ایسے جرنیل بھی ہوتے ہیں

دسمبر کا دم لبوں پر ہے، نصف سے زیادہ گزر چکا ہے اور اب کہیں جا کر ٹھنڈ لگی ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

LOS ANGELES:
دسمبر کا دم لبوں پر ہے، نصف سے زیادہ گزر چکا ہے اور اب کہیں جا کر ٹھنڈ لگی ہے، وہ بھی تھوڑی سی۔ موٹا سویٹر پہنا ہے اور کبھی صبح شام اگر کسی کھلی جگہ جانا ہو تو اس پر ایک کوٹ بھی۔ ابھی گلے میں لپیٹنے کے لیے مفلر یعنی گلوبند کی ضرورت نہیں پڑی۔ ویسے آپ نے کبھی دیکھا ہو گا کہ امرتسر کے رہنے والے برائے نام سردی میں بھی صرف قمیض پر بھی مفلر لپیٹ لیتے ہیں اور اگر انھوں نے انتہائی قیمتی سوٹ بھی پہنا ہو تب بھی اس پر مفلر لٹکا لیتے ہیں۔ البتہ سردیوں کے لباس کے معاملے میں لاہور والے نارمل ہیں۔ یہ سب ہر شہر کا اپنا اپنا رواج اور کلچر ہے، کسی کے گلے میں مفلر اور کسی کے گلے میں صرف سویٹر ان دنوں لاہوریوں کے لیے صرف سویٹر کافی ہے۔

البتہ گوالمنڈی میں جہاں میاں صاحب کے ووٹر رہتے ہیں وہاں امرتسر اور لاہور دونوں باہوں میں باہیں ڈالے نظر آتے ہیں اور ان کی اسی گومگو کی کیفیت میں سرما کا خوبصورت موسم گزر جاتا ہے جس کے دن اور رات دونوں خوبصورت سے خوبصورت تر ہوتے ہیں۔ دھوپ میں بیٹھنے کا جو مزا ہے وہ کسی باغ کی ہوا میں نہیں اور رات کو سردی لپیٹ کر سونا بھی موسم سرما کی ایک نعمت ہے۔ موسم سرما کی نشانی یعنی دسمبر طویل انتظار کے بعد آ گیا ہے طویل انتظار اس لیے کہ اس دفعہ سردیاں بہت دیر سے آئی ہیں، کالم نویسوں نے اس پر بہت احتجاج کیا ہے لیکن اللہ کے کاموں کی مرضی جس نے جب آنا اور جانا ہے یہ سب خدا ہی جانتا ہے موسمیات والے اس ضمن میں بے بس ہیں بلکہ ان کی کئی پیش گوئیاں تو الٹ ثابت ہوتی ہیں لیکن محکمہ موسمیات والوں کی یہ حالت ہمارے ہاں ہی ہے۔

ایک دن میں لندن میں صبح باہر نکلا تو دیکھا کہ کئی لوگوں نے چھتریاں اٹھائی ہوئی ہیں، معلوم ہوا کہ موسمیات والوں نے لندن کے بعض حصوں میں بارش کی پیش گوئی کر رکھی ہے اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اس متوقع بارش کی طرف جانا ہے اس لیے چھتری ضروری ہے۔ لندن بارشی علاقہ ہے یہاں گھروں میں چھتریاں ضرور ہوتی ہیں اور یہ ان کے لباس کا ایک حصہ ہیں۔ جب میں نے چھتری خریدی تو اس کی قیمت ادا کرتے ہوئے یوں لگا جیسے کسی نے جیب کاٹ لی ہو۔


میں پاکستان کے ایک سرد علاقے کا رہنے والا ہوں۔ یہ تو معلوم نہیں کہ ٹمپریچر کتنا ہوتا ہے کہ اس کی پیمائش کے آلات ہی نہیں ہوتے لیکن نقطہ انجماد تو عام ہے کیونکہ لاہور کی سردی پر قیاس کریں تو اس میں کچھ اضافے کے بعد نقطہ انجماد آ جاتا ہے۔ جب ایک فوجی نے جو کوئٹہ سے چھٹی پر آیا ہوا تھا یہ بتایا کہ وہاں سردی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ روئیں تو آنکھوں میں آنسو جم جاتے ہیں تو ہمیں تعجب ہوا۔ جب کسی معصوم دیہاتی نے پوچھا کہ پھر جب گھر سے اداس ہوں اور گھر اور گھر والے بہت یاد آتے ہوں تو کیا کرتے ہو اس پر جواب ملا کہ کمبل کے اندر چھپ کر رو لیتے ہیں اور دل ہلکا کر لیتے ہیں۔ یہ وہ پرانا زمانہ تھا جب کسی فوجی کا صرف خط ہی ملتا تھا یا کسی فوجی کے گھر سے خط ہی جاتا تھا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ رسل و رسائل کے یہ جدید طریقے کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔ کوئی ضروری اور فوری اطلاع صرف تار سے دی جاتی تھی اور جب ڈاکیہ کسی گھر آ کر اطلاع کرتا کہ تمہارا تار آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تمہارا کوئی مر گیا ہے جس کی اطلاع ہے ورنہ تار بھیجنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔

میں اس زمانہ کی بات کر رہا ہوں جب ہم بچے کسی فوجی کی آمد کو ایک بڑا واقعہ سمجھتے تھے اور اس فوجی کے رشتہ دار بچے سب کے سامنے ٹافیاں کھایا کرتے جو یہ فوجی لایا تھا۔ وہ اپنے کو برتر سمجھتے تھے اور دوسرے بچوں کو چڑھاتے تھے۔ جن بچوں کا کوئی رشتہ دار فوج میں ہوتا تو وہ اس کے نام خط میں اپنی طرف سے ٹافیوں کی فرمائش ضرور کرتا۔ ہمارے ہاں واحد اسٹیشن خوشاب تھا جہاں کی ریلوے اسٹیشن یا بسوں کے اڈے پر دکانوں میں وہ تمام چیزیں موجود ہوتیں جو بچوں کو پسند ہوتی ہیں چنانچہ پردیس سے آنے والے فوجی پہلے تو بچوں کو چپ کرانے کے لیے ٹافیاں وغیرہ خریدتے یا کسی خاص پیارے بچے کے لیے کوئی کھلونا بھی۔ اس کے بعد وہ قریب ہی دھوبی کی دکان پر جا کر اپنی پگڑی اس کے حوالے کرتا جو وہ دھو کر اور کلف لگا کر اسے تیار کر دیتا، یہ فوجی اس پگڑی کو دکان کے اندر شیشے کے سامنے بیٹھ کر اپنی پسند کی تہیں دے کر اسے باندھتا اور پھر اڈے پر جا کر بس کا ٹکٹ خریدتا۔ بالعموم وہ اس پگڑی کو سر سے اتار کر گود میں رکھ دیتا تاکہ اس کی کلف کی اکڑ ضایع نہ ہو۔

بات سردیوں کی ہو رہی تھی جو فوج تک جا پہنچی۔ فوج ابھی ہم سے دور ہے اور ایک حیرت انگیز بات اور خبر یہ ملی ہے کہ ہمارے سپہ سالار کو جو دو بہت ہی قیمتی پلاٹ الاٹ کیے گئے جن کی قیمت اب تو اربوں میں تھی وہ دونوں پلاٹ اس نے اپنی فوج کے ایک شعبے کو دے دیے ہیں۔ یہ ہمارا پہلا سپہ سالار ہے جس نے یہ زبردست اور ناقابل یقین مالی قربانی دی ہے ورنہ ہم نے تو جرنیلوں کو ارب پتی بنتے دیکھا ہے ان کی طرح لٹتا نہیں دیکھا اور کوئی جرنیل اتنی بڑی قربانی کر دے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ ان کے گھر میں کس قدر سادگی سے گزر بسر ہوتی ہے اور بیگم صاحبہ بازار جائیں تو وہ ذرہ بھر رعایت کے لیے بھی تیار نہیں ہوتیں۔ اپنے شوہر کی تنخواہ پر گزارہ کرتی ہیں اور گھر چلاتی ہیں۔ ان کے شوہر نے اپنی فوج کے لیے جو قربانی دی ہے اس نے اس خاتون کا مقام بھی بہت بلند کر دیا ہے اگر وہ ضد کرتیں تو بچوں کے لیے ایک آدھ پلاٹ یا اس کا کچھ حصہ ہی بچا لیتیں مگر لگتا ہے یہ وہ واحد خاتون ہیں جو اپنے شوہر کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔ اپنے سپہ سالار کے بارے میں ایسی نا ممکن اور ناقابل یقین خبریں پڑھ سن کر وہ مارشل لاء سے بہت دور لگتے ہیں بہر حال فی الحال تو یہی عرض ہے کہ ایسے جرنیل ہی ہوتے ہیں اور پاکستان میں؟
Load Next Story