چند دُھند لی یادیں

یہ وہ یادیں ہیں جو چند برس پہلے نیو یارک سے شروع ہوئیں اور لاہور آ کر ختم ہوئیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

یہ وہ یادیں ہیں جو چند برس پہلے نیو یارک سے شروع ہوئیں اور لاہور آ کر ختم ہوئیں۔ امریکا کے سب سے بڑے بارونق شہر نیویارک میں پاکستانی دوستوں اور مہربانوں کی میزبانی کو بالآخر الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا اور نیو یارک سے پاکستان آنے والے جہاز کے وقت کے مطابق نیویارک کے کینڈی ایئر پورٹ پہنچ گئے ایئر پورٹ کی کارروائیاں ختم کرنے کے بعد جب جہاز کا کارڈ جیب میں ڈالا تو پتہ چلا کہ لاہور میں چونکہ موسم ٹھیک نہیں اسی لیے جہاز لیٹ ہے۔

بچے کھچے ڈالروں کو ٹٹول کر اپنی مالی حیثیت کا تعین کیا اور ایئر پورٹ کی دکانوں کا چکر لگانا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد ایک مسافر ملا تو معلوم ہوا کہ موسم کی خرابی خاصی لمبی ہو گئی ہے چنانچہ پی آئی اے (خدا اسے تاجر حکمرانوں سے بچائے) سے رجوع کیا۔ ایئر پورٹ کے قریب ہی قیام کے لیے ایک اچھے ہوٹل میں بھرتی کرا دیا گیا، مسافروں میں منی بیگم بھی شامل تھیں ان کی گلوکاری کی تعریف کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی اور ادھر ادھر کی خبروں سے معلوم ہوا کہ لاہور وغیرہ میں ہر جگہ شدید دھند ہے بلکہ صرف دھند ہی ہے جس نے کاروبار حیات بند کرا دیا ہے۔

ہم لوگ جنھیں لاہور پہنچنے کی کوئی جلدی نہ تھی ایئر پورٹ کے علاقے کی سیر کو نکل گئے اور یہ سیر دو چار دن تک جاری رہی بالآخر ایک دن پی آئی اے نے اطلاع دی کہ موسم کھل گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ محفلیں بھی بند ہو گئیں جو منی بیگم کی مہربانی سے ہمیں پاکستان سے اداس نہیں ہونے دے رہی تھیں دن بھر امریکا کی میمیں اور رات کو منی بیگم کے نغمے ہمیں کسی نئی دنیا میں لیے پھرے اور ہم اس دھند پر بہت خوش رہے۔

لاہور میں میرا تو کوئی کام نہیں تھا، پی آئی اے کے خرچ پر ایک اچھے ہوٹل میں قیام اور اس پر ہر شام کو موسیقی کی محفل اور دوسری کئی محفلیں بھی ایسے میں لاہور کو کون یاد کرتا ہے لیکن دھند نے ہمارا پورا ساتھ نہ دیا اور ہمیں نیو یارک سے رہا کر کے لاہور کی سمت روانہ کر دیا جہاں مطلع صاف تھا اور پھر سے وہی لاہور تھا جسے ہم چھوڑ کر امریکا گئے تھے۔ اتنے ڈھیر سارے دن نیو یارک میں مسافرانہ قیام سے سامان کا ایک پیکٹ کہیں ادھر ادھر گم ہو گیا جس میں کچھ تحفے تحائف بھی تھے جن کا لاہور میں ہمارے دوستوں کو شدت کے ساتھ انتظار تھا اور میرے سامان کی گمشدگی کو وہ سب ایک بہانہ سمجھ رہے تھے۔

ان دنوں لاہور اور اس کے گردونواح میں جو دھند ہے اس نے مجھے نیویارک میں سرکاری خرچ یعنی پی آئی اے کے خرچ پر قیام کے دن یاد دلا دیے۔ ان دنوں خود پی آئی اے جن مسافرانہ دنوں سے گزر رہی ہے اور ٹکے کے بھاؤ بیچی جا رہی ہے اسے دیکھ کر نیو یارک کے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہر روز شام کو پی آئی اے کا ایک افسر اپنے مہمانوں کی خیروعافیت معلوم کرنے ہمارے ہوٹل آیا کرتا تھا اور اپنی خدمات بھی پیش کرتا تھا۔


ہمارے ایک ہم سفر جو لاہور کے لیے بہت بے چین تھے ہر روز ان سے دھند کی خیروعافیت کا پتہ کرتے اور پریشان ہو جاتے۔ وہ نوجوان تھے کاروباری نہیں تھے بلکہ معاملہ کچھ اور تھا جسے وہ کسی مسافر کو نہیں بتا سکتے تھے۔ لاہور کی حد تک ان دنوں بھی پی آئی اے کی پروازیں بند ہیں، خیال تھا کھل جائیں گی مگر پتہ چلا ہے کہ ایک دن کے ذرا سے وقفے کے بعد دھند لوٹ آئی ہے اور لاہور اور اس کے آس پاس کو اپنی ڈھیلی ڈھالی مگر اندھی گرفت میں لے لیا ہے۔ کچھ پتہ نہیں اس کا جی کب بھرے گا اور وہ اپنی گرفت ڈھیلی کر دے گی۔ ہم سب پھر سے واپس آ جائیں گے لیکن تب تک بھارت کی سشما سوراج واپس لوٹ چکی ہوں گی۔

اس خاتون سے پہلی ملاقات دلی میں ہوئی تھی اور ان کی بے تکلفی سے ان کا تعارف یوں ہوا کہ ان کے بقول وہ لاہور کی رہنے والی تھیں یعنی لاہور کی تھیں اور جب بات آگے چلی تو معلوم ہوا کہ وہ لاہور کے محلے یا آبادی کہیں دھرم پورہ کی رہنے والی تھیں لیکن پاکستان سے بہت ناراض تھیں۔

کئی برس تک اپنی جنم بھومی سے جدائی پر دکھی ہو جانا ایک قدرتی امر ہے اور میں نے بھی اسے اسی جذبے کی نشانی سمجھا ورنہ کسی بھارتی کا پاکستان سے دشمنی کا کیا فائدہ، اب حالات بہت ہی بدل چکے ہیں اور بھارتی وزیر خارجہ کی سنہری ساڑھی اور سرخ بندیا صرف دیکھنے میں اچھی لگتی ہے ورنہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں۔ اب پاکستان وہ پاکستان نہیں رہا جس پر بھارت رعب جھاڑتا تھا۔ آج کا پاکستان اپنی فوجی طاقت اور اپنی آزادی کے دفاع میں خود کفیل ہی نہیں بہت کچھ ہے۔ ہماری فوج دنیا کی ایک بہترین فوج ہے اور ہمارا سپاہی موت کو ایک ابدی زندگی سمجھتا ہے جس کی تمنا کوئی انسان بھی کر سکتا ہے وہ لڑائی کو جنگ نہیں جہاد سمجھتا ہے اور جہاد بذات خود ایک بہت ہی بڑی عبادت ہے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ ہمارا ایٹم بم تکنیکی اعتبار سے دنیا کے اعلیٰ معیار کے مطابق ہے اور بھارت کے بم سے بہت ہی بہتر ہے۔اس میں مسلسل بہتری لائی جا رہی ہے اور اب یہ ایسے چھوٹے سائز کا بھی بن چکا ہے جو فوجوں کے اجتماع کو تتر بتر کر دیتا ہے۔ ہماری فوج کے جنگی ماہرین بھی تحقیق اور نئے جنگی حربے اختیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کسی پاکستانی فوجی سے پوچھیں تو وہ بھارت کو اپنے مدمقابل نہیں سمجھتا اور بھارت کے خوف پھیلانے کے زمانے گزر چکے ہیں۔اب خدا نہ کرے جنگ کی نوبت آ جائے ورنہ پورا برصغیر تباہی کی لپیٹ میں آ جائے گا اور کچھ بھی نہیں بچے گا۔

مجھے ذاتی طور پرمعلوم ہے کہ ہندو کی ایک بڑی آرزو مسلمانوں پر غلبہ کی ہے لیکن اب یہ صرف ایک آرزو ہی رہ سکتی ہے اور کچھ نہیں بلکہ عقلمندی اسی میں ہے کہ یہ آرزو ختم کرکے اس کی جگہ معاشی برتری کی بات کی جائے جس میں مسلمان بھارتی ہندو کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ''ٹاٹا اور برلا'' پاکستان میں بھی ہیں لیکن یہ ملکی مارکیٹ میں مقابلے کے بعد اس مقام تک نہیں پہنچیں، یہ سب حکومت کی عنایات اور تحفظ میں اور راشی انتظامیہ کی مدد سے سیٹھ بنے ہیں۔ کاروبار کا میدان بھارت کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ فوجی اعتبار سے مقابلہ شاید مشکل ہو گا۔

بہر کیف دھرم پورہ لاہور کی سشما سوراج کا خیرمقدم۔
Load Next Story