چھٹی اور تاج محل

محترم قارئین میں ان دنوں چھٹی پر ہوں۔ گزشتہ ہفتہ ایک دن صبح ایسا موڈ تھا کہ قلم دوات کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ ان

Abdulqhasan@hotmail.com

محترم قارئین میں ان دنوں چھٹی پر ہوں۔ گزشتہ ہفتہ ایک دن صبح ایسا موڈ تھا کہ قلم دوات کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ انھیں دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا چنانچہ میں نے چند دن آرام کرنے کا پروگرام بنایا لیکن معلوم ہوا کہ اپنے ادارے کے ساتھ میرے مراسم کتنے ہی درست سہی مگر قانون کو کسی کی خواہش توڑ نہیں سکتی اور میرے معاہدے میں ہفتہ میں دو چھٹیاں تو درج ہیں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

عمر بھر ملازمت کرنے کے باوجود مجھ میں اتنی عقل پیدا نہیں ہوئی کہ میں سالانہ یا علالت وغیرہ کی چھٹی بھی ملازمت کے معاہدے میں درج کرا سکتا البتہ جب میں نے چند دن آرام کرنے کی بات کی تو متعلقہ دوستوں نے شکایت کی کہ تم نے پوچھا ہی کیوں ہے اور کیا ہم کوئی افسر ہیں۔ بہر کیف اتنی بات ہوئی کہ جب موڈ بنے تو کچھ لکھ لیں تا کہ قارئین متفکر نہ ہوں کہ کدھر گیا یعنی قارئین کا نام لے کر کہا گیا کہ چھٹی کے باوجود اس میں ناغہ بھی کرتا رہوں تا کہ اس پر مجھے جگرؔ کا شعر یاد آیا

مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

یوں میں نے کبھی کبھی رہائی کا ارادہ تو کر لیا ہے لیکن چھٹی میں خیانت بھی کرتا رہوں گا۔ اگر خالص چھٹی کروں تو پھر میری پاکستانیت کہاں گئی۔ یہاں تو سوائے پانی کے کچھ بھی خالص نہیں ہر کھانے پینے کی ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے مگر اسے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ سامان خورونوش کو جن درآمدی حفاظتی سامان یعنی مشینوں میں محفوظ کیا جاتا ہے ان پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ٹیکس زدہ اشیاء کی فہرست سیکڑوں میں ہے اور حد یہ ہے کہ اقتدار پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے اور اقتدار کی کوئی موثر اپوزیشن نہ ہونے کا سن کر ہمہ گیر ٹیکس کی صورت میں اپوزیشن بھی تخلیق کر دی گئی ہے۔

خدا ہمارے متعلقہ وزیر کو سلامت رکھے انھوں نے لنکا ڈھانے کا بندوبست کیا ہے وہ وزیر ہی کیا ہوا جسے ایک اکاؤنٹنٹ سے وزیر بنا دیا جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے۔ جیسے میں اپنی چھٹی میں کالم لکھ کر خیانت کر رہا ہوں۔ داد دینی چاہیے ایک تو وزیر موصوف کی ہمت پر کہ انھوں نے جس بے دردی سے ٹیکس لگائے ہیں خدا نے یہ حوصلہ انھیں ہی دیا ہے کہ خلق خدا کو اتنا تنگ کریں کہ اس کی زبان حکومت کے لیے دعا نہ کر سکے۔ میں میاں صاحب کو جانتا ہوں کہ سیاستدان ہونے کے باوجود ان کی آنکھوں میں کسی غیر سیاستدان کی طرح شرم و حیا ہے۔


وہ انکار کرتے رہیں آپ ضد کرتے رہیں تو وہ سر جھکا کر آپ کی درخواست پر دستخط کر دیں گے لیکن معلوم ہوتا ہے ان ٹیکسوں کی منظوری بھی میاں صاحب کی اس کمزوری کے تحت ضد کر کے لے لی گئی ہے ورنہ میاں نواز شریف ایک عوام دوست انسان ہے۔ اسحاق ڈار صاحب جو کبھی ان کے اکاؤنٹنٹ تھے جس سے ترقی کر کے وہ وزیر بن گئے لگتا ہے اس دوران انھوں نے میاں صاحب کو قابو کرنے کا کوئی گر بھی تلاش کر لیا تھا لیکن ایک بات واضح ہے کہ میاں صاحب کو اب باہر کی اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہی وہ اس وزیر صاحب کے ذریعے خود کفیل ہو گئے ہیں اور یہ ضرورت ان کا محکمہ خزانہ پوری کرے گا اور کر رہا ہے۔ میاں صاحب بھیس بدل کر ذرا باہر نکلیں تو شاید پریشان ہو کر گھر کا واپسی راستہ ہی بھول جائیں۔

ان دنوں تاج محل پھر سے خبروں میں ہے۔ یوں تو یہ عمارت جو دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے کبھی انسانی ذہن سے محو اور فراموش نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات اس سے متعلق اس کی طرح کچھ خوبصورت خبریں بھی سامنے آ جاتی ہیں جن کا ذکر اچھا اور خوبصورت لگتا ہے۔ ان دنوں بھارت کے ہندوؤں نے اعلان کیا کہ تاج محل تو ایک مندر تھا اس لیے ہمیں اس میں عبادت کی اجازت دی جائے اس پر بحث جاری ہے لیکن بھارت نے اعلان کیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور یہ عمارت مندر نہیں تھی بلکہ یہی تھی جو ہمارے سامنے ہے۔ تاج محل کے بارے میں بڑی بڑی نکتہ آفرینی کی گئی ہے اور اس میں دانشوروں نے خوبصورت الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں مجھے ایک امریکی صدر بل کلنٹن کے الفاظ یاد آ رہے ہیں۔

تاج محل کا دورہ کرنے کے بعد جب یہ سیاستدان باہر آیا تو پوچھا گیا کہ تاج محل کیسا لگا اس پر بل کلنٹن نے جواب دیا دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک وہ جس نے تاج محل دیکھا ہے دوسری وہ جس نے نہیں دیکھا۔ خود میں نے بھی تاج محل بچشم خود دیکھا تھا۔ مسلمانوں کی اس یاد گار خوبصورت ترین عمارت دیکھ کر میں تو بس ایک طویل حیرت میں ڈوب گیا کہ وہ کون لوگ تھے جو غیر مسلموں پر حکومت بھی کرتے تھے اور تاج محل بھی بنواتے تھے۔

یہ غیر معمولی مسلمان حکمران اب تاریخ کا حصہ تو بن گئے ہیں لیکن وہ اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ سلامت ہیں اور زندہ رہیں گے۔ کوئی تباہ کن زلزلہ بھی آیا تو وہ اس عمارت سے کنی کترا کر گزر جائے گا کس کی مجال ہے کہ ایسی کسی نایاب تخلیق کو تیز نظروں سے بھی دیکھ سکے اور سلامت رہے۔

بات کالم سے بہت ہی زیادہ ہے اور اب ہماری اعلیٰ ترین عدالتیں بھی اپنا روایتی صبر و تحمل توڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں بلکہ یوں کہیں کہ چیخ پڑی ہیں کہ بدانتظامی اور کرپشن نے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ عدالتوں کی اس چیخ و پکار یا انتباہ کے بعد اب کوئی اور کیا کہہ سکتا ہے۔

عدالتیں عوام سے نہیں حکمرانوں سے کہہ رہی ہیں کہ وہ ملک کو بچانے کی کوئی صورت نکالیں اور اس کی ایک ہی صورت ہے کہ ہمارے حکمران اپنے رہن سہن اور گھریلو اور باہر کی زندگی میں یہ ثابت کر دیں کہ وہ ایک غریب ملک کے حکمران ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کی لاتعداد مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں حکمرانوں میں حوصلہ ہو تو وہ کسی گوشے میں بیٹھ کر تنہائی میں یہ سب پڑھ لیں اور قدرت سے اس پر عمل کی توفیق طلب کر لیں۔
Load Next Story