کردیا ہے۔ دُنیا میں امن کی کوششوں میں مصروف لوگ سکتے کی حالت میں ہیں کہ دہشت گردی کا ناسور اپنی جڑیں، باوجود کاٹنے کے مضبوط کیونکر کرتا جا رہا ہے؟
پچھلی دہائی میں امریکہ میں ہوئے حملوں کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے پوری قوت سے جب اس عفریت کو نیست و نابود کرنے کی خاطر پہاڑوں کو ہموار کرکے لاکھوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تو آخر یہ بچ کیسے گئی؟ عراق پر دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کا شبہ تھا، اب جبکہ عراق کی کمر توڑ کر اُسے اس قدر لاچار کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے آنکھیں گھما گھما کر سہارا ڈھونڈ رہا ہے تو اب کی بار کون دہشت گردوں کے ہاتھ اور کندھے مضبوط کر نے میں لگا ہے؟
عراق کو کھنگالنے میں بے گناہ انسانوں کی جانیں گنوانے پر برطانوی وزیرِ اعظم کی معافی کے باوجود دہشت گرد آخر گھروں کو کیوں نہیں لوٹ رہے؟ سرحدوں پر خاردار تاریں، ہوائی اڈوں پر جامہ تلاشیاں، امیگریشن فارمز پر مذہب کے خانوں، جاسوسی کی نئی ایجادات، ذہین اور چاق و چوبند جوانوں کی بھرتیاں، اربوں ڈالر اسلحہ سازی میں جھونکنے، سہولت کاروں کے منجمند اکاؤنٹس، نت نئی ویزہ پابندیاں بھی آخر کیوں اس بلا کو نہیں ٹال رہے؟
ملکوں میں استحکام اور توازن کی خاطر وہاں پر متحارب گروپوں کی امداد اور انحصار وہ آکسیجن ٹینک ہے جہاں سے دہشت گردی کی اکھڑتی سانسوں کو سہارا مل جاتا ہے، ملکوں کو سیاسی چالوں کی بساط سمجھ کر، سیاست کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے وہاں بربادی اور تباہی پھیل رہی ہے، مثال کے طور پر جب امریکہ کی ناک کے نیچے عراق میں داعش نے اپنی جگہ بنائی، صاحب بہادر کو اُس وقت تدارک کیوں نہ سوجھا؟ کمزور ہوتی ہوئی ''القاعدہ'' اور مضبوط ہوتی ہوئی ''داعش'' کیوں نظر نہ آئی؟ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے ''روسی جہادی ماڈل'' مطلب نیم طالبانی گروپ ''النصر فرنٹ'' کو مضبوط کیوں کیا گیا؟
جب داعش نے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کیا اور عالمی منڈی میں قیمتیں گریں تو کس کس نے فائدہ حاصل کیا؟ شامی جنگجوؤں کو اسرائیل سے اسلحہ اور سعودی فنڈز کیوں دلوائے گئے؟ گر عالمی امن اتنا ہی عزیز تھا تو بالواسطہ کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کے لئے ملکوں کو اپنے اپنے ''قومی مفاد'' سے بالاتر ہو کر ''انسانی نسل کی بقاء'' کی خاطر سر جوڑ کر کھوجنے ہوں گے۔ ''اچھے دشمن'' اور ''برے دشمن'' کو انسانیت کا دشمن سمجھنا ہوگا۔
رہ گیا اقوامِ متحدہ ۔۔۔۔۔ تو وہ اس لاچار ضعیفہ خاتون کی مانند ہے جو چوہدریوں کے کتے کے مرجانے پر تو بین کرتی ہے پرغریبوں کے اُٹھتے جنازوں پر نہ آہ نکلتی ہے نہ سسکی۔ اسلامی دُنیا آج بھی مرغیوں کا وہ ڈربہ ہے، جس میں سہمی ہوئی مرغیاں بیٹھی اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ ہماری اِس دنیا میں آگ لگانے والے بجھانے والوں سے زیادہ ہیں، اب اِسے اللہ ہی بچائے۔
[poll id="768"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
پچھلی دہائی میں امریکہ میں ہوئے حملوں کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے پوری قوت سے جب اس عفریت کو نیست و نابود کرنے کی خاطر پہاڑوں کو ہموار کرکے لاکھوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تو آخر یہ بچ کیسے گئی؟ عراق پر دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کا شبہ تھا، اب جبکہ عراق کی کمر توڑ کر اُسے اس قدر لاچار کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے آنکھیں گھما گھما کر سہارا ڈھونڈ رہا ہے تو اب کی بار کون دہشت گردوں کے ہاتھ اور کندھے مضبوط کر نے میں لگا ہے؟
عراق کو کھنگالنے میں بے گناہ انسانوں کی جانیں گنوانے پر برطانوی وزیرِ اعظم کی معافی کے باوجود دہشت گرد آخر گھروں کو کیوں نہیں لوٹ رہے؟ سرحدوں پر خاردار تاریں، ہوائی اڈوں پر جامہ تلاشیاں، امیگریشن فارمز پر مذہب کے خانوں، جاسوسی کی نئی ایجادات، ذہین اور چاق و چوبند جوانوں کی بھرتیاں، اربوں ڈالر اسلحہ سازی میں جھونکنے، سہولت کاروں کے منجمند اکاؤنٹس، نت نئی ویزہ پابندیاں بھی آخر کیوں اس بلا کو نہیں ٹال رہے؟
ملکوں میں استحکام اور توازن کی خاطر وہاں پر متحارب گروپوں کی امداد اور انحصار وہ آکسیجن ٹینک ہے جہاں سے دہشت گردی کی اکھڑتی سانسوں کو سہارا مل جاتا ہے، ملکوں کو سیاسی چالوں کی بساط سمجھ کر، سیاست کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے وہاں بربادی اور تباہی پھیل رہی ہے، مثال کے طور پر جب امریکہ کی ناک کے نیچے عراق میں داعش نے اپنی جگہ بنائی، صاحب بہادر کو اُس وقت تدارک کیوں نہ سوجھا؟ کمزور ہوتی ہوئی ''القاعدہ'' اور مضبوط ہوتی ہوئی ''داعش'' کیوں نظر نہ آئی؟ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے ''روسی جہادی ماڈل'' مطلب نیم طالبانی گروپ ''النصر فرنٹ'' کو مضبوط کیوں کیا گیا؟
جب داعش نے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کیا اور عالمی منڈی میں قیمتیں گریں تو کس کس نے فائدہ حاصل کیا؟ شامی جنگجوؤں کو اسرائیل سے اسلحہ اور سعودی فنڈز کیوں دلوائے گئے؟ گر عالمی امن اتنا ہی عزیز تھا تو بالواسطہ کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کے لئے ملکوں کو اپنے اپنے ''قومی مفاد'' سے بالاتر ہو کر ''انسانی نسل کی بقاء'' کی خاطر سر جوڑ کر کھوجنے ہوں گے۔ ''اچھے دشمن'' اور ''برے دشمن'' کو انسانیت کا دشمن سمجھنا ہوگا۔
رہ گیا اقوامِ متحدہ ۔۔۔۔۔ تو وہ اس لاچار ضعیفہ خاتون کی مانند ہے جو چوہدریوں کے کتے کے مرجانے پر تو بین کرتی ہے پرغریبوں کے اُٹھتے جنازوں پر نہ آہ نکلتی ہے نہ سسکی۔ اسلامی دُنیا آج بھی مرغیوں کا وہ ڈربہ ہے، جس میں سہمی ہوئی مرغیاں بیٹھی اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ ہماری اِس دنیا میں آگ لگانے والے بجھانے والوں سے زیادہ ہیں، اب اِسے اللہ ہی بچائے۔
[poll id="768"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔