بد فعلی کے مجرموں کی سزا کیلیے عمر کی حد14سال مقرر قومی اسمبلی میں بل منظور
بالائی حد 16 سال کی جائے، اپوزیشن، اب سینیٹ میں ترامیم ہو سکتی ہیں، پرویز رشید
اپوزیشن لیڈرکا وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں صدر کے خطاب پر بحث سے انکار، ارکان کی کم حاضری، اجلاس 40 منٹ ملتوی رہا فوٹو: فائل
قومی اسمبلی نے بچوں سے بدفعلی کے مجرموں کی عمر کی بالائی حد 12 سے 14 سال مقرر کرنے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا، اپوزیشن ارکان نے عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بل کی مخالفت کی جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ نے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث کا آغاز کرانے سے معذرت کرتے ہوئے شرط عائد کر دی کہ جب تک وزیراعظم اور حکمران جماعت کے ارکان بڑی تعداد میں ایوان میں موجود نہیں ہوں گے بحث کا آغاز نہیں کرونگا۔
وزیر قانون پرویز رشید نے بچوں سے بدفعلی کے مجرموں کی عمر کی بالائی حد کے حوالے سے فوجداری قانون ترمیمی بل پیش کیا جس کی ایوان نے شق وار منظوری دی۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے مطالبہ کیا عمر کی حد 12 سے 14 کے بجائے 16 سال کی جانی چاہیے۔ پیپلزپارٹی کی شازیہ مری اور عذرا فضل نے بھی شیریں مزاری کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بل کے پس منظر کو واضح کیا جائے۔ پرویز رشید نے کہا کہ 14 سال کا بچہ سمجھدار ہوجاتا ہے اس لیے عمر کی حد 14 سال رکھی گئی ہے۔
یہ قانون عالمی قوانین سے بھی مطابقت رکھتا ہے، اپوزیشن کو ترامیم کرنی ہیں تو سینیٹ میں بات ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث کی دعوت دی گئی تو انھوں نے کہا صرف چند درجن ارکان ایوان میں بیٹھے ہیں، خالی دیواروں سے خطاب کا کیا فائدہ، قائدایوان اور حکومتی ارکان کی بھرپور حاضری کے بغیر خطاب نہیں کرونگا، چیئر قائد ایوان کی موجودگی یقینی بنائے۔
خورشید شاہ کے جانے کے بعد زاہد حامد نے کہا صدارتی خطاب پر بحث کے آغاز کیلیے وزیراعظم کی موجودگی لازمی نہیں، یہ صرف ایک بہانہ ہے جس پر شازیہ مری نے احتجاج کیا۔ جمشید دستی نے کورم کی نشاندہی کی تو 342 کے ایوان میں صرف 35 ارکان موجود تھے جس پر 40 منٹ تک اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ شفقت محمود نے بتایا سشما سوراج کے دورے کے اعلامیے میں کرکٹ سیریزکا ذکر نہیں کیا گیا، ایوان کو بتایا جائے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہیں۔
وزیر قانون پرویز رشید نے بچوں سے بدفعلی کے مجرموں کی عمر کی بالائی حد کے حوالے سے فوجداری قانون ترمیمی بل پیش کیا جس کی ایوان نے شق وار منظوری دی۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے مطالبہ کیا عمر کی حد 12 سے 14 کے بجائے 16 سال کی جانی چاہیے۔ پیپلزپارٹی کی شازیہ مری اور عذرا فضل نے بھی شیریں مزاری کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بل کے پس منظر کو واضح کیا جائے۔ پرویز رشید نے کہا کہ 14 سال کا بچہ سمجھدار ہوجاتا ہے اس لیے عمر کی حد 14 سال رکھی گئی ہے۔
یہ قانون عالمی قوانین سے بھی مطابقت رکھتا ہے، اپوزیشن کو ترامیم کرنی ہیں تو سینیٹ میں بات ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث کی دعوت دی گئی تو انھوں نے کہا صرف چند درجن ارکان ایوان میں بیٹھے ہیں، خالی دیواروں سے خطاب کا کیا فائدہ، قائدایوان اور حکومتی ارکان کی بھرپور حاضری کے بغیر خطاب نہیں کرونگا، چیئر قائد ایوان کی موجودگی یقینی بنائے۔
خورشید شاہ کے جانے کے بعد زاہد حامد نے کہا صدارتی خطاب پر بحث کے آغاز کیلیے وزیراعظم کی موجودگی لازمی نہیں، یہ صرف ایک بہانہ ہے جس پر شازیہ مری نے احتجاج کیا۔ جمشید دستی نے کورم کی نشاندہی کی تو 342 کے ایوان میں صرف 35 ارکان موجود تھے جس پر 40 منٹ تک اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ شفقت محمود نے بتایا سشما سوراج کے دورے کے اعلامیے میں کرکٹ سیریزکا ذکر نہیں کیا گیا، ایوان کو بتایا جائے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہیں۔