ایک اور حملہ
آج کی دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کا ہر ملک میں احترام کیا جاتا ہے
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
سرگودھا میں ایکسپریس نیوزکے آفس پرکریکر حملہ کیا گیا، جس کے دھماکے سے اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو نقصان پہنچا ،کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور کارکنان میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ یہ ایکسپریس پر پہلا حملہ نہیں تھا، اس سے پہلے ایکسپریس میڈیا گروپ کراچی کے دفاتر پر بھی دو بار حملہ کیا گیا اور جب کہ فیلڈ میں موجود ایکسپریس کی میڈیا گاڑی پر حملہ کرکے تین کارکنوں کو شہیدکیا گیا۔
حکومت سمیت تمام سیاستدانوں نے سرگودھا آفس پرکریکر حملے کی سخت مذمت کی۔ ایکسپریس پر ان مسلسل حملوں کے تناظر میں حکومت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ ملک بھر میں موجود ایکسپریس کے دفاتر پر فول پروف سیکیورٹی کا بندوبست کرتی لیکن حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ اس قسم کے بزدلانہ حملوں سے نہ ایکسپریس کے کارکنوں کو خوف زدہ کیا جاسکتا ہے نہ ایکسپریس کی حق گوئی اور بے باکی کی پالیسی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایکسپریس نیوز اور ایکسپریس اخبار اپنی ان ہی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں اس قدر مقبول ہیں کہ ان کا شمار صف اول کے میڈیا ہاؤسز میں ہوتا ہے۔ ایکسپریس چینلز اور روزنامہ ایکسپریس کی عوام میں اس مقبولیت کا مطلب یہ ہے کہ عوام ان کی پالیسیوں سے اتفاق ہی نہیں کرتے بلکہ اسے پسند بھی کرتے ہیں۔
آج کی دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کا ہر ملک میں احترام کیا جاتا ہے، اگر عوام کے اس حق کے خلاف کسی حلقے کی طرف سے مزاحمت کی جاتی ہے تو نہ صرف صحافی برادری بلکہ سول سوسائٹی، طلبا برادری، ٹریڈ یونینز اور پیشہ ورانہ تنظیموں کی طرف سے سخت احتجاج کیا جاتا ہے۔
کیونکہ دنیا کے عوام دانشور،مفکر،ادیب، شاعر، فنکار یہ جانتے ہیں کہ آج سائنس وٹیکنالوجی آئی ٹی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ترقی دیکھی جا رہی ہے، وہ اظہار رائے، تحقیق اور تجربات کی ہی مرہون منت ہے۔ پاکستان میں سول اور فوجی ڈکٹیٹروں نے بار بار صحافی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں کیں لیکن ہمیشہ انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب مذہبی ڈکٹیٹر پاکستان سمیت دنیا بھر میں اظہار رائے اور صحافتی آزادی کے خلاف بزدلانہ طریقے اختیارکر رہے ہیں جب کہ دنیا کو پرامن اور خوشحال بنانے کے لیے مذہبی رواداری برداشت کے کلچر کی شدید ضرورت ہے۔
آج دنیا جس خطرناک مذہبی انتہا پسندی کی زد میں ہے اس کا تقاضا ہے کہ مذہبی رواداری مذہبی یکجہتی کی دنیا بھر میں ایک منظم تحریک چلائی جائے تاکہ انسانوں کے درمیان نفرتوں کی جگہ محبت، عدم برداشت کی جگہ برداشت، تعصبات کی جگہ رواداری کا کلچر فروغ پاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی یہ خطرناک لہرکیوں پیدا ہوئی؟ دنیا میں اربوں کی تعداد میں مختلف مذاہب کو ماننے والے لوگ موجود ہیں۔ دنیا میں جو بڑے مذاہب موجود ہیں۔
ان میں عیسائی مذہب، مذہب اسلام، ہندو مذہب، بدھ مذہب، یہودیت اور پارسی مذہب شامل ہیں۔ ان مذاہب کی ایک طویل تاریخ ہے صرف عیسائی مذہب کو لے لیں تو یہ مذہب 2000 سال سے زیادہ پرانا ہے ۔
ہندو مذہب کی تاریخ سب سے پرانی ہے۔ مذہب اسلام کو آئے ہوئے اب 14 سو سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں سالوں پر پھیلے ہوئے یہ مذاہب انسانوں کو امن اور بھائی چارے کا درس ہی دیتے ہیں لیکن ہر مذہب میں کچھ لوگ کچھ گروہ کچھ جماعتیں ایسی ہوتی ہیں جو مذہب کو انسانوں کے درمیان نفرت کا ذریعہ بناتی ہیں۔ آج بھارت پر نظر ڈالیں آر ایس ایس، شیو سینا جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں مذہب کے نام پر جس شیطانیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اس کی وجہ سے پورا بھارت زیر و زبر ہوکر رہ گیا ہے معمولی معمولی بات پر نفرتوں کا پرچارکرنا شیو سینا جیسی تنظیموں کا وتیرہ بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت کے صف اول کے فلم اسٹار عامر خان نے صرف عدم برداشت کے خلاف زبان کھولی تھی جس پر شیو سینا اور اس کی شیطان صفت برادری نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھادیا۔
ہمارے ملک کی اکثریت اور مذہبی جماعتوں کی بڑی تعداد اعتدال پسند ہے اور مذہبی ٹالرنس پر عمل پیرا ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بھارت میں عامر خان، دلیپ کمار(یوسف خان) اور سلمان خان جیسے معروف اداکاروں کے خلاف مہم کے باوجود پاکستان میں کسی طرف سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس کے برخلاف پاکستان میں مذہبی رواداری کے موضوع پر بڑے بڑے کنونشن ہو رہے ہیں، حال ہی میں اسلام آباد کنونشن سینٹر میں جو کانفرنس ہوئی اس میں دنیا کے کئی ممالک کے اکابرین نے شرکت کی اور مذہبی رواداری پر زور دیا۔
مذاہب عالم میں اسلام اس لیے منفرد ہے کہ یہ عوام میں امن اور رواداری کی حمایت کرتا ہے ''لااکراہ فی الدین'' یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔ جس مذہب کی اساس ہو اس مذہب کا نام لے کر آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی کو جس طرح متعارف کرایا جا رہا ہے اس کے پیش نظر عوام ہی نہیں بلکہ مذہبی اکابرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں مذہب اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو استعمال کر رہی ہیں۔
اسلام کا نام لے کر ساری دنیا میں دہشت گردی کو عام کرنے والے دہشت گرد غالباً یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مذہب اسلام سے دور کرنے کی سازش میں وہ روبوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام کا نام لے کر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے سفاک قاتل مذہب کے دوست نہیں بلکہ مذہب کے دشمن ہیں ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ قتل و غارت کے ذریعے دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے نہ انسانوں کے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے۔
آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے آج وہی قومیں ترقی کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں جو جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی کا راستہ اپنا رہی ہیں۔ دنیا میں 57 مسلم ملک ہیں جن کی مجموعی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے ان ملکوں میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے مالا مال 657 مسلم ملک اگر اپنی افرادی قوت اور قدرتی وسائل کا درست استعمال کریں تو وہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں جسے مسلم دشمن طاقتیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ہی ان طاقتوں نے جن میں اسرائیل پیش پیش ہے مذہبی انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 67 برسوں سے فلسطین کے عوام اسرائیلی بربریت کا شکار ہیں اسلام کے نام پر خود لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد اسرائیل کے خلاف دہشت گردی سے کیوں گریزاں ہیں؟ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز مذہبی رواداری برداشت کے مبلغ ہیں اور مذہبی بے راہ روؤں کو ایکسپریس کی یہ پالیسیاں پسند نہیں اس لیے ایکسپریس کے کارکنوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اس پر بار بار حملے کیے جا رہے ہیں۔
حکومت سمیت تمام سیاستدانوں نے سرگودھا آفس پرکریکر حملے کی سخت مذمت کی۔ ایکسپریس پر ان مسلسل حملوں کے تناظر میں حکومت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ ملک بھر میں موجود ایکسپریس کے دفاتر پر فول پروف سیکیورٹی کا بندوبست کرتی لیکن حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ اس قسم کے بزدلانہ حملوں سے نہ ایکسپریس کے کارکنوں کو خوف زدہ کیا جاسکتا ہے نہ ایکسپریس کی حق گوئی اور بے باکی کی پالیسی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایکسپریس نیوز اور ایکسپریس اخبار اپنی ان ہی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں اس قدر مقبول ہیں کہ ان کا شمار صف اول کے میڈیا ہاؤسز میں ہوتا ہے۔ ایکسپریس چینلز اور روزنامہ ایکسپریس کی عوام میں اس مقبولیت کا مطلب یہ ہے کہ عوام ان کی پالیسیوں سے اتفاق ہی نہیں کرتے بلکہ اسے پسند بھی کرتے ہیں۔
آج کی دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کا ہر ملک میں احترام کیا جاتا ہے، اگر عوام کے اس حق کے خلاف کسی حلقے کی طرف سے مزاحمت کی جاتی ہے تو نہ صرف صحافی برادری بلکہ سول سوسائٹی، طلبا برادری، ٹریڈ یونینز اور پیشہ ورانہ تنظیموں کی طرف سے سخت احتجاج کیا جاتا ہے۔
کیونکہ دنیا کے عوام دانشور،مفکر،ادیب، شاعر، فنکار یہ جانتے ہیں کہ آج سائنس وٹیکنالوجی آئی ٹی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ترقی دیکھی جا رہی ہے، وہ اظہار رائے، تحقیق اور تجربات کی ہی مرہون منت ہے۔ پاکستان میں سول اور فوجی ڈکٹیٹروں نے بار بار صحافی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں کیں لیکن ہمیشہ انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب مذہبی ڈکٹیٹر پاکستان سمیت دنیا بھر میں اظہار رائے اور صحافتی آزادی کے خلاف بزدلانہ طریقے اختیارکر رہے ہیں جب کہ دنیا کو پرامن اور خوشحال بنانے کے لیے مذہبی رواداری برداشت کے کلچر کی شدید ضرورت ہے۔
آج دنیا جس خطرناک مذہبی انتہا پسندی کی زد میں ہے اس کا تقاضا ہے کہ مذہبی رواداری مذہبی یکجہتی کی دنیا بھر میں ایک منظم تحریک چلائی جائے تاکہ انسانوں کے درمیان نفرتوں کی جگہ محبت، عدم برداشت کی جگہ برداشت، تعصبات کی جگہ رواداری کا کلچر فروغ پاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی یہ خطرناک لہرکیوں پیدا ہوئی؟ دنیا میں اربوں کی تعداد میں مختلف مذاہب کو ماننے والے لوگ موجود ہیں۔ دنیا میں جو بڑے مذاہب موجود ہیں۔
ان میں عیسائی مذہب، مذہب اسلام، ہندو مذہب، بدھ مذہب، یہودیت اور پارسی مذہب شامل ہیں۔ ان مذاہب کی ایک طویل تاریخ ہے صرف عیسائی مذہب کو لے لیں تو یہ مذہب 2000 سال سے زیادہ پرانا ہے ۔
ہندو مذہب کی تاریخ سب سے پرانی ہے۔ مذہب اسلام کو آئے ہوئے اب 14 سو سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں سالوں پر پھیلے ہوئے یہ مذاہب انسانوں کو امن اور بھائی چارے کا درس ہی دیتے ہیں لیکن ہر مذہب میں کچھ لوگ کچھ گروہ کچھ جماعتیں ایسی ہوتی ہیں جو مذہب کو انسانوں کے درمیان نفرت کا ذریعہ بناتی ہیں۔ آج بھارت پر نظر ڈالیں آر ایس ایس، شیو سینا جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں مذہب کے نام پر جس شیطانیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اس کی وجہ سے پورا بھارت زیر و زبر ہوکر رہ گیا ہے معمولی معمولی بات پر نفرتوں کا پرچارکرنا شیو سینا جیسی تنظیموں کا وتیرہ بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت کے صف اول کے فلم اسٹار عامر خان نے صرف عدم برداشت کے خلاف زبان کھولی تھی جس پر شیو سینا اور اس کی شیطان صفت برادری نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھادیا۔
ہمارے ملک کی اکثریت اور مذہبی جماعتوں کی بڑی تعداد اعتدال پسند ہے اور مذہبی ٹالرنس پر عمل پیرا ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بھارت میں عامر خان، دلیپ کمار(یوسف خان) اور سلمان خان جیسے معروف اداکاروں کے خلاف مہم کے باوجود پاکستان میں کسی طرف سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس کے برخلاف پاکستان میں مذہبی رواداری کے موضوع پر بڑے بڑے کنونشن ہو رہے ہیں، حال ہی میں اسلام آباد کنونشن سینٹر میں جو کانفرنس ہوئی اس میں دنیا کے کئی ممالک کے اکابرین نے شرکت کی اور مذہبی رواداری پر زور دیا۔
مذاہب عالم میں اسلام اس لیے منفرد ہے کہ یہ عوام میں امن اور رواداری کی حمایت کرتا ہے ''لااکراہ فی الدین'' یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔ جس مذہب کی اساس ہو اس مذہب کا نام لے کر آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی کو جس طرح متعارف کرایا جا رہا ہے اس کے پیش نظر عوام ہی نہیں بلکہ مذہبی اکابرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں مذہب اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو استعمال کر رہی ہیں۔
اسلام کا نام لے کر ساری دنیا میں دہشت گردی کو عام کرنے والے دہشت گرد غالباً یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مذہب اسلام سے دور کرنے کی سازش میں وہ روبوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام کا نام لے کر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے سفاک قاتل مذہب کے دوست نہیں بلکہ مذہب کے دشمن ہیں ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ قتل و غارت کے ذریعے دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے نہ انسانوں کے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے۔
آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے آج وہی قومیں ترقی کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں جو جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی کا راستہ اپنا رہی ہیں۔ دنیا میں 57 مسلم ملک ہیں جن کی مجموعی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے ان ملکوں میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے مالا مال 657 مسلم ملک اگر اپنی افرادی قوت اور قدرتی وسائل کا درست استعمال کریں تو وہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں جسے مسلم دشمن طاقتیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ہی ان طاقتوں نے جن میں اسرائیل پیش پیش ہے مذہبی انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 67 برسوں سے فلسطین کے عوام اسرائیلی بربریت کا شکار ہیں اسلام کے نام پر خود لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد اسرائیل کے خلاف دہشت گردی سے کیوں گریزاں ہیں؟ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز مذہبی رواداری برداشت کے مبلغ ہیں اور مذہبی بے راہ روؤں کو ایکسپریس کی یہ پالیسیاں پسند نہیں اس لیے ایکسپریس کے کارکنوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اس پر بار بار حملے کیے جا رہے ہیں۔