امریکی اتحاد

ایوب خان کے زمانے میں سرکاری انداز سے ہٹ کر کئی کام کرنے کی کوشش کی گئی۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ایوب خان کے زمانے میں سرکاری انداز سے ہٹ کر کئی کام کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثلاً ایک ادارہ قومی تعمیر نو کے نام سے بنایا گیا جس میں اس وقت کے معروف دانش ور شامل کیے گئے اور ان کو کتابیں وغیرہ خریدنے کے لیے معقول رقم بھی دی گئی۔ اسی ادارے کے تحت بڑے شہروں میں اسی نام کے ادارے بھی قائم کیے گئے جو ایک ثقافتی مرکز بن گئے جہاں مذاکرے ہوا کرتے اور علمی بحثوں کے لیے مجلسیں برپا ہوتی تھیں۔ راولپنڈی کے مرکزی دفتر میں محترم حمید شیخ کی سربراہی تھی اور ان کے ساتھ ہمارے دوست عباس احمد عباسی بھی نمبر دو کی حیثیت میں کام کرتے تھے۔ ان دنوں جو کتابیں منگوائی گئیں ان میں برطانوی پروفیسر آرنلڈ کی کتاب بھی تھی جو مسلمانوں کے بعض سیاسی فرقوں کے بارے میں تھی۔ اس کتاب میں طویل بحث کے بعد پروفیسر نے یہ نتیجہ نکالا کہ مسلمانوں میں کسی بھی سطح پر انتشار پیدا کرنے کے لیے شیعہ سنی زندہ مسئلہ موجود ہے جسے کسی بھی وقت آسانی کے ساتھ ہوا دی جا سکتی ہے۔ پروفیسر نے اپنی اس مختصر سی کتاب میں شیعہ سنی تنازعوں کی چند مثالیں بھی دیں۔ پروفیسر کی باتیں تاریخی حقائق کے اعتبار سے قابل قبول تھیں۔

میرا یہ نیم طالب علمی کا زمانہ تھا یعنی تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھنا تھا وہ کسی حد تک پڑھ لیا تھا اور اب دوسرے علمی مرکزوں میں تانک جھانک کا زمانہ تھا اسی سلسلے میں راولپنڈی میں اس ادارے میں بھی آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ لاہور شہر کے جم پل شیخ حمید نے شروع دن سے ہی مجھ پر مہربانی کی اور عباسی صاحب جو حکیم اجمل خان کے دست راست دوا ساز حکیم عباسی صاحب کی اولاد میں سے تھے میرے لاہور کے دوست نے جو ریڈیو پر کچھ کام کرتے تھے ان کی ریڈیو کے لیے سب سے بڑی بات ان کی آواز تھی جسے ریڈیو والے بہت پسند کرتے تھے اور کئی ایک کے خیال میں یہ موزوں ترین آواز تھی یہ ریڈیو کی پختگی کا زمانہ تھا۔ وقت کے بڑے بڑے براڈ کاسٹر لاہور ریڈیو اسٹیشن کے ملازم تھے یا مستقل رابطہ رکھتے تھے۔ لاہور کی ایمپریس روڈ پر ایک پرانی مگر آراستہ و پیراستہ عمارت میں ریڈیو اسٹیشن قائم تھا جو بعد میں اپنی جگہ ملنے پر موجودہ عمارت میں منتقل ہو گیا۔ اس نئی عمارت کی انیکسی میں سے پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا۔ ٹی وی چلانے والوں میں ہمارے مرحوم دوست مصلح الدین بھی تھے جن کی وجہ سے ٹی وی پر ہمارا بھی آنا جانا تھا۔ کسی دن ٹی وی والے ہم سے خبروں کا ترجمہ کرا لیتے تھے اور اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ دوستوں کی محفل کسی اچھے ریستوران میں جم جایا کرتی تھی۔

بات برطانوی پروفیسر کی کتاب کی ہو رہی تھی جو ایوب خان کے قائم کردہ ادارے نے منگوائی تھی۔ کتاب پڑھ لی اور بھول گئی بہت بعد جب امریکا وغیرہ نے مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی شروع کی تو اور شیعہ سنی مسئلہ پھر سے شروع ہونے لگا تو مجھے یہ کتاب بہت یاد آئی مگر تب تک یہ ادارہ ختم ہو چکا تھا اور اس کا سامان کتابوں سمیت نہ جانے کون ردی فروش لے گیا۔ ہمارے ہاں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کسی حکمراں یا با اختیار شخص نے کوئی مفید کام شروع کیا جو اس کے ساتھ ہی چلا گیا چند اچھی اور مفید یادیں چھوڑ کر۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم نے اچھے کام بھی عارضی بنیادوں پر شروع کیے اور ان کے لیے کوئی مستقل صورت نکالے بغیر انھیں عارضی ہی چھوڑ دیا۔ ہمارے ہاں جو علمی خلا ملتا ہے اس کا ایک سبب ہمارا یہی رویہ ہے۔ بعض حکمرانوں نے نیک نیتی اور شوق کے ساتھ علمی کام بھی شروع کیے مگر وہ سب کام عارضی ثابت ہوئے۔ ایوب خان کے اقتدار میں کئی کام ہوئے تھے لیکن اب وہ سب کہیں گم ہو چکے ہیں۔ ان کی کوئی تلخ اور افسردہ یاد ہی باقی ہے۔


امریکا نے موجودہ حالات میں ایک کام یہ بھی مناسب سمجھا کہ شیعہ سنی مسئلے کو پھر سے حکومتی سطح پر زندہ کیا جائے چنانچہ سعودی عرب کے زیر اہتمام کوئی 34 ملکوں کا ایک اتحاد قائم ہوا ہے جس کا مقصد اس اسلامی کلاسیکی مسئلے کو زندہ کرنا اور اس کی بقا اور وجود پر تصدیق کی مہر لگانا ہے جو ان 34 اسلامی ممالک نے لگا دی ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے بلا تکلف اور بلا تأمل یہ کہا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد داعش وغیرہ کے مقابلے کے لیے سنیوں کو جمع کرنا اور ان کے کردار کو وسعت دینا ہے اور یہ سب امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے۔ یہ مسئلہ دراصل سیاسی ضرورت کی پیداوار ہے ایران کے شاہ اسماعیل صفوی نے مسلمانوں کے اندر شیعہ سنی تفریق کو مستقل کیا اور ایران کو ایک مسلک جسے ہم شیعہ مسلک کہتے ہیں کا مرکز بنا دیا۔ اس سلسلے میں بہت بدامنی بھی ہوئی اور لاتعداد سنی مارے گئے یا ملک چھوڑ گئے۔

اسلامی اتحاد کی تباہی کی یہ ایک طویل کہانی ہے جو تاریخ کے صفحات پر زندہ ہے اور محب اسلام لوگوں کو مستقل پریشان کرتی رہتی ہے۔ اب اپنے پاکستان کی مثال لیجیے یہاں اب ہندو مسلم فساد تو باقی نہیں رہا لیکن اسلام کے اندر اسلام دشمنوں نے ایک فساد تلاش کر لیا ہے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں اور یہ لڑائی اسلام کے نام پر ہے یعنی اسلام کی مختلف تعبیروں اور تفسیروں پر جو بدنیت لوگوں نے بڑی محنت کے ساتھ پیدا کی ہیں لیکن یہ اختلافات اب اس قدر گہرے ہو چکے ہیں کہ انھیں دین و ایمان کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور اب اگر مسلمانوں کے مخلص غیر سیاسی دانشور جمع ہوں اور یہ بڑا تاریخی کام کرنے کی ہمت کریں تو شاید انھیں کچھ کامیابی حاصل ہو لیکن ایک بات تو ہو گی کہ شیعہ سنی اختلافات میں ایک بیج کی راہ نکل آئے گی جو سیاسی اور مقامی تعصبات سے آزاد ہو گی اور غیر جانبدار ذہن رکھنے والوں کو حوصلہ دے گی۔

تیسرا راستہ یا درمیان کی کوئی غیر متعصبانہ طرز فکر دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مسلمانوں کو قابو رکھنے کی جو ضرورت پیدا ہوتی ہے وہ ان دنوں امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے۔ یہ نیا اسلامی اتحاد ہی دیکھ لیں کہ اس میں جو ممالک شامل ہیں وہ کسی نہ کسی نظریاتی اتحاد میں پہلے ہی شامل ہیں اور ان میں سے اپنی پسند کے ملکوں کو امریکا نے اب کھل کر اپنی سرپرستی میں لے لیا ہے شکر ہے کہ پاکستان اب تک اس میں شامل نہیں ہے لیکن آج کل کے حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں کہ کل ان کی پالیسی کیا ہو گی اور وہ امریکا کی نافرمانی کس حد تک برداشت کریں گے۔ یہ امریکی اتحاد مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک حربہ اور چال ہے جس میں 34 اسلامی ممالک تو پھنس چکے ہیں مزید کا انتظار کیجیے۔
Load Next Story