ننھے شہداء کو سلام عقیدت

معلوم نہیں دن منحوس اور غم انگیز ہوتے ہیں یا نہیں مگر سولہ دسمبر پاکستان کے لیے نحوست کی علامت بن گیا ہے۔

معلوم نہیں دن منحوس اور غم انگیز ہوتے ہیں یا نہیں مگر سولہ دسمبر پاکستان کے لیے نحوست کی علامت بن گیا ہے۔ اے سولہ دسمبر تو ہمیں بار بار کیوں دکھ دیتا ہے۔

پہلے کیا تو نے ہمیں کم دکھ دیے ہیں، پہلے تو نے ہمارے جسم کا ایک ٹکڑا چھینا تھا مگر اب تو تو نے ہم سے ہمارے لخت جگر ہی چھین لیے۔ اے سولہ دسمبر! پہلے ہی ہم تیرے تلخ ماضی کو یاد کر کے روتے تھے اور اب تو تو نے ہمیں ننھی منی جانوں کا تحفہ دے کر آنکھوں کو لہو رلا دیا ہے، نہیں سنی جاتیں آج بھی ان ماؤں کی سسکیاں جن کے لعل مسل دیے گئے۔ سانحہ عظیم پر نہ کچھ لکھنے کا حوصلہ ہے نہ ہی کچھ کہنے کی ہمت۔ سانحہ پشاور روز اول کی طرح تازہ ہے، جس طرح مشرقی پاکستان کا زخم کبھی مندمل نہیں ہو سکتا سانحہ پشاور بھی فراموش نہیں ہو سکتا۔

سولہ دسمبر ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے، پچھلے سال اس دن کی سیاہی میں مزید اضافہ ہوا، سورج اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا، دھرتی کے منہ پر دھند کا دبیز پردہ پڑا تھا، پرندوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ بیدار ہونے والے ناشتہ بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔

وہ آوازیں بھی بیدار ہو رہی تھی، جنہوں نے خاموش رات کی آغوش میں خواب دیکھے تھے۔ انھی آوازوں میں پشاور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی آوازیں بھی شامل تھیں، ماؤں نے صبح سویرے اپنے لخت جگروں کو اپنے ہاتھوں سے بنا سنوار کر ناشتہ کروانے کے بعد علم کی شمع روشن کرنے اسکول بھیجا تھا وہ اپنے والدین کو اللہ حافظ کہہ کر اڑتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچے تھے، مگر یہ ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ علم کی شمع روشن ہونے کی بجائے ان کی زندگی کے چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو گئے۔

کیونکہ بقائے انسانیت کے نظریے پر کنڈلی مارکر بیٹھے ہوئے کالے ناگ دھرتی ماں کا سینہ پھاڑ کے پھنکارتے ہوئے علم کی درس گاہ پہنچ گئے تھے۔ سفاک، ظالم، بے حس، بے غیرت، بے شرم اور بدترین جانور سے بھی بدتر دہشتگردوں نے پھولوں کے شہر میں پھولوں کو بڑی بے دردی سے مسل ڈالا۔ ظالموں نے پھولوں کو بارود کی نفرت انگیز بو سے مرجھا دیا۔

ایسا دکھ، ایسا غم، ایسی تکلیف، ایسی اذیت، ایسا سانحہ دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا، تقسیم ملک کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ سانحہ عظیم برپا ہو گیا، ہر دل کی دھڑکن تھم گئی، نبض اور ذہن ساکت ہو گئے۔ آنسو تھے کہ تھمنے پر آمادہ نہ تھے، اشکوں کا سیلاب تھا کہ لگتا تھا کہ طوفان برپا کر دے گا۔

سانحہ عظیم میں 250 کے قریب زخمی ہونیوالے بچوں نے موت کو اتنا قریب سے دیکھا کہ تمام زندگی بھلا نہیں سکتے۔ دل و دماغ کی یہ اذیت انھیں ہمیشہ کچوکے لگاتی رہے گی، پوری زندگی وہ اس جانکاہ صدمے سے نکل نہیں پائیں گے۔


یہ قوم بڑی سخت جان ہے، دکھوں اور صدموں کی مسلسل شکار ہے، مگر پھر بھی زندہ ہے، لیکن کیا یہ زندگی ہے، یہ جینا بھی کیا جینا ہے؟ ایک کے بعد ایک حادثہ، ایک نیا المیہ، ایک نیا سانحہ، ایک نئی اذیت، ایک نیا دکھ مگر ان سب چیزوں کے ساتھ ایک نئی چیز اور بھی ہوئی، 150 معصوم صفت حسین فرشتوں اور ان کے اساتذہ کی شہادت نے قربانی کی نئی تاریخ رقم کی، جس پر پوری قوم ان ننھے شہداء کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔

ننھے فرشتوں کی قربانی اور المناک سانحے کے غم کو قوم نے اپنی طاقت میں تبدیل کیا، حزن و ملال کو قومی استقلال میں بدلا، اپنے دکھ و کرب کو دہشتگردی کے خلاف نئے عزم و نئے حوصلے سے بدلا، عرصہ دراز سے وطن عزیز کے گلی و کوچوں میں خون بہانے والے دہشتگردوں کو کچلنے کے لیے پوری قوم متحد ہو گئی۔ پوری قوم، سیاسی جماعتیں، پاک فوج اور مسند نشین ایک پیج پر جمع ہو گئے۔ پاک فوج نے قوم کی امیدوں پر لبیک کہا اور اچھے، برے کی تمیز ختم کروا کر انسانیت کے دشمنوں کے خاتمے کا عزم صمیم کیا۔

سانحہ پشاور کے بعد حقیقی صبح نو طلوع ہو چکی، قومی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف ہوا، ہمارے ناخداؤں کو آنیوالی تباہی کا شدید احساس ہوا، انسانی ضمیر میں درد کی ایک شدید ٹھیس اٹھی اور پورے خطے میں بھونچال سا آیا، سنگ دلی اور شقاوت قلبی کی اس خون آشام واردات نے احساس دلایا کہ پوری انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے اور دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ پرعزم کوششیں درکار ہیں۔

پھولوں کے شہر میں رقص ابلیس کے بعد پوری قوم جاگ اٹھی، خون میں شرابور کہانی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک آ پہنچی، پاک فوج کے ضرب عضب نے دشمنوں کا غرور و تکبر خاک میں ملا دیا ہے، سانپ کی کمر ٹوٹ جائے تو اس کے لیے رینگنا مشکل ہو جاتا ہے، ضرب عضب بھی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کا صفایا کر دیا گیا ہے، پاک فوج پوری بے جگری سے قاتل دہشتگردوں کو جہنم واصل کر رہی ہے، وزیرستان میں ان کی تربیت گاہیں، اسلحہ خانے، ان کے محفوظ ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں، افغانستان کی سرزمین بھی ان کے لیے تنگ ہو گئی ہے، لیکن شہروں میں ان کے سلیپنگ سیل، ان کے سہولت کار ابھی موجود ہیں، یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہے کہ یہ جنگ یہ ہے بھی الگ نوعیت کی جو روایتی جنگوں سے مختلف ہے، جس میں نادیدہ دشمن سے واسطہ ہے، اس میں دشمن ہمارے آس پاس ہے، ہمارے گلی و محلوں حتیٰ کہ ہمارے گھروں میں گھس کر بیٹھا ہے، ہمیں اس دشمن کو پہچاننا ہے، نہ صرف پہچاننا ہے بلکہ کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے، ہماری آنیوالی نسلوں، ہمارے مستقبل اور پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے، یہ اس خطے سمیت پوری دنیا کو پرامن بنانے کی جنگ ہے، یہ لبرل، روشن خیال اور پرامن معاشروں کے ناگزیر قیام کی جنگ ہے۔

یہ جنگ ہمیں نہ صرف لڑنی ہے بلکہ ہر حال میں جیتنی ہے، ہمارے پاس کوئی دوسری چوائس نہیں ہے، افواج یا حکومتیں اکیلے جنگ نہیں لڑ سکتیں، دنیا میں جنگیں قومیں لڑا کرتی ہیں اکیلے فوج نہیں لڑتی، عوام کی حمایت کے بغیر کسی بھی جنگ میں فتح حاصل نہیں کی جا سکتی، اس جنگ میں ہمارے پاس شکست کی کوئی گنجائش نہیں، ہمیں دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں ہر صورت فتح یاب ہونا ہے۔

دشمن پر آخری کاری ضرب لگانے کا وقت آ گیا ہے، خونِ طفلاں کے قرض کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے، سانحہ پشاور کے ننھے شہداء کی برسی کے موقعے پر قوم کے ذہنوں میں سانپوں اور سنپولیوں کے خلاف غصے سے بھرے ہوئے ہیں، پوری قوم پر بدلے اور انتقام کا جنون تازہ ہو گیا ہے، ہر طرف یہی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ اب حشر اٹھا دو، نیست و نابود کر دو ان دہشتگردوں کو، ان کی نسلیں مٹا دو۔ ہم سب اپنی حکومت، اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ آخری دہشتگرد بھی انجام کو پہنچ جائے۔
Load Next Story