مدینۂ منورہ
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس شہر کی اقامت پر ترغیب دی اور شہر مدینہ میں ہی موت کو پسند فرمایا۔
مسجد نبوی ﷺ انبیاء کی آخری مسجد اسی شہر میں ہے۔ فوٹو : فائل
MUZAFFARABAD:
اسلامی تاریخ میں مدینۂ منورہ وہ مقدس شہر ہے جسے حرم نبیﷺ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
مدینۂ منورہ کی حدود کا رقبہ 16 کلومیٹر ہے۔ مدینہ سے بحیرۂ احمر پر واقع ینوع کا فاصلہ 275 کلو میٹر، جدے کا فاصلہ 425 کلومیٹر اور مکۂ مکرمہ کا فاصلہ 497کلومیٹر ہے۔
شہر مدینہ سطح سمندر سے 597 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس شہر کی آب و ہوا کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے، خزاں اور بہار معتدل ہوتی ہے، جب کہ سردی میں شدید سردی پڑتی ہے۔ اس وقت مدینۂ منورہ کی آبادی تقریباً سات لاکھ ہے۔ اس شہر کے متعدد نام ہیں جن میں مشہور نام یہ ہیں: طابہ، طیبہ، قبۃ الاسلام، قلب الایمان، مومنہ، مبارکہ، مدینۃ الرسول ﷺ، دارالایمان، دارالابرار، دارالسلام وغیرہ۔
روئے زمین کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس کے نام اتنی کثرت سے رکھے گئے ہوں۔ حضور اکرم ﷺ کو اس شہر کے لیے طابہ اور طیبہ نام زیادہ پسند تھے۔ مدینۂ منورہ کی سرزمین شرک کی نجاست سے پاک ہے۔ اس کی آب و ہوا پاکیزہ ہے۔ حیا اور ایمان اس شہر کی صفات ہیں۔ مدینے کی مٹی میں ایک خاص قسم کی خوش بو ہے جو مشک و عنبر میں بھی نہیں۔ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اس شہر میں پائی جاتی ہیں۔ خاک مدینہ ہر مرض کے لیے اور خصوصاً برص اور جذام کے لیے شفا ہے۔ اس مقدس شہر کا ایک نام ''محبار'' بھی ہے۔ ''محبار'' اس سرزمین کو کہتے ہیں جو سبزیاں جلد اگائے اور بہت نفع والی ہو۔
حدیث میں اس شہر کے بارے میں فرمایا گیا ہے:''مدینہ کی گلیوں کے دونوں سروں پر فرشتے بیٹھے اس کی پاس بانی کرتے ہیں۔''
آپؐ کو اس شہر سے بہت محبت تھی۔ یہیں آپؐ نے فتوحات اور اسلامی کامیابیاں حاصل کیں۔ یہی جگہ اسلام کی قوت، دین کے اصول ، تمام اول و آخر خیر و برکات کا سرچشمہ اور جملہ کمالات ظاہر و باطن کا مخزن اور سعادت عظمیٰ اور نعمت کبریٰ کا سرچشمہ ہے۔ دنیاوی اور اخروی کوئی بھی نعمت اس کا مقابلہ اور برابری نہیں کرسکتی۔ حضور اکرم ﷺ کا روضۂ مبارک بہترین مقام اور اﷲ کی برکات اور رحمت و رضوان کا مقام ہے۔ یہی دربار خداوندی سے فرشتوں کے نزول کی جگہ ہے۔ فتح مکہ کے بعد بھی رسول کریمﷺ نے یہیں پر قیام پسند فرمایا۔ حضور پرنور ﷺ کی مدینے سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب حضور اکرمؐ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تھے اور مدینے کے قریب پہنچے تو اپنی سواری کی رفتار کو بڑھا دیتے، تاکہ جلد از جلد مدینہ میں داخل ہوجائیں۔ جو گردو غبار آپؐ کے چہرۂ مبارک پر پڑ جاتا، اس کو صاف نہ فرماتے۔ اگر صحابہ میں سے کوئی شخص اپنے چہرے اور سر کو گرد و غبار کی وجہ سے چھپاتا تو آپؐ اسے منع فرماتے اور کہتے:''خاک مدینہ میں شفا ہے۔''
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس شہر کی اقامت پر ترغیب دی اور شہر مدینہ میں ہی موت کو پسند فرمایا۔
نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جو شخص مدینہ میں انتقال کرے اس کے لیے میں قیامت کے دن شفیع ہوں گا۔''
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:''روئے زمین میں مدینے کے سوا کوئی قطعۂ زمین ایسا نہیں جس میں، میں اپنی قبر کو پسند کروں۔''
حضرت عمر بن خطاب ہمیشہ یہ دعا فرماتے تھے:''اے خدا! اپنی راہ میں مجھے شہادت نصیب فرما اور میری موت اپنے رسول کے شہر میں دے۔''
امام مالک نے سوائے ایک مرتبہ کے حج ادا نہیں کیا ۔جب فرض حج ادا کر چکے تو دوبارہ مدینہ سے مکہ اس لیے نہیں گئے کہ شاید مدینہ کے علاوہ دوسری جگہ موت آجائے اور پوری زندگی مدینہ میں رہے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
صحیح بخاری میں مدینہ منورہ کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی ہے:
''مدینہ پاک ہے اور گناہوں کی نجاست کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح سنار کی بھٹی چاندی کے میل کو صاف کرتی ہے۔''
اس مقدس شہر کی سکونت سے تمام کدورت نفسانیہ جاتی رہتی ہیں۔ یہ شہر دجال کے وجود اور نجاست سے محفوظ رہے گا۔ اس زمانے میں مدینہ منورہ کی ہر گلی میں فرشتوں کی ایک جماعت مقرر ہوگی جو اس کی حفاظت کرے گی اور دجال کے داخلے کو روک دے گی۔''
مسجد نبوی ﷺ انبیاء کی آخری مسجد اسی شہر میں ہے۔ اسی شہر میں مسجد قبا ہے جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے اور جس کی بنیاد دین محمدیﷺ میں سب سے پہلے رکھی گئی۔ مسجد نبویﷺ میں روضۂ مبارک اور منبر کے درمیان ریاض الجنہ واقع ہے جو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اسی شہر میں جبل احد ہے جو جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔ یہیں جنت البقیع کا قبرستان ہے جہاں رسول مکرمﷺ کی اولاد اور صحابۂ عظام مدفون ہیں۔ اسی قبرستان میں سے ستر ہزار افراد کو قیامت کے دن اسی طرح اٹھایا جائے گا کہ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح منور ہوں گے اور انہیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کر دیا جائے، کیوں کہ ان میں اکثریت صحابۂ کرام، تابعین، صالحین، علما، تہجد گزار، متقین اور عبادت گزار ہوں گے۔ اسی شہر میں بیر غرس ہے جو جنت کے کنوؤں میں سے ہے۔
اسی شہر مبارکہ میں مسجد نبویﷺ ہے۔ اس حوالے سے رسول کریم کا ارشاد پاک ہے:''جس نے چالیس نمازیں مسجد نبویﷺ میں پڑھیں اور اس کی کوئی نماز فوت نہ ہوئی تو اس کے لیے آگ اور عذاب سے برأت لکھ دی گئی اور وہ نفاق سے بری ہوگیا۔''
مسجد نبویﷺ میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دیگر مساجد کی نسبت ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ اور یہ فضیلت فرض اور نفل دونوں نمازوں کو حاصل ہے۔ اس مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن تقوے پر رکھی گئی ہے۔
مدینہ منورہ میں 10 افضل ترین شہداء ہیں جنہوں نے حضور اکرمﷺ کے سامنے اﷲ کی ذات کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور ان کی گواہی حضور اکرم ﷺ نے دی۔ مدینۂ منورہ میں اعمال صالحہ کو اجر و ثواب دگنا ہوجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس شہر کو اپنے نبی کریم ﷺ کے لیے بطور ہجرت گاہ پسند فرمایا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ اس شہر کی خصوصیت یہ ہے کہ ایمان اس کی طرف سمٹ جائے گا۔ یہ ایمان اور قرآن سے فتح ہوا، جب کہ دوسرے شہر تلوار سے فتح ہوئے۔
اسلامی تاریخ میں مدینۂ منورہ وہ مقدس شہر ہے جسے حرم نبیﷺ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
مدینۂ منورہ کی حدود کا رقبہ 16 کلومیٹر ہے۔ مدینہ سے بحیرۂ احمر پر واقع ینوع کا فاصلہ 275 کلو میٹر، جدے کا فاصلہ 425 کلومیٹر اور مکۂ مکرمہ کا فاصلہ 497کلومیٹر ہے۔
شہر مدینہ سطح سمندر سے 597 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس شہر کی آب و ہوا کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے، خزاں اور بہار معتدل ہوتی ہے، جب کہ سردی میں شدید سردی پڑتی ہے۔ اس وقت مدینۂ منورہ کی آبادی تقریباً سات لاکھ ہے۔ اس شہر کے متعدد نام ہیں جن میں مشہور نام یہ ہیں: طابہ، طیبہ، قبۃ الاسلام، قلب الایمان، مومنہ، مبارکہ، مدینۃ الرسول ﷺ، دارالایمان، دارالابرار، دارالسلام وغیرہ۔
روئے زمین کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس کے نام اتنی کثرت سے رکھے گئے ہوں۔ حضور اکرم ﷺ کو اس شہر کے لیے طابہ اور طیبہ نام زیادہ پسند تھے۔ مدینۂ منورہ کی سرزمین شرک کی نجاست سے پاک ہے۔ اس کی آب و ہوا پاکیزہ ہے۔ حیا اور ایمان اس شہر کی صفات ہیں۔ مدینے کی مٹی میں ایک خاص قسم کی خوش بو ہے جو مشک و عنبر میں بھی نہیں۔ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اس شہر میں پائی جاتی ہیں۔ خاک مدینہ ہر مرض کے لیے اور خصوصاً برص اور جذام کے لیے شفا ہے۔ اس مقدس شہر کا ایک نام ''محبار'' بھی ہے۔ ''محبار'' اس سرزمین کو کہتے ہیں جو سبزیاں جلد اگائے اور بہت نفع والی ہو۔
حدیث میں اس شہر کے بارے میں فرمایا گیا ہے:''مدینہ کی گلیوں کے دونوں سروں پر فرشتے بیٹھے اس کی پاس بانی کرتے ہیں۔''
آپؐ کو اس شہر سے بہت محبت تھی۔ یہیں آپؐ نے فتوحات اور اسلامی کامیابیاں حاصل کیں۔ یہی جگہ اسلام کی قوت، دین کے اصول ، تمام اول و آخر خیر و برکات کا سرچشمہ اور جملہ کمالات ظاہر و باطن کا مخزن اور سعادت عظمیٰ اور نعمت کبریٰ کا سرچشمہ ہے۔ دنیاوی اور اخروی کوئی بھی نعمت اس کا مقابلہ اور برابری نہیں کرسکتی۔ حضور اکرم ﷺ کا روضۂ مبارک بہترین مقام اور اﷲ کی برکات اور رحمت و رضوان کا مقام ہے۔ یہی دربار خداوندی سے فرشتوں کے نزول کی جگہ ہے۔ فتح مکہ کے بعد بھی رسول کریمﷺ نے یہیں پر قیام پسند فرمایا۔ حضور پرنور ﷺ کی مدینے سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب حضور اکرمؐ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تھے اور مدینے کے قریب پہنچے تو اپنی سواری کی رفتار کو بڑھا دیتے، تاکہ جلد از جلد مدینہ میں داخل ہوجائیں۔ جو گردو غبار آپؐ کے چہرۂ مبارک پر پڑ جاتا، اس کو صاف نہ فرماتے۔ اگر صحابہ میں سے کوئی شخص اپنے چہرے اور سر کو گرد و غبار کی وجہ سے چھپاتا تو آپؐ اسے منع فرماتے اور کہتے:''خاک مدینہ میں شفا ہے۔''
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس شہر کی اقامت پر ترغیب دی اور شہر مدینہ میں ہی موت کو پسند فرمایا۔
نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جو شخص مدینہ میں انتقال کرے اس کے لیے میں قیامت کے دن شفیع ہوں گا۔''
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:''روئے زمین میں مدینے کے سوا کوئی قطعۂ زمین ایسا نہیں جس میں، میں اپنی قبر کو پسند کروں۔''
حضرت عمر بن خطاب ہمیشہ یہ دعا فرماتے تھے:''اے خدا! اپنی راہ میں مجھے شہادت نصیب فرما اور میری موت اپنے رسول کے شہر میں دے۔''
امام مالک نے سوائے ایک مرتبہ کے حج ادا نہیں کیا ۔جب فرض حج ادا کر چکے تو دوبارہ مدینہ سے مکہ اس لیے نہیں گئے کہ شاید مدینہ کے علاوہ دوسری جگہ موت آجائے اور پوری زندگی مدینہ میں رہے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
صحیح بخاری میں مدینہ منورہ کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی ہے:
''مدینہ پاک ہے اور گناہوں کی نجاست کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح سنار کی بھٹی چاندی کے میل کو صاف کرتی ہے۔''
اس مقدس شہر کی سکونت سے تمام کدورت نفسانیہ جاتی رہتی ہیں۔ یہ شہر دجال کے وجود اور نجاست سے محفوظ رہے گا۔ اس زمانے میں مدینہ منورہ کی ہر گلی میں فرشتوں کی ایک جماعت مقرر ہوگی جو اس کی حفاظت کرے گی اور دجال کے داخلے کو روک دے گی۔''
مسجد نبوی ﷺ انبیاء کی آخری مسجد اسی شہر میں ہے۔ اسی شہر میں مسجد قبا ہے جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے اور جس کی بنیاد دین محمدیﷺ میں سب سے پہلے رکھی گئی۔ مسجد نبویﷺ میں روضۂ مبارک اور منبر کے درمیان ریاض الجنہ واقع ہے جو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اسی شہر میں جبل احد ہے جو جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔ یہیں جنت البقیع کا قبرستان ہے جہاں رسول مکرمﷺ کی اولاد اور صحابۂ عظام مدفون ہیں۔ اسی قبرستان میں سے ستر ہزار افراد کو قیامت کے دن اسی طرح اٹھایا جائے گا کہ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح منور ہوں گے اور انہیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کر دیا جائے، کیوں کہ ان میں اکثریت صحابۂ کرام، تابعین، صالحین، علما، تہجد گزار، متقین اور عبادت گزار ہوں گے۔ اسی شہر میں بیر غرس ہے جو جنت کے کنوؤں میں سے ہے۔
اسی شہر مبارکہ میں مسجد نبویﷺ ہے۔ اس حوالے سے رسول کریم کا ارشاد پاک ہے:''جس نے چالیس نمازیں مسجد نبویﷺ میں پڑھیں اور اس کی کوئی نماز فوت نہ ہوئی تو اس کے لیے آگ اور عذاب سے برأت لکھ دی گئی اور وہ نفاق سے بری ہوگیا۔''
مسجد نبویﷺ میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دیگر مساجد کی نسبت ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ اور یہ فضیلت فرض اور نفل دونوں نمازوں کو حاصل ہے۔ اس مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن تقوے پر رکھی گئی ہے۔
مدینہ منورہ میں 10 افضل ترین شہداء ہیں جنہوں نے حضور اکرمﷺ کے سامنے اﷲ کی ذات کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور ان کی گواہی حضور اکرم ﷺ نے دی۔ مدینۂ منورہ میں اعمال صالحہ کو اجر و ثواب دگنا ہوجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس شہر کو اپنے نبی کریم ﷺ کے لیے بطور ہجرت گاہ پسند فرمایا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ اس شہر کی خصوصیت یہ ہے کہ ایمان اس کی طرف سمٹ جائے گا۔ یہ ایمان اور قرآن سے فتح ہوا، جب کہ دوسرے شہر تلوار سے فتح ہوئے۔